Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 16
وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ
وَوَرِثَ : اور وارث ہوا سُلَيْمٰنُ : سلیمان دَاوٗدَ : داود وَقَالَ : اور اس نے کہا يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو عُلِّمْنَا : مجھے سکھائی گئی مَنْطِقَ : بولی الطَّيْرِ : پرندے (جمع) وَاُوْتِيْنَا : اور ہمیں دی گئی مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَهُوَ : البتہ وہی الْفَضْلُ : فضل الْمُبِيْنُ : کھلا
اور سلیمان (علیہ السلام) کو ہم نے داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنایا اور اس نے کہا اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا ہوئی ہیں بلاشبہ یہ کھلا فضل ہے
سلیمان کو داؤد کا وارث بنایا گیا اور اس نے دوسروں کو بھی حصہ دار بنایا : 16۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو دادؤ کا وارث بنایا گیا ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کون تھے ؟ اللہ کے رسول اور داؤد (علیہ السلام) کون تھے ؟ اللہ کے رسول ‘ پھر کیا رسالت بھی کسی کی وراثت ہوتی ہے ؟ اس جگہ رسالت کی وارثت کا بیان نہیں ہے بلکہ بیٹے کو مالی وراثت جو ملی اس کا ذکر کیا گیا ہے ، کیا رسول کسی کا وارث قرار پاتا تھا ؟ کیوں نہیں جس طرح سارے انسانوں کا اپنے آباؤواجداد کی جائیداد میں حق ہے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا بھی تھا اور یقینا وہ اپنا حق وصول کرتے رہے اس میں نہ کوئی قباحت ہے اور نہ ممانعت اور ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ نے بھی اپنے آباء اجداد کی میراث سے حصہ وصول کیا اور کبھی اسکی نفی نہیں کی ۔ آپ ﷺ تو بےباپ تھے اس لئے کہ باپ کی وفات کے بعد آپ ﷺ پیدا ہوئے لیکن پھر بھی آپ ﷺ نے والد عبداللہ کی جائیداد کا مکمل حصہ وصول کیا اور مکہ میں آپ ﷺ کا پہلا گھر جہاں آپ ﷺ ہجرت سے پہلے رہے بلاشبہ آپ ﷺ کے باپ عبداللہ ہی کا حصہ تھا اور وہ آپ ﷺ نے وصول پا کر اس میں رہائش اختیار کی اور ہجرت تک اسی میں آباد رہے ہاں ! سیدہ خدیجہ ؓ کے ساتھ نکاح ہونے کے بعد آپ ﷺ نے خدیجہ ؓ کے گھر رہائش اختیار کرلی پھر سیدہ خدیجہرضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد انکا ترکہ تقسیم ہوا تو آپ ﷺ کو خدیجہ ؓ کے اموال سے مال اور خدیجہ ؓ کے مکانوں میں سے ایک مکان بھی بطور وراثت ملا جیسے کہ دستور ہے اس کا ذکر اس جگہ اس لئے کرنا ضروری ٹھہرا کہ ہمارے ہاں یہ معروف ہے کہ حدیث میں ہے کہ انبیاء کرام نہ تو اپنی وراثت وصول کرتے ہیں اور نہ ہی اپنا مال اپنے وارثوں میں تقسیم کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور وہ حدیث اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ : نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ماترکنا