Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 26
وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْضٰى
وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ
: اور کتنے ہی فرشتے ہیں
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
لَا
: نہ
تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ
: کام آئے گی ان کی سفارش
شَيْئًا
: کچھ بھی
اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ
: مگر اس کے بعد
اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ
: کہ اجازت دے اللہ
لِمَنْ يَّشَآءُ
: جس کے لیے چاہے
وَيَرْضٰى
: اور وہ راضی ہوجائے
اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں کہ نہیں کام دیتی ان کی سفارش کچھ بھی مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے اجازت دے اور پسند کرے
ربطہ آیات سورة کے ابتدائی حصے میں رسالت کا ذکر ہوا۔ اور رسالت میں شک و شبہ کرنے والوں کا اللہ نے ردّ فرمایا۔ وحی الٰہی کے نزول کا ذکر ہوا اور پیغمبر خدا کے بلند مقام پر فائز ہونے کا تذکرہ ہوا۔ معراج کے واقعہ میں حضور ﷺ نے قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد اللہ نے مشرکین کے معبودانِ باطلہ لات ، غزیٰ اور منات کی تردید کی۔ فرمایا مشرک لوگ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہیں۔ مگر بیٹیوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔ فرمایا یہ کتنی غلط بات ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے اس کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ محض گمان اور نفسانی خواہشات پر چلتے ہیں۔ وگرنہ ان کے پاس ہدایت کی کوئی سند موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اور کتاب کی صورت میں ہدایت پہنچ چکی ہے مگر یہ بد بخت اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ فرشتوں کی سفارش گذشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ مشرکین عرب نے لات ، غریٰ اور منات جیسے مجسمے بنا رکھے تھے جن سے حاجت روائی اور مشکل کشائی چاہتے تھے۔ اس کا یہ زعم باطل تھا کہ یہ معبود ہمیں اللہ کے ہاں ضرور چھڑا لیں گے خواہ اللہ تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ، اس طرح وہ گویا جبری سفارش کے قائل تھے۔ اب آج کے درس میں اللہ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کو بھی اپنا سفارشی سمجھتے تھے مگر اللہ نے اس کے اس باطل عقیدہ کی بھی تردید فرمائی ہے ارشاد ہوتا ہے وکم من ملکٍ فی السموت آسمانوں میں اللہ کے بہت سے فرشتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ کے بیشمار فرشتے ہیں جن کے مختلف درجات ہیں۔ بعض ملاء اعلیٰ کے فرشتے ہیں جو بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ بعض حاملین عرش ہیں۔ بعض عرش کے گرد طواف کرنے والے ہیں۔ خطیرۃ القدس کے رہنے والے اور علیین کے فرشتے بھی ہیں۔ پھر آسمانوں میں رہنے والے عام فرشتے ہیں ، پھر آسمان دنیا کے فرشتے ، پھر درجہ بدرجہ فضائوں کے فرشتے اور پھر ملاء سافل کے فرشتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی معصوم مخلوق ہے اور ہر وقت احکام خداوندی کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔ ان سب کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان کی نگاہ ہمیشہ خداوند تعالیٰ کی تجلی اعظم کی طرف لگی رہتی ہے اور وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں فرمایا اتنی مقرب مخلوق ہونے کے باوجود ان کا حال یہ ہے لا تغنی شفاعتھم شیئاً ان کی سفارش کچھ کام نہیں دیتی الا من م بعد ان یاذن اللہ لمن یشاء سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس سفارش کی اجازت دے جس کے لیے چاہے۔ اور دوسری بات یہ ویرضیٰ اور اس کو پسند بھی کرے۔ مطلب یہ کہ کسی شخص کے حق میں سفارش اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کی رضا کے ساتھ مشروط ہے۔ اُدھر قرآن پاک میں موجود ہے ولا یرضیٰ لعبادہ الکفر (الزمر۔ 7) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کفر کو بالکل پسند نہیں کرتا اور یہی حال شرک کا بھی ہے جس کو اللہ نے ظلم عظیم سے تعبیر کیا ہے تو اس لحاظ سے سفارش کا حقدار وہ شخص ہوگا جو کفر کی بجائے ایمان رکھتا ہو اور شرک کی بجائے خالص توحید کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اگر یہ دو چیزیں موجود ہیں۔ تو پھر اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر ایسے شخص کے حق میں سفارش کی اجازت بھی دے گا اور پھر اسے قبول بھی فرمالے گا۔ برخلاف اس کے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلاں بزرگ ، نبی ، ولی یا فرشتہ ضرور ہی سفارش کرکے اللہ تعالیٰ کو منوالے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ امام رازی (رح) اس کو جبری سفارش سے تعبیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اللہ کے ہاں ایسی سفارش کی کوئی حیثیت نہیں۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایسی سفارش کے قائل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے حکمرانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ دنیا کے سلاطین اور امراء کو تو بعض اوقات کسی کی سفارش مجبوراً ماننی پڑتی ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔ اسے اُس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے پر کون مجبور کرسکتا ہے ؟ یہ جبری سفارش والا عقیدہ بالکل باطل ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کسی شخص کی سفارش پیش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پیشگی اجازت ضروری ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو سفارش کی اجازت ہی نہیں دیں گے تو کون ہے جو اس کے سامنے دم مار سکے ؟ اس کا واضح فرمان من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ ( البقرہ۔ 255) کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر اس کے پاس سفارش کرسکے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ کائنات میں افضل ترین ہستی حضور خاتم النبین ﷺ کی ذات مبارکہ ہے قیامت والے دن جب مخلوق سخت تکلیف میں ہوگی تو اس وقت اس بات کی ضرورت ہوگی کہ اللہ کی کوئی مقرب ہستی اس کے پاس سفارش کرے کہ وہ مخلوق کی تکلیف کے پیش نظر حساب کتاب شروع کردے۔ مخلوق اللہ کے برگزیدہ انبیاء کے پاس جائے گی کہ وہ ان کی درخواست اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں ، مگر کوئی بھی اس کام کی ہمت نہیں پائے گا۔ بالآخر لوگ حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائوں گا اور اس کی ایسی تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت خود اللہ مجھے الہام کرے گا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ دس سال تک سجدہ میں پڑے رہیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یا محمد ارفع راسک سل تعط واشفع تشفع اے محمد ! سر اٹھائیں ، آپ سوال کریں اسے پورا کیا جائے گا ، اور آپ سفارش کریں اس کو قبول کیا جائے گا۔ غرضیکہ اللہ کی اجازت کے بغیر اس کا سب سے برگزیدہ اور امام الانبیاء بھی سفارش کر نیکی جرأت نہیں کرسکے گا۔ اس کے بعد شفاعتِ صغریٰ ہے جو امت کے گنہگاروں کے حق میں ہوگی بعض لوگوں کے حق میں دوزخ واجب ہوچکی ہوگی۔ مگر حضور ﷺ کی سفارش سے اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمادے گا۔ بعض لوگ دوزخ میں پہنچ چکے ہوں گے اور وہ بھی سفارش سے وہاں سے نکل آئیں گے۔ بعض کی سفارش بلندی درجات کے لیے ہوگی ، جو قبول کی جائیگی۔ علی ہذا القیاس جب حضور ﷺ کو شفارت کی اجازت مل جائے گی تو پھر باقی انبیائ ، شہداء اور صالحین بھی اللہ کی اجازت سے سفارش کریں گے۔ مگر یہ اسی شخص کے حق میں قبول ہوگی ورضی لہ قولا ( طہٰ 109) جس کی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہوگی۔ کوئی بھی سفارش کرنے والا کسی کافر اور مشرک کے حق میں سفارش نہیں کرے گا اور نہ ہی ایسی سفارش قبول ہوگی۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اجازت دی کہ وہ ایک دعا جونسی چاہیں منظور کرالیں۔ سارے نبیوں نے اپنی اپنی ایک ایک دعا دنیا میں ہی قبول کرالی مگر میں نے اس کو قیامت کے دن تک موخر کردیا جسے میں اپنی امت کی بخشش کے لیے استعمال کروں گا۔ فرمایا وھی نائلۃ ان شاء اللہ من امتی لمن لم یشرک باللہ شیئاً اور میری وہ دعا اور سفارش میری امت کے ہر اس شخص کو پہنچے گی جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا۔ مشرک ، کافر ، منافق ، مرتد ، زندیق اور ملحد حضور ﷺ کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ بہر حال فرمایا کہ آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کارگر نہیں ہوتی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس شخص کے حق میں جس پر وہ راضی ہو۔ منکرین قیامت کی محرومی آگے ارشاد ہوتا ہے ان الذین لا یومنون بالاٰخرۃ لیسمون الملٰکۃ تسمیۃ الانثیٰ بیشک وہ لوگ جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے عورتوں جیسے نام رکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ منکرین قیامت اول فول باتیں کرتے ہیں مثلاً یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں جننیاں ہیں۔ گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان رشتہ ثابت کیا ہے۔ فرمایا یہ ایسی فضول باتیں کرتے ہیں حالانکہ وما لھم بہ من علمٍ ان کو اس بات کا کچھ علم نہیں ہے۔ ایسے لوگ حقیقت سے بےبہرہ ہیں ان یتبعون الا الظن یہ تو محض گمان کا اتباع کر رہے ہیں۔ وان الظن لا یغنی من الحق شیئاً اور گمان کا خاصہ یہ ہے کہ یہ حق کے مقابلے میں کچھ کارآمد نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے۔ ایاکم والظن لوگو ! اپنے آپ کو بد گمانی سے بچائو کیونکہ بد گمانی جھوٹی بات ہوتی ہے۔ مطلق گمان تو ناقابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عربی زبان میں ظن گمان کے معنی بھی آتا ہے اور یقین کے معنی میں بھی جیسے سورة البقرہ میں ہے کہ نماز گراں گزرتی ہے سوائے ان لوگوں کے جن کے دل میں خشیت الٰہی ہے الذین یظننون انھم ملقوا ربھم وانھم الیہ راجعون (آیت 46) اور یہ وہ لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں ، اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اسی طرح اگر ظن گمان کے معنی میں ہوتویہ شک و تردد والی بات ہوتی ہے اور ایسے ہی گمان سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ محض گمان حق کے مقابلے میں کچھ مفید نہیں۔ خاص طور پر اعتقادیات کے کے معاملہ میں تو گمان پر قطعاً اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس کے لیے قرآن و سنت سے قطعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اعمال میں گمان غالب پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو۔ چناچہ قیاس یا اجتہاد یا تقلید ظن پر عمل کرنے کا نام ہے۔ اما م بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ حق ایسی چیز ہے جسے علم کے ساتھ ہی پایاجاسکتا ہے ، اور کوئی عقیدہ قطعی دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی گمان کا معارف حقیقیہ میں اعتبار ہوتا ہے۔ گمان کا اعتبار عملیات میں ہوتا ہے لہٰذا وہاں پر ضعیف احادیث پر بھی عمل کرلیا جاتا ہے۔ صرف دنیا طلبی آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو خطاب کرکے فرمایا ہے فاعرض عن ن تولیٰ عن ذ کرنا پس آپ منہ پھیر لیں اس شخص سے جس نے روگردانی کی ہماری یاد سے ولم یرد الا الحیوۃ الدنیا اور نہیں ارادہ کیا مگر صرف دنیا کی زندگی کا۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص صرف دنیا کا طالب ہے اور آخرت کی کچھ فکر نہیں رکھتا ، آپ اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دیں بلکہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ذلک مبلغھم من العلم ان لوگوں کا مبلغ علم یہی ہے یعنی ان کے علم کی پہنچ صرف دنیا کے حصول تک ہی محدود ہے اور آخرت کی انہیں کچھ فکر نہیں۔ سورة الروم میں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا۔ یعلمون ظاہرًا من الحیوۃ الدنیا و ھم عن الاٰخرۃ ھم غفلون ( آیت۔ 7) کہ یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی کو ہی جانتے ہیں کہ اس کو کیسے حاصل کرنا ہے اور اس سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے ، یہ لوگ آخرت کی دائمی زندگی سے بالکل غافل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان ھی الاحیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما نحن بمبعوثین ( المومنون۔ 37) ہماری یہ دنیا کی زندگی ہی ہے ، اسی میں ہم نے مرنا اور اسی میں جینا ہے ، اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ مطلب یہی ہے کہ ان کے ہاں آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے حدیث شریف میں آتا ہے الدنیا دارمن لا دارلہ دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا آخرت میں کوئی گھر نہیں ومال من لا مال لہ اور دنیا کا مال اس شخص کا مال ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ویجمع من لا عقل لہ اور اس مال کو وہی جمع کرتا ہے جو عقل سے محروم ہے۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کی یہ دعا بھی منقول ہے اللھم لا تجعل الدنیا اکبرھمنا ولا مبلغ علمنا ولا غایۃ رغبتنا اے اللہ ! صرف دنیا کو ہی ہمارا بڑا مقصود نہ بنا ، اور نہ ہمارا مبلغ علم کو اس کی پہنچ دنیا تک ہی محدود ہو اور ہماری انتہائی غرض بھی دنیا ہی کو نہ بنا۔ فکر معاد اور فکر معاش حضر ت عاصم بن ابی النجود (رح) محدث فرماتے ہیں ھمان لابد للمومن ھم المعاش وھم المعاد مومن کے لیے دو قسم کی فکر ضروری ہے۔ یعنی فکر معاش اور فکر معاد۔ گویا ایک مومن شخص کو دنیا کے لوازمات کی بھی فکر ہونی چاہئے اور آخرت کی زندگی کے لیے بھی توشہ تیار کرنا چاہئے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن پاک میں نیک لوگوں کی دعا بھی یہی سکھلائی گئی ہے ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃً وفی الاٰخرۃِ حسنۃً (البقرہ۔ 201) اے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی بہتری عطا فرما اور آخرت میں بہتری عطا کر ، مقصد یہ ہے کہ جس طرح آخرت کی فکر ضروری ہے ، اسی طرح دنیا کو بھی فراموش کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسا کرنا تو رہبانیت ہے جس کی اجازت نہیں دی گئی۔ مگر ساتھ یہ بھی ہے کہ انسان دنیا کو ہی اپنا منتہائے مقصود بنالے جیسا کہ آج کل ترقی یافتہ ممالک میں ہورہا ہے۔ ان لوگوں کے پیش نظر صرف فکر معاش ہے ان کی سوچ ، تعلیم ، فلسفہ ، ٹیکنالوجی سب کچھ دنیا کی بہتری کے لیے ہے۔ اور آخرت کا تصور نہیں ہے۔ ان کی ساری تگ و دو نفسانی خواہشات کے لیے لہودولعب اور عیش و آرام کیلئے ہے ان النفس لامارۃ م بالسوئ (یوسف 53) انسان کا نفس تو اسے برائی پر ہی آمادہ کرتا ہے اور یہ لوگ اسی نفس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ بھلا ان کو آخرت کی فکر کیسے ہوسکتی ہے ؟ آگر آخرت کی فکر کریں گے تو عیش و عشرت اور دیگر نفسانی خواہشات کو ترک کرنا پڑیگا۔ مگر یہ اس کام کے لیے تیار نہیں ہیں۔ گمراہی اور ہدایت فرمایا آپ ایسے لوگوں کی طرف دھیان نہ کریں جو ہماری یاد سے غافل ہیں اور صرف دنیا کی زندگی کے طالب ہیں۔ ان ربک ھو اعلم بمن ضل عن سبیلہٖ بیشک تیرا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اس شخص کو جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا وھوا علم بمن اھتدیٰ اور وہ اس شخص کو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور وہ ہر شخص کو اس کے عقیدے ، عمل ، کردار اور اخلاق کے مطابق ہی بدلہ دے گا۔ وہ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرے گا اور کسی مجرم کو سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ اطمینان رکھیں اور اپنا کام کرتے جائیں۔
Top