Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 26
وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْضٰى
وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ : اور کتنے ہی فرشتے ہیں فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں لَا : نہ تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ : کام آئے گی ان کی سفارش شَيْئًا : کچھ بھی اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ : مگر اس کے بعد اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ : کہ اجازت دے اللہ لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے چاہے وَيَرْضٰى : اور وہ راضی ہوجائے
اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں کہ نہیں کام دیتی ان کی سفارش کچھ بھی مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے اجازت دے اور پسند کرے
ربطہ آیات سورة کے ابتدائی حصے میں رسالت کا ذکر ہوا۔ اور رسالت میں شک و شبہ کرنے والوں کا اللہ نے ردّ فرمایا۔ وحی الٰہی کے نزول کا ذکر ہوا اور پیغمبر خدا کے بلند مقام پر فائز ہونے کا تذکرہ ہوا۔ معراج کے واقعہ میں حضور ﷺ نے قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد اللہ نے مشرکین کے معبودانِ باطلہ لات ، غزیٰ اور منات کی تردید کی۔ فرمایا مشرک لوگ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہیں۔ مگر بیٹیوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔ فرمایا یہ کتنی غلط بات ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے اس کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ محض گمان اور نفسانی خواہشات پر چلتے ہیں۔ وگرنہ ان کے پاس ہدایت کی کوئی سند موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اور کتاب کی صورت میں ہدایت پہنچ چکی ہے مگر یہ بد بخت اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ فرشتوں کی سفارش گذشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ مشرکین عرب نے لات ، غریٰ اور منات جیسے مجسمے بنا رکھے تھے جن سے حاجت روائی اور مشکل کشائی چاہتے تھے۔ اس کا یہ زعم باطل تھا کہ یہ معبود ہمیں اللہ کے ہاں ضرور چھڑا لیں گے خواہ اللہ تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ، اس طرح وہ گویا جبری سفارش کے قائل تھے۔ اب آج کے درس میں اللہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کو بھی اپنا سفارشی سمجھتے تھے مگر اللہ نے اس کے اس باطل عقیدہ کی بھی تردید فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے وکم من ملکٍ فی السموت آسمانوں میں اللہ کے بہت سے فرشتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ کے بیشمار فرشتے ہیں جن کے مختلف درجات ہیں۔ بعض ملاء اعلیٰ کے فرشتے ہیں جو بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ بعض حاملین عرش ہیں۔ بعض عرش کے گرد طواف کرنے والے ہیں۔ خطیرۃ القدس کے رہنے والے اور علیین کے فرشتے بھی ہیں۔ پھر آسمانوں میں رہنے والے عام فرشتے ہیں ، پھر آسمان دنیا کے فرشتے ، پھر درجہ بدرجہ فضائوں کے فرشتے اور پھر ملاء سافل کے فرشتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی معصوم مخلوق ہے اور ہر وقت احکام خداوندی کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔ ان سب کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان کی نگاہ ہمیشہ خداوند تعالیٰ کی تجلی اعظم کی طرف لگی رہتی ہے اور وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں فرمایا اتنی مقرب مخلوق ہونے کے باوجود ان کا حال یہ ہے لا تغنی شفاعتھم شیئاً ان کی سفارش کچھ کام نہیں دیتی الا من م بعد ان یاذن اللہ لمن یشاء سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس سفارش کی اجازت دے جس کے لیے چاہے۔ اور دوسری بات یہ ویرضیٰ اور اس کو پسند بھی کرے۔ مطلب یہ کہ کسی شخص کے حق میں سفارش اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کی رضا کے ساتھ مشروط ہے۔ اُدھر قرآن پاک میں موجود ہے ولا یرضیٰ لعبادہ الکفر (الزمر۔ 7) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کفر کو بالکل پسند نہیں کرتا اور یہی حال شرک کا بھی ہے جس کو اللہ نے ظلم عظیم سے تعبیر کیا ہے تو اس لحاظ سے سفارش کا حقدار وہ شخص ہوگا جو کفر کی بجائے ایمان رکھتا ہو اور شرک کی بجائے خالص توحید کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اگر یہ دو چیزیں موجود ہیں۔ تو پھر اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر ایسے شخص کے حق میں سفارش کی اجازت بھی دے گا اور پھر اسے قبول بھی فرمالے گا۔ برخلاف اس کے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلاں بزرگ ، نبی ، ولی یا فرشتہ ضرور ہی سفارش کرکے اللہ تعالیٰ کو منوالے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ امام رازی (رح) اس کو جبری سفارش سے تعبیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اللہ کے ہاں ایسی سفارش کی کوئی حیثیت نہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسی سفارش کے قائل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے حکمرانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ دنیا کے سلاطین اور امراء کو تو بعض اوقات کسی کی سفارش مجبوراً ماننی پڑتی ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔ اسے اُس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے پر کون مجبور کرسکتا ہے ؟ یہ جبری سفارش والا عقیدہ بالکل باطل ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی شخص کی سفارش پیش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پیشگی اجازت ضروری ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو سفارش کی اجازت ہی نہیں دیں گے تو کون ہے جو اس کے سامنے دم مار سکے ؟ اس کا واضح فرمان من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ ( البقرہ۔ 255) کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر اس کے پاس سفارش کرسکے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ کائنات میں افضل ترین ہستی حضور خاتم النبین ﷺ کی ذات مبارکہ ہے قیامت والے دن جب مخلوق سخت تکلیف میں ہوگی تو اس وقت اس بات کی ضرورت ہوگی کہ اللہ کی کوئی مقرب ہستی اس کے پاس سفارش کرے کہ وہ مخلوق کی تکلیف کے پیش نظر حساب کتاب شروع کردے۔ مخلوق اللہ کے برگزیدہ انبیاء کے پاس جائے گی کہ وہ ان کی درخواست اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں ، مگر کوئی بھی اس کام کی ہمت نہیں پائے گا۔ بالآخر لوگ حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائوں گا اور اس کی ایسی تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت خود اللہ مجھے الہام کرے گا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ دس سال تک سجدہ میں پڑے رہیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یا محمد ارفع راسک سل تعط واشفع تشفع اے محمد ! سر اٹھائیں ، آپ سوال کریں اسے پورا کیا جائے گا ، اور آپ سفارش کریں اس کو قبول کیا جائے گا۔ غرضیکہ اللہ کی اجازت کے بغیر اس کا سب سے برگزیدہ اور امام الانبیاء بھی سفارش کر نیکی جرأت نہیں کرسکے گا۔ اس کے بعد شفاعتِ صغریٰ ہے جو امت کے گنہگاروں کے حق میں ہوگی بعض لوگوں کے حق میں دوزخ واجب ہوچکی ہوگی۔ مگر حضور ﷺ کی سفارش سے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمادے گا۔ بعض لوگ دوزخ میں پہنچ چکے ہوں گے اور وہ بھی سفارش سے وہاں سے نکل آئیں گے۔ بعض کی سفارش بلندی درجات کے لیے ہوگی ، جو قبول کی جائیگی۔ علی ہذا القیاس جب حضور ﷺ کو شفارت کی اجازت مل جائے گی تو پھر باقی انبیائ ، شہداء اور صالحین بھی اللہ کی اجازت سے سفارش کریں گے۔ مگر یہ اسی شخص کے حق میں قبول ہوگی ورضی لہ قولا ( طہٰ 109) جس کی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہوگی۔ کوئی بھی سفارش کرنے والا کسی کافر اور مشرک کے حق میں سفارش نہیں کرے گا اور نہ ہی ایسی سفارش قبول ہوگی۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اجازت دی کہ وہ ایک دعا جونسی چاہیں منظور کرالیں۔ سارے نبیوں نے اپنی اپنی ایک ایک دعا دنیا میں ہی قبول کرالی مگر میں نے اس کو قیامت کے دن تک موخر کردیا جسے میں اپنی امت کی بخشش کے لیے استعمال کروں گا۔ فرمایا وھی نائلۃ ان شاء اللہ من امتی لمن لم یشرک باللہ شیئاً اور میری وہ دعا اور سفارش میری امت کے ہر اس شخص کو پہنچے گی جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا۔ مشرک ، کافر ، منافق ، مرتد ، زندیق اور ملحد حضور ﷺ کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ بہر حال فرمایا کہ آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کارگر نہیں ہوتی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس شخص کے حق میں جس پر وہ راضی ہو۔ منکرین قیامت کی محرومی آگے ارشاد ہوتا ہے ان الذین لا یومنون بالاٰخرۃ لیسمون الملٰکۃ تسمیۃ الانثیٰ بیشک وہ لوگ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے عورتوں جیسے نام رکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ منکرین قیامت اول فول باتیں کرتے ہیں مثلاً یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں جننیاں ہیں۔ گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان رشتہ ثابت کیا ہے۔ فرمایا یہ ایسی فضول باتیں کرتے ہیں حالانکہ وما لھم بہ من علمٍ ان کو اس بات کا کچھ علم نہیں ہے۔ ایسے لوگ حقیقت سے بےبہرہ ہیں ان یتبعون الا الظن یہ تو محض گمان کا اتباع کر رہے ہیں۔ وان الظن لا یغنی من الحق شیئاً اور گمان کا خاصہ یہ ہے کہ یہ حق کے مقابلے میں کچھ کارآمد نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے۔ ایاکم والظن لوگو ! اپنے آپ کو بد گمانی سے بچائو کیونکہ بد گمانی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ مطلق گمان تو ناقابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عربی زبان میں ظن گمان کے معنی بھی آتا ہے اور یقین کے معنی میں بھی جیسے سورة البقرہ میں ہے کہ نماز گراں گزرتی ہے سوائے ان لوگوں کے جن کے دل میں خشیت الٰہی ہے الذین یظننون انھم ملقوا ربھم وانھم الیہ راجعون (آیت 46) اور یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں ، اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اسی طرح اگر ظن گمان کے معنی میں ہوتویہ شک و تردد والی بات ہوتی ہے اور ایسے ہی گمان سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ محض گمان حق کے مقابلے میں کچھ مفید نہیں۔ خاص طور پر اعتقادیات کے کے معاملہ میں تو گمان پر قطعاً اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس کے لیے قرآن و سنت سے قطعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اعمال میں گمان غالب پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو۔ چناچہ قیاس یا اجتہاد یا تقلید ظن پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اما م بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حق ایسی چیز ہے جسے علم کے ساتھ ہی پایاجاسکتا ہے ، اور کوئی عقیدہ قطعی دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی گمان کا معارف حقیقیہ میں اعتبار ہوتا ہے۔ گمان کا اعتبار عملیات میں ہوتا ہے لہٰذا وہاں پر ضعیف احادیث پر بھی عمل کرلیا جاتا ہے۔ صرف دنیا طلبی آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو خطاب کرکے فرمایا ہے فاعرض عن ن تولیٰ عن ذ کرنا پس آپ منہ پھیر لیں اس شخص سے جس نے روگردانی کی ہماری یاد سے ولم یرد الا الحیوۃ الدنیا اور نہیں ارادہ کیا مگر صرف دنیا کی زندگی کا۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص صرف دنیا کا طالب ہے اور آخرت کی کچھ فکر نہیں رکھتا ، آپ اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دیں بلکہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ذلک مبلغھم من العلم ان لوگوں کا مبلغ علم یہی ہے یعنی ان کے علم کی پہنچ صرف دنیا کے حصول تک ہی محدود ہے اور آخرت کی انہیں کچھ فکر نہیں۔ سورة الروم میں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا۔ یعلمون ظاہرًا من الحیوۃ الدنیا و ھم عن الاٰخرۃ ھم غفلون ( آیت۔ 7) کہ یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی کو ہی جانتے ہیں کہ اس کو کیسے حاصل کرنا ہے اور اس سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے ، یہ لوگ آخرت کی دائمی زندگی سے بالکل غافل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان ھی الاحیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما نحن بمبعوثین ( المومنون۔ 37) ہماری یہ دنیا کی زندگی ہی ہے ، اسی میں ہم نے مرنا اور اسی میں جینا ہے ، اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ مطلب یہی ہے کہ ان کے ہاں آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے حدیث شریف میں آتا ہے الدنیا دارمن لا دارلہ دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا آخرت میں کوئی گھر نہیں ومال من لا مال لہ اور دنیا کا مال اس شخص کا مال ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ویجمع من لا عقل لہ اور اس مال کو وہی جمع کرتا ہے جو عقل سے محروم ہے۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کی یہ دعا بھی منقول ہے اللھم لا تجعل الدنیا اکبرھمنا ولا مبلغ علمنا ولا غایۃ رغبتنا اے اللہ ! صرف دنیا کو ہی ہمارا بڑا مقصود نہ بنا ، اور نہ ہمارا مبلغ علم کو اس کی پہنچ دنیا تک ہی محدود ہو اور ہماری انتہائی غرض بھی دنیا ہی کو نہ بنا۔ فکر معاد اور فکر معاش حضر ت عاصم بن ابی النجود (رح) محدث فرماتے ہیں ھمان لابد للمومن ھم المعاش وھم المعاد مومن کے لیے دو قسم کی فکر ضروری ہے۔ یعنی فکر معاش اور فکر معاد۔ گویا ایک مومن شخص کو دنیا کے لوازمات کی بھی فکر ہونی چاہئے اور آخرت کی زندگی کے لیے بھی توشہ تیار کرنا چاہئے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن پاک میں نیک لوگوں کی دعا بھی یہی سکھلائی گئی ہے ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃً وفی الاٰخرۃِ حسنۃً (البقرہ۔ 201) اے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی بہتری عطا فرما اور آخرت میں بہتری عطا کر ، مقصد یہ ہے کہ جس طرح آخرت کی فکر ضروری ہے ، اسی طرح دنیا کو بھی فراموش کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسا کرنا تو رہبانیت ہے جس کی اجازت نہیں دی گئی۔ مگر ساتھ یہ بھی ہے کہ انسان دنیا کو ہی اپنا منتہائے مقصود بنالے جیسا کہ آج کل ترقی یافتہ ممالک میں ہورہا ہے۔ ان لوگوں کے پیش نظر صرف فکر معاش ہے ان کی سوچ ، تعلیم ، فلسفہ ، ٹیکنالوجی سب کچھ دنیا کی بہتری کے لیے ہے۔ اور آخرت کا تصور نہیں ہے۔ ان کی ساری تگ و دو نفسانی خواہشات کے لیے لہودولعب اور عیش و آرام کیلئے ہے ان النفس لامارۃ م بالسوئ (یوسف 53) انسان کا نفس تو اسے برائی پر ہی آمادہ کرتا ہے اور یہ لوگ اسی نفس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ بھلا ان کو آخرت کی فکر کیسے ہوسکتی ہے ؟ آگر آخرت کی فکر کریں گے تو عیش و عشرت اور دیگر نفسانی خواہشات کو ترک کرنا پڑیگا۔ مگر یہ اس کام کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گمراہی اور ہدایت فرمایا آپ ایسے لوگوں کی طرف دھیان نہ کریں جو ہماری یاد سے غافل ہیں اور صرف دنیا کی زندگی کے طالب ہیں۔ ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہٖ بیشک تیرا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اس شخص کو جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا وھوا علم بمن اھتدیٰ اور وہ اس شخص کو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور وہ ہر شخص کو اس کے عقیدے ، عمل ، کردار اور اخلاق کے مطابق ہی بدلہ دے گا۔ وہ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرے گا اور کسی مجرم کو سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ اطمینان رکھیں اور اپنا کام کرتے جائیں۔
Top