صدقۃ : اس حدیث کو اس قدر استعمال کیا گیا کہ ہمارے ہاں کی کوئی کتاب تفسیر ‘ سیر اور تاریخ کی ایسی کتاب نہیں جس میں یہ بیان نہ کیا گیا ہوں اور پھر جس نے اس کو نقل کیا اس نے بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ ابو داؤد ‘ سنن نسائی ‘ اور ابن ماجہ میں سے کسی کا ضرور حوالہ دیا ‘ کسی نے صحاح کہہ کر پیش کردی اور کسی نے متفق علیہ کہا اور کسی نے صحاح میں سے کسی ایک کا حوالہ دیا تفصیل اس کی بہت لمبی ہے لیکن تحدی اور چیلنج کے طور پر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ” نحن معاشر الانبیاء لانرث “ کے الفاظ بخاری ومسلم تو کجا صحاح کی کسی کتاب میں موجود نہیں بلکہ صحاح کے علاوہ بھی جو کتب احادیث متداول ہیں ان میں سے کسی کے اندر بھی یہ الفاظ موجود نہیں۔ ہاں ! شارحین کتب صحاح نے اس کو شروح میں بیان کیا ہے تو اس طرح شارحین کا مقولہ تو اس کو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن حدیث کا مقام کسی شارح کی شرح سے بہت اونچا ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں اگرچہ اس کو بیان کرتے وقت احناف ‘ موالک ‘ شوافع ‘ حنابلہ اور اہلحدیث سب ہی نے اس کو درج کیا ہے اور لاریب اس کے درج کرنے والے بڑے بڑے متبحر علمائے گرامی قدر ہیں جن کی قدوقامت اسلام میں بہت اونچی ہے لیکن اسلام میں خواہ کوئی شخص کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو کسی نبی ورسول کے برابر اس کو نہیں بٹھایا جاسکتا اور یہ مسئلہ بھی پورے عالم اسلام کا ہے جس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔ ہم افسوس سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ نہایت ہی خطرناک مثال پیش کی گئی کیونکہ اس کو بیان کرتے وقت میرے جیسے روسیاہ کو بھی اپنے سینے پر ہاتھ رکھنا پڑا اور دانتوں میں انگلی دبانا پڑی کیوں ؟ اس لئے کہ احادیث میں جہاں اس طرح کے الفاظ درج کئے گئے وہ مقامات نہایت ہی قبیح اور خطرناک تھے مثلا یہ کہ : 1۔ ملاعن اور ملاعنہ کا ولد العان اپنی والدہ کا وارث اور مورث بنے گا ملاعن کا وارث نہیں اور نہ ہی موروث ہے چناچہ اس کی وضاحت صحیح بخاری میں 263 ص 264 پارہ 18 اور صحیح مسلم ص 489 جلد اول میں بیان ہوا ہے ۔ 2۔ یہی بات جو اوپر ذکر کی گئی منتقی الاخبار 244 بحوالہ مسند احمد مرفوعا مروی ہے ۔ 3۔ پھر اس طرح کا بیان مسند دارمی ص 406 میں عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے ۔ 4۔ یہی مسئلہ دارمی ص 395 میں سیدنا علی ؓ سے مروی ہے ۔ 5۔ اسی طرح ولد الحرام بھی نہ وارث ہے اور نہ موروث جیسے مستدرک حاکم ص 342 جلد 4 میں مرفوعا مروی ہے ۔ 6۔ سنن ابی داؤد ص 247 جلد دوم اور سنن کبری بیہقی ص 260 ج 6 میں مرفوعا مروی ہے ۔ 7۔ اور یہی بات جامع ترمذی ص 33 ج 6 میں مرفوعا بیان کی گئی ہے ۔ 