Tafseer-e-Baghwi - Al-Fath : 25
هُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ الْهَدْیَ مَعْكُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ١ؕ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَطَئُوْهُمْ فَتُصِیْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ۚ لِیُدْخِلَ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
هُمُ : وہ، یہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا وَصَدُّوْكُمْ : اور تمہیں روکا عَنِ : سے الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَالْهَدْيَ : اور قربانی کے جانور مَعْكُوْفًا : رکے ہوئے اَنْ يَّبْلُغَ : کہ وہ پہنچے مَحِلَّهٗ ۭ : اپنا مقام وَلَوْلَا رِجَالٌ : اور اگر نہ کچھ مرد مُّؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) وَنِسَآءٌ : اور عورتیں مُّؤْمِنٰتٌ : مومن (جمع) لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ : تم نہیں جانتے انہیں اَنْ : کہ تَطَئُوْهُمْ : تم انکو پامال کردیتے فَتُصِيْبَكُمْ : پس تمہیں پہنچ جاتا مِّنْهُمْ : ان سے مَّعَرَّةٌۢ : صدمہ، نقصان بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ : نادانستہ لِيُدْخِلَ : تاکہ داخل کرے اللّٰهُ : اللہ فِيْ رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جسے وہ چاہے لَوْ تَزَيَّلُوْا : اگر وہ جدا ہوجاتے لَعَذَّبْنَا : البتہ ہم عذاب دیتے الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے مِنْهُمْ : ان میں سے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
اور وہی تو ہے جس نے تم کو ان کافروں پر فتحیاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دئیے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
آیت وھو الذی کف ایدیھم کا شان نزول 24 ۔” وھوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیھم وکان اللہ بما تعملون بصیرا “ ابو عمرو نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے تاء کے ساتھ پڑھا ہے اور ان لوگوں کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے۔ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ اہل مکہ کے اسی لوگ جبل تنعیم سے اسلحہ سے لیس آئے ۔ ان کا ارادہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ پر حملہ کرنا تھا۔ پس انہوں نے قیدی پکڑے، پھر ان کو زندہ چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” وھوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم “ عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے۔ اس درخت کے نیچے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ آپ (علیہ السلام) کی پشت پر اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی تھی تو میں نے اس کو آپ (علیہ السلام) کی پیٹھ سے اٹھا لیا اور علی بن ابی طالب ؓ آپ (علیہ السلام) کے سامنے صلح نامہ لکھ رہے تھے۔ پس ہم پر تیس مرد نکلے جن پر ہتھیار تھے وہ ہمارے سامنے مٹی اڑاتے آئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان پر بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی سلب کرلی تو ہم ان کی طرف کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کو پکڑ لیا تو ان کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم کسی معاہدہ کے ساتھ آئے ہو یا تمہیں کسی نے امان دی ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں تو آپ (علیہ السلام) نے ان کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ امام احمد، بخاری، عبدبن حمید، ابو دائود اور نسائی رحمہم اللہ وغیرہ نے بروایت زہری بیان کیا اور محمد بن اسحاق نے بروایت زہری اور ازعروہ از مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم بیان کیا کہ (حدیبیہ کو روانہ ہونے سے پہلے) رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر کے اندر جاکر غسل کیا، پھر صحابہ ؓ کے بنے ہوئے دو کپڑے (چادر اور لنگی) پہنے، پھر دروازے کے پاس ہی قصویٰ اونٹنی پر سوار ہوئے۔ حضرت ام سلمہ کو ساتھ لیا، حضرت ام منیع، حضرت اسماء بنت عمرو اور حضرت ام عمارہ اشہلیہ ؓ بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ مہاجرین ، انصار اور دوسرے عرب بھی آپ کے ساتھ آکر مل گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے خواب کی وجہ سے کسی کو فتح میں شک بھی نہیں تھا۔ ان حضرات کے پاس تلواروں کے علاوہ اور اسلحہ بھی نہیں تھا اور تلواریں بھی نیاموں کے اندر تھیں۔ حضور ﷺ نے قربانی کے جانور پہلے سے بھجوادیئے تھے۔ یکم ذیقعدہ 6 ہجری بروز دو شنبہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ دوپہر کو ذوالحلیفہ میں پہنچ کر ظہر کی نماز پڑھی۔ قربانی کے لئے ستر اونٹ تھے، سب کو جھولیں پہنائی گئیں اور ان میں سے چند کو قبلہ رخ کھڑا کرکے دائیں پہلو پر زخم خود لگائے (اشعار کیا) اور باقی اونٹوں کو اشعار کرنے کا حکم ناجئہ بن جندب کو دیا اور ایک ایک جوتا (قربانی کے) ہر اونٹ کی گردن میں ڈال دیا۔ مسلمانوں نے اپنی اپنی قربانی کے اونٹوں کو اشعار کیا اور انکی گردنوں میں ایک ایک جوتہ لٹکا دیا۔ مسلمانوں کے ساتھ دو سو گھوڑے بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بشر بن سفیان کو (قریش کی خبریں معلوم کرنے کے لئے) بطور جاسوس پہلے بھیج دیا اور عباد بن بشر کو بیس سواروں کے ساتھ بطور ہر اول آگے روانہ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر اول دستہ کا کمانڈر سعد بن زید اشہلی کو مقرر کیا تھا۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور ذوالحلیفہ کی مسجد کے دروازہ سے اونٹنی پر سوار ہوگئے، اونٹنی قبلہ رخ تھی۔ جب اونٹنی اٹھی تو آپ نے عمرہ کا احرام باندھ لیا تاکہ لوگوں کو خطرہ نہ ہو کہ آپ لڑائی کے ارادہ سے روانہ ہوئے ہیں بلکہ سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ آپ کا ارادہ کعبہ کی زیارت کا ہے۔ آپ ﷺ کا معجزہ بخاری نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے اور مسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع کی روایت سے بیان کیا کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک چھوٹی سی چھا گل (یا پانی پینے کا چمڑے کا پیالہ، کوئی ایک چیز) رکھی ہوئی تھی۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہمارے پاس پانی نہیں کہ وضو کریں، نہ پینے کے لئے پانی ہے، بس اتنا ہی پانی ہے جو آپ کے کٹورے میں ہے۔ حضور ﷺ کے سامنے ایک بڑا پیالہ رکھا ہوا تھا (حسب الحکم) ہم نے وہ پانی اس پیالے میں الٹ دیا اور حضور ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس میں ڈال دیئے، فوراً آپ کی انگلیوں کے بیچ میں سے پانی جوش مار کر چشموں کی طرح ابلنے لگا۔ ہم نے وہ پانی (خوب) پیا اور وضو بھی کیا۔ حضرت جابر ؓ سے دریافت کیا گیا، آپ لوگ اس روز کتنے تھے ؟ حضرت جابر نے فرمایا : ہم تھے تو پندرہ سو لیکن اگر ایک لاکھ ہوتے تب بھی سب کے لئے کافی ہوجاتا۔ رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ میں مطمئن ہوگئے تو بدیل ابن ورقاء خزاعہ قبیلہ کے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر آیا (بعد کو بدیل مسلمان ہوگیا) اس کے ساتھیوں میں عمرو بن سالم، حراس بن امیہ ، خارجہ بن کرز اور یزیدبن امیہ بھی تھے۔ سب لوگوں نے آکر سلام کیا، پھر بدیل نے کہا : ہم آپ کے پاس آپ کی قوم کعب بن لوی اور عامر بن لوی (یعنی قریش) کی طرف سے آئے ہیں، وہ آپ کے مقابلہ کے لئے تمام قبائل کے لوگوں کو اور ان سب لوگوں کو نکال کرلے آئے ہیں جو ان کی بات مانتے ہیں اور حدیبیہ کے پانیوں پر یہ تمام لوگ اترے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ نوزائیدہ بچوں کو مائیں بھی ہیں اور چھوٹے بچے بھی ہیں، سب لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھائی ہیں کہ وہ آپ کو کعبہ تک پہنچنے کا راستہ نہیں دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف اس کعبہ کا طواف کرنے آئے ہیں جو کوئی ہم کو اس سے روکے گا، ہم اس سے لڑیں گے۔ قریش کو لڑائی نے ہی انتہائی کمزور کردیا۔ اگر قریش چاہتے ہوں تو ہم ان سے ایک مقرر مدت کے لئے امن کا معاہدہ کرنے کو تیار ہیں۔ (شرط یہ ہے کہ) وہ ہمارے اور دوسرے لوگوں کے معاملہ میں دخل نہ دیں، دوسرے لوگوں کی تعداد قریش سے زائد ہے (ان کو ان کی مد د کرنے کی ضرورت نہیں) اگر وہ لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو قریش کی مراد پوری ہوجائے گی اور اگر میری بات غالب آئی تو قریش کو پھر بھی اختیار ہوگا کہ چاہیں تو اسی دین میں داخل ہوجائیں جس میں دوسرے لوگ داخل ہوں اور چاہیں تو (ہم سے) سب اکٹھے ہوکر لڑیں لیکن اگر یہ لوگ اس پر بھی نہیں مانیں گے تو اللہ کی قسم ! میں اپنے کام کی کوشش میں اس حد تک لگارہوں گا کہ میری گردن اکیلی رہ جائے یا اللہ اپنے حکم نافذ کردے (یعنی میں کامیاب ہوجائوں) ۔ بدیل نے کہا : آپ کی یہ باتیں میں قریش کو پہنچادوں گا۔ چناچہ بدیل نے قریش سے آکر کہا : ہم محمد ( ﷺ ) کے پاس سے آرہے ہیں اور آپ لوگوں کو ان کی (گفتگو کے متعلق) اطلاع دینا چاہتے ہیں۔ عکرمہ بن ابوجہل بن عاص (یہ دو نوں آئندہ مسلمان ہوگئے تھے) نے کہا : ہم کو ان کی گفتگو کی طالاع دینے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان سے جاکر ہماری بات کہہ دو کہ اس سال جب تک ایک آدمی بھی باقی ہے، وہ مکہ میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتے۔ عروہ بن مسعود ثقفی نے مشورہ دیا کہ بات سنو، پھر چاہو تو ماننا، پسند ہو نہ ماننا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا تھا، بدیل نے وہ بیان کردیا۔ اس کے بعد عروہ نے کہا : اے میری قوم ! کیا تم (میرے) بچے نہیں ہو ؟ لوگوں نے کہا، کیوں نہیں۔ عروہ نے کہا، کیا میں تمہارا باپ نہیں ؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں (عروہ ابن مسعود خاندان عبدشمس کی سات قریشی شاخوں سے رشتہ رکھتا تھا) عروہ نے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ میں اہل عکاظ کو (تمہاری مدد کے لئے) نکال کر لایا تھا لیکن جب ان کے پسا میں نے کچھ نہیں پایا تو اپنے اہل واولاد کو اور ان لوگوں کو تمہارے پاس لے آیا جنہوں نے میرا کہنا مانا ؟ لوگوں نے کہا : بیشک ۔ عروہ نے کہا تو اس شخص نے ایک اچھی بات تمہارے سامنے رکھی ہے، تم یہ بات قبول کرلو اور مجھے اجازت دو کہ میں اس کے پاس جائو (اور بات کروں) ۔ رسول اللہ ﷺ نے عروہ سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ عروہ نے کہا : محمد ( ﷺ ) دیکھو ! اگر تم نے اپنی قوم کی جڑ اکھاڑ پھینکی (تو کیا یہ کوئی اچھی بات ہوگی) کیا تم نے سنا ہے کہ کسی عرب نے تم سے پہلے خود اپنی بیخ کنی کی ہو اور اگر کوئی دوسری بات ہوئی (یعنی تم مغلوب) ہوئے تو بعید نہیں کیونکہ اللہ کی قسم ! میں (تمہارے گرداگرد) کچھ رذیل لوگوں کے چہرے دیکھ رہا ہوں جو تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا تو لات کی شرمگاہ چوستارہ ، کیا ہم حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عروہ نے کہا یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوبکر ہیں۔ عروہ نے کہا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تیرا سابق احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کی اطلاع میں نے تجھے بھی نہیں دی تو میں تیری بات کا جواب دیتا۔ عروہ نے ایک بار کسی قتل کی دیت (خون بہا) ادا کرنے کا بار اپنے اوپر اٹھایا تھا، اس کی امداد میں کسی نے ایک حصہ ، کسی نے دو حصے، کسی نے تین سہام دیئے تھے اور حضرت ابوبکر نے دس سہام دیئے تھے۔ عروہ پر حضرت ابوبکر کا یہی احسان تھا (جو عروہ کو یاد تھا اور اسی کی طرف عروہ نے اشارہ کیا تھا) اس کے بعد عروہ، رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے لگا اور بات کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک (ہاتھ بڑھا کر) پکڑنے لگا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ تلوار لئے خود اوڑھے