8۔ پھر یہی کچھ سنن ابن ماجہ ص 203 ج 2 میں بھی مرفوعا مروی ہے ۔ 9۔ اور یہی بات کنزالعمال ج 6 ص 5 بحوالہ تاریخ حاکم مرفوعا بیان ہوا ہے ۔ 10۔ بحوالہ عبدالرزاق بھی مرفوعا بیان ہوا ہے اور جامع ترمذی میں سقط بےجان کی بابت بھی اسی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ چونکہ ان سب حوالوں میں حرمان وارثت کے لئے نبی اعظم وآخر ﷺ کا فرمان جرائم واثام کی صاف صاف تصریح ہے جو کہ ایک عیب ونقص ہے اور اس کی وضاحت بھی صاف صاف واضح ہے ، انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شان گرامی اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی شان گرامی خصوصا بہت بلند ہے کہ ایسے مواضع پر ان کا ذکر کیا جائے ، اس لئے اس بیان کی طرف اشارہ کرنے سے بھی ہمارے لئے پرہیز ہزار بار لازم ہے۔ ہاں ! کسی کا وراثت میں کچھ نہ چھوڑ جانا اور بات ہے ورثہ کو تقسیم نہ کرنا یا کسی کو ورثہ میں سے کچھ نہ ملنا امر دیگر ہے ، اس معاملہ میں اگر بحث چھیڑی جائے تو وہ سینکڑوں صفحات میں سمائے گی اور اس جگہ ہمارے پاس اتنی گنجائش کہاں ہم صرف نمونہ کیلئے چند چیزوں کا ذکر کریں گے جو نبی اعظم وآخر ﷺ نے اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ سے وراثت میں حاصل کیں اور اس بات میں کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوا نہ ہی اعتراض کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت مہیا کیا جاسکتا ہے کہ کسی ہونے والے نبی ورسول نے اپنی نبوت و رسالت سے پہلے بھی کوئی ناجائز و حرام ہونے کام میں حصہ لیا ہو جو پہلے تو حرام نہ ہو لیکن بعد میں وہ حرام ہوگیا ہو اس کے لئے ہمارا چیلنج ہے اور ہم پورے وثوق سے یہ چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (آیت) ” ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین “۔ 1۔ ام ایمن رسول اللہ ﷺ کی ملک یمین تھیں جو آپ ﷺ کو حضرت عبداللہ ‘ اپنے والد کی طرف سے ورثہ میں دی گئیں تھیں اور آپ ﷺ نے ان کو نبوت ملنے سے بھی بہت بعد آزاد کیا تھا اور ظاہر ہے کہ وہ وراثت میں آپ کو ملیں آپ ﷺ نے انکو ملک یمین بنایا ‘ انہوں نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کی ملک یمین سمجھا اور آزادی کے بعد انہوں نے زید بن حارثہ سے نکاح کیا جس میں سے زید کے ہاں اسامہ پیدا ہوئے اور یہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد تک زندہ رہیں۔ صحیح بخاری ص 551 پارہ 10 ‘ صحیح مسلم ص 96 جلد دوم ‘ مجمع الزوائد ص 259 ‘ جلد 9 بحوالہ طبرانی فتح الباری ص 317 پارہ 27 ‘ اسد الغایہ 567 جلد 5 ‘ تالیف امام ابن الاثیر جزری نوری شرح مسلم ص 291 ج 2 ‘ عمدہ القاری ص 234 ج 16 ‘ تلقیح مفہوم الاثر 159 ‘ فتح الباری ص 394 پارہ 14 عمدہ القاری 234 ج 16 زاد المعاد ص 20 ‘ حاشیہ مشکوۃ ص 548 ‘ ابن ماجہ ص 119 اور خلاصہ ان تمام حوالوں کا اس طرح ہے کہ ام ایمن رسول اللہ ﷺ کی جدی وپدری مملوکہ تھی جو کہ وراثتا آپ ﷺ کو ملک یمین کے طور پر ملی تھی لیکن آپ ﷺ نے اسے بعد میں آزاد کرکے زید بن حارثہ سے نکاح کردیا جس کے ہاں زید کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔ “ مظاہر حق ترجمہ مشکوۃ ص 634 ج 4 میں ہے کہ ” بعد وفات عبداللہ والد حضرت ﷺ کے بسبب میراث کے ہاتھ لگی تھیں اور بعد میں آپ ﷺ نے انکو آزاد کردیا تھا ۔ “ شمامہ عنبریہ میں نواب صدیق حسن خاں نے تحریر کیا ہے کہ ” ام ایمن برکت حبشیہ نے آپ ﷺ کو پالا بہ طرف سے باپ کے حضرت کے ارث میں آئی تھیں “ (ص 14) نشرالطیب میں حکیم الامۃ تھانوی (رح) نے فرمایا ہے کہ ” ام ایمن حبشیہ جن کا نام برکت ہے یہ آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے والد سے میراث میں ملی تھیں “ (ص 61) ” نبی کریم ﷺ کو جو ترکہ والد کا ملا تھا اس میں ایک حبشیہ کنیز بھی تھیں جن کا نام ’ ام ایمن تھا نبی کریم ﷺ کی اصل انا یا دایہ وہی ہیں آپ ﷺ کی وفات تک زندہ رہیں نبی کریم ﷺ ان کو ماں کہہ کر پکارتے تھے اور جب ان کو دیکھتے تو فرمایا کرتے کہ اب یہی میرے خاندان کی یادگار رہ گئی ہیں “ (سیرۃ النبی ص 193 ج 2 شبلی نعمانی) ” آنحضرت ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کی کنیزوں میں سے تھیں ‘ انہوں نے وفات پائی تو یہ حضرت آمنہ کے پاس رہنے لگیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی حضانت وتربیت بہت زیادہ انہیں سے متعلق تھی جب رسول اللہ ﷺ سن شعور کو پہنچے تو پھر وراثتا یہ بھی آپ ﷺ کے حصہ میں آئیں ۔ “ (صحابیات نیاز فتح پوری ص 176) 2۔ ام ایمن مولاۃ رسول اللہ ﷺ وحاضنتہ واسمعا برکۃ کان رسول اللہ ﷺ ورثھا خمسۃ اجمال وقطعۃ غنم فعتق رسول اللہ ﷺ ام ایمن حین تزوج خدیجۃ (المستدرک حاکم ص 63 ج 4 عن محمد بن عمر) ” ام ایمن رسول اللہ ﷺ کی مملوکہ تھیں اور پرورش کرنے والی بھی ‘ ان کا اصل نام برکت تھا جو رسول اللہ ﷺ کو والد کے ورثہ سے ملی تھیں اور اس ورثہ میں پانچ اونٹ اور ایک قطعہ بکریاں بھی تھیں بعد میں نبی کریم ﷺ نے جب خدیجہ ؓ سے نکاح کیا تو ان کو یعنی ام ایمن کو آزاد کردیا “ اگرچہ آزاد ہونے کے بعد بھی وہ آپ ہی کے پاس رہیں ۔ اس میں پانچ اونٹ اور ایک قطعہ بکریوں کا بھی ذکر ہے اور قطعہ کا لفظ دس سے تیس یا چالیس تک بولا جاتا ہے یعنی دس سے زائد اور چالیس سے کم تھیں ، اس مضمون کو جن لوگوں نے ذکر کیا ہے ان کے اسمائے گرامی مع حوالہ حاضر ہیں : (امام ابو نعیم دلائل النبوۃ ص 50 ‘ ج 1) سیرۃ محمد بن سعد ص 62 ‘ ج اول ‘ انسان العیون حلبیہ ص 52 ج اول ۔ امام ابن الجوزی تلقیح فھوم ص 7 ‘ مجمع البحار ص 525 ‘ ج 3۔ سیرۃ النبی اول ص 158۔ سیرۃ النبی کی عبارت اس طرح ہے کہ ” عبداللہ نے ترکہ میں اونٹ ‘ بکریاں اور ایک لونڈی چھوڑی جس کا نام ’ ام ایمن تھا یہ سب چیزیں رسول اللہ کو ترکہ میں ملیں ۔ ’ ام ایمن کا اصل نام برکت تھا۔ “ مولانا اکبر شاہ صاحب نے تاریخ اسلام ج اول ص 82 میں تحریر فرمایا کہ ” عبداللہ نے اپنے بعد چند اونٹ ‘ چند بکریاں اور ایک لونڈی ’ ام ایمن کو چھوڑا تھا ۔ “۔ 3۔ وذکر الواقدی انہ ﷺ ورثا من ابیہ ’ ام ایمن وخمسۃ اجمال وقطعۃ من غنم ومولاۃ شقران واسمہ صالح وقد شھد بدرا ومن امہ دارھا بالشعب ومن زوجتہ خدیجہ دارھا بمکۃ بین الصفا والمروہ واموالا (مواہب لدنیہ کی شرح زرقانی ص 378 ج 3) ” واقدی نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو باپ کے ورثہ میں سے ’ ام ایمن ‘ پانچ اونٹ اور ایک قطعہ بکریاں اور ایک غلام جس کا نام شقران تھا اور اس کا اصل نام صالح تھا جو بدر میں حاضر تھا اور آپ ﷺ کو والدہ ماجدہ سے ایک گھر جو شعب میں تھا اور ایک گھر جو سیدۃ خدیجۃ الکبری کا صفا اور مروہ کے درمیان واقع تھا اور بہت سا مال نقد وصول ہوا تھا ۔ “۔ گویا ایک گھر اور نقد مال آپ ﷺ کی بیوی خدیجۃ الکبری کے ورثہ سے اور ایک گھر والدہ ماجدہ کی ورثہ سے ملا تھا اور اس ایک غلام شقران کا بھی ذکر ہے اور ایک تلوار کا بھی جو باپ ہی کے ورثہ سے ملی تھیں ان چیزوں کو جن حضرات نے نقل کیا ہے ان کے اسمائے گرامی ہیں ۔ الاستیعاب ج 2 ص 166 ‘ تہذیب التہذیب ص 361 ‘ ج 14 صابہ ‘ قاموس اور تاج العروس میں بھی ان چیزوں کا ذکر ہے ۔ تاریخ کامل ابن الاثیر جزری ج اول ص 129 ‘ نور العیون ص 29 ‘ امام ابن قتیبہ معارف ص 64 ‘ امام ابو جعفر طحاوی مشکل الاثار ج اول ص 430 ‘ سیرۃ حلبیہ ج 3 ص 329 ‘ زادالمعارج اول ص 23 ‘ مدارج النبوۃ ج 2 ص 689 ۔ مواہب لدنیہ ج 2 ص 378 اجمال کے طور پر اس جگہ ہم نے جو کچھ نبی اعظم وآخر ﷺ کو والد ماجد کے ترکہ میں سے ملا اس کا بیان اور جو کچھ والدہ ماجدہ سے ترکہ میں وصول ہوا اس کا ذکر اور جو کچھ ام المومنین خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد انکی بکریاں ‘ تین مکان اور کچھ نقد مال کا ذکر کیا گیا ہے اور تفصیل کے لئے ہم معذرت کر رہے ہیں اور علمائے کرام سے یہ باتیں پوشیدہ نہیں تاہم وہ آج تک یہ لکھتے آئے ہیں لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے کوئی ترکہ نہیں پایا اب یہ ان ہی سے پوچھ لیا جائے کہ اس کی صداقت کہاں تک ہے جب کہ کسی حدیث میں یہ بات موجود نہیں اور قرآن کریم میں نبی کا ورثہ پانے کا ذکر ہو ہی رہا ہے جہاں ہم نے یہ بیان کیا ہے اور اس لئے کیا ہے کہ آپ معلوم ہوجائے کہ علماء کرام کا جو دل چاہے جائز اور جو نہ چاہے وہ ناجائز ہے یا کم ازکم ہو سکتا ہے قرآن وسنت خواہ کچھ کہتے رہیں اور اس طرح یہ بھی کہ وہ چاہیں تو قرآن کو حدیث کے برابر بھی نہ رہنے دیں اور چاہیں تو حدیث موجود نہ بھی ہو تو حدیث قرار دے کر اس کا درجہ قرآن کریم سے بھی کہیں اوپر کر دکھائیں ۔ علماء کرام پر کشادہ ہیں راہیں ۔ بہرحال ایسے علمائے کرام بھی موجود نہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی وراث کو تسلیم کیا ہے ان علمائے کرام کے نام یہاں پیش کئے جا رہے ہیں اس کو ملاحظہ فرما لیں ، نام مندرجہ ذیل ہیں : 1۔ امام ابوبکر محمد بن عبداللہ بن شہاب زہری (رح) ‘ ولادت ؟ ‘ وفات 124 ھ ۔ 2۔ قاضی ابو عبداللہ محمد بن عمر واقدی (رح) ولادت 141 ‘ وفات 207۔ 3۔ امام ابو عبدالرحمن عبداللہ بن داؤد حزیبی (رح) ‘ ولادت 133 ‘ وفات 213 ھ ۔ 4۔ امام ابو الولید محمد بن عبدالکریم ازرقی (رح) ولادت ؟ ‘ وفات 223 ھ ۔ 5۔ امام ابو عبداللہ حافظ محمد بن سعد (رح) ولادت 168 ‘ وفات 230 ھ۔ 6۔ امام ابو عبداللہ محمد بن اسمعیل بخاری (رح) ولادت 194 ‘ وفات 256 ھ ۔ 7۔ قاضی ابو عبداللہ زبیر بن بکار مدنی (رح) ‘ ولادت ؟ ‘ وفات 256 ھ ۔ 8۔ علامہ ابو طالب زید بن اخزم طائی (رح) ولادت ؟ وفات 257 ھ ۔ 9۔ امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری (رح) ‘ ولادت 206 ھ ‘ وفات 261 ھ۔ 10۔ امام ابو عبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ (رح) ‘ ولادت 209 ھ ‘ وفات 273 ھ۔ 11۔ امام ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوریرحمۃ اللہ علیہ ولادت 213 ھ ‘ وفات 276 ھ۔ 12۔ امام ابوبکر احمد بن یحییٰ بن جابر بلاذری (رح) ولادت ؟ وفات 279 ھ ۔ 13۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید طبری (رح) ‘ ولادت 224 ھ ‘ وفات 310 ھ ۔ 14۔ امام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ طحاویرحمۃ اللہ علیہ ‘ ولادت 229 ھ ‘ وفات 321 ھ۔ 15۔ امام ابو عبداللہ محمد بن اسحاق بن عباس فاکہی (رح) ۔ 16۔ امام ابو الحسن علی بن الحسین مسعودی (رح) ولادت ؟ وفات 346 ھ ۔ 17۔ اما ابو الحسن علی بن عمر دارقطنی (رح) ولادت 306 ھ ‘ وفات 385 ھ۔ 18۔ امام حاکم ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ (رح) ‘ ولادت 321 ھ ‘ وفات 405 ھ۔ 19۔ حافظ ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی (رح) ولادت 330 ھ ‘ وفات 430 ھ۔ 20۔ امام ابوبکر احمد بن حسین بن علی بیہقی (رح) ولادت 384 ھ ‘ وفات 458 ھ۔ 21۔ امام ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ ولادت 368 ھ۔ وفات 463 ھ۔ 22۔ امام محی السنہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی ‘ ولادت ؟ وفات 516 ھ۔ 23۔ قاضی ابوالفضل عیاض بن موسیٰ یحصبی (رح) ‘ ولادت 476 ھ۔ وفات 544 ھ۔ 24۔ امام ابو القاسم عبدالرحمن بن عبداللہ بن احمد سہلی (رح) ولادت 508 ھ۔ وفات 581 ھ۔ 25۔ علامہ جار اللہ ابو القاسم محمود بن عمر زمخشری (رح) ولادت 467 ھ۔ وفات 599 ھ۔ 26۔ امام جمال الدین ابو الفرح عبدالرحمن بن علی جو زی (رح) ولادت 508 ھ ‘ وفات 597 ھ۔ 27۔ امام فخرالدین محمد بن عمر رازی (رح) ولادت 554 ھ ‘ وفات 606 ھ۔ 28۔ شیخ شہاب الدین ابو عبداللہ یاقوت بن عبداللہ حموی (رح) ولادت 575 ھ۔ وفات 627 ھ۔ 29۔ شیخ عزالدین ابو الحسن علی بن محمد جزری ابن اثیر (رح) 555 ھ ‘ وفات 630 ھ۔ 30۔ امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی (رح) ولادت 631 ھ۔ وفات 676 ھ۔ 31۔ قاضی ابو سعید عبداللہ بنعمر بیضاوی (رح) ولادت ؟ وفات 685 ھ۔ 32۔ شیخ الاسلام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبدالحلیم ابن تیمیہ (رح) ولادت ؟ وفات 728 ھ۔ 33۔ امام ابو الفتح محمد بن محمد بن سید الناس یعمری (رح) ولادت 671 ‘ وفات 732۔ 34۔ حافظ شمس الدین ابو عبداللہ محد بن احمد ذھبی (رح) 673 ھ۔ ‘ 748 ھ۔ 35۔ علامہ عبداللہ بن عبدالملک قرشی برمکی (رح) ولادت ؟ وفات 748 ھ۔ 36۔ حافظ شم الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزی (رح) ولادت 691 ھ۔ وفات 751 ھ۔ 37۔ حافظ جمال الدین عبداللہ بن یوسف زیلعی (رح) ولادت ؟ وفات 762 ھ۔ 38۔ حافظ علاؤ الدین بن قلیج بن عبداللہ مغطائی (رح) ‘ ولادت 689 ھ۔ وفات 762 ھ۔ 39۔ حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر (رح) ‘ ولادت 700 ھ۔ وفات 774 ھ۔ 40۔ حافظ ابو الفضل احمد بن علی حجررحمۃ اللہ علیہ ولادت 773 ھ ‘ وفات 852 ھ۔ 41۔ علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی ولادت 762 ھ ‘ وفات 855 ھ۔ 42۔ امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی (رح) ولادت 849 ھ۔ وفات 911 ھ۔ 43۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی (رح) ولادت ؟ وفات 923 ھ۔ 44۔ شیخ محمد بن طاہر بن علی فتنی (رح) ولادت 914 ھ ‘ وفات 987 ھ ۔ 45۔ شیخ نورالدین ابو الحسن ملا علی قاری (رح) ولادت ؟ وفات 1010 ھ ۔ 46۔ علامہ نور الدین علی بن برہان الدی حلبی ولادت 975 ھ ‘ وفات 1044 ھ۔ 47۔ مولانا شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی (رح) ولادت ؟ وفات 1052 ھ۔ 48۔ شیخ محمد بن عبدالباقی بن یوسف زرقانی (رح) ‘ ولادت 1020 ھ ‘ وفات 1122 ھ۔ 49۔ صاحب اسعاف (رح) ‘ ولادت ؟ وفات 1185 ھ ۔ 50۔ سید ابو الفیض محمد مرتضی بلگرامی (رح) ولادت 1145 ھ ۔ وفات 1205 ھ ۔ 51۔ مولانا شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی (رح) ولادت ؟ وفات 1230 ھ۔ 52۔ مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) ولادت 1159 ھ۔ وفات 1239 ھ۔ 53۔ مولانا قطب الدین صاحب شاہ جہاں آبادی (رح) ولادت ؟ وفات 1254 ھ ۔ 54۔ شیخ مومن بن حسن شیلخی (رح) ولادت 1255 ھ۔ 55۔ شیخ عبدالغنی صاحب مجددی مہاجر مدنی بن شیخ ابو سعید صاحب (رح) ولادت ؟ وفات 1297 ھ۔ 56۔ مولانا ابو الطیب نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپال (رح) ولادت ؟ وفات 1307 ھ۔ 57۔ شمس العلماء علامہ محمد شبلی نعمانی اعظم گڑھی ‘ ولادت 1274 ھ۔ وفات 1332 ھ۔ 58۔ مولانا ابو نعیم عبدالحکیم صاحب شرر لکھنوی (رح) ولادت ؟ وفات 1345 ھ۔ 59۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی (رح) ولادت 1280 ھ۔ وفات 1362 ھ ۔ 60۔ مولانا اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی (رح) ولادت ؟ وفات ؟ 61۔ مولانا ابو تمیم محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی (رح) ولادت 1292 ھ وفات 1376 ھ۔ 62۔ مولانا نیاز محمد خان صاحب نیاز فتح پوری ‘ ولادت ؟ وفات ؟ ۔ 63۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری (رح) ولادت ؟ وفات ؟ 64۔ مولانا عبدالشکور صاحب لکھنؤی ۔ زیر نظر آیت میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) انکے وارث ہوئے اور جیسا نامور باپ تھا ویسا ہی بیٹا بھی تھا کہ اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد جب دنیوی وراثت بھی آپ کے سپرد کردی گئی اور اللہ تعالیٰ نے نبوت سے پہلے ہی سرفراز فرما دیا ہوا تھا تو آپ نے اپنے والد بزرگوار کے بنائے ہوئے پروگراموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اپنے زمانہ کے نامور بادشاہ ٹھہرے آپ نے بری اور بحری قوت میں بےپناہ اضافہ کیا اپنی فوج کو مختلف محکموں میں تقسیم کیا بری اور بحری فوج میں تو بےپناہ ترقی کی لیکن ساتھ ہی ساتھ فضائی اور ہوائی فوج کا بھی بندوبست کیا اور تینوں افواج کو ایک ہی کمان کے اندر رکھا اور اس طرح آپ کے زمانہ میں وہ ترقی ہوئی کہ اس سے پہلے وہ یقینا نہیں ہوئی تھی اور بہت سے نئے کام شروع کروائے گئے جن میں تانیہ پگھلانے کے کارخانے ‘ غوطہ زنی کا محکمہ ‘ مختلف صنعتیں اور اسلحہ فیکٹریاں لگوائی گئیں اور فتوحات کا وہ دور دورہ ہوا کہ آپ کے بعد بھی مدت تک کسی کو ایسی فتوحات نصیب نہ ہوئیں ، خصوصا آپ کے دور میں پرندوں کی بولیاں اور ان سے مختلف کام لینے کی صلاحتیں جو اللہ نے ودیعت کی ہیں ان سے بہت حد تک کام لیا گیا اور اس طرح نئی نئی زبانیں بھی ایجاد کیں اور ان میں خاصہ مقام حاصل کیا پھر نہ صرف یہ کہ فقط آپ کی ذات ہی ان ساری چیزوں میں سکھائے گئے کہ وہ پرندوں سے وہ کام لے لیتے تھے جو عام حکومتوں میں انسانوں سے بھی ابھی نہیں لیا جاتا تھا ، اختصار کے ساتھ چند ایک حوالے میں نے تازہ کرا دیئے ورنہ اس کی تفصیل پیچھے سورة الانبیاء میں گزر چکی ہے اور خصوصا سلیمان (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت میں بہت کچھ بیان کردیا ہے اگرچہ اختصار کے ساتھ ہے کیونکہ زیادہ تفصیل تو تاریخ کا کام ہے تفسیر اس سے زیادہ اس کی متحمل نہیں ہو سکتی بہرحال آپ عروۃ الوثقی ‘ جلد پانچ میں اسی مختصر سرگزشت کی طرف مراجعت کریں ۔ منطق الطیر کی حقیقت بھی ہم نے وہاں بیان کردی ہے ۔
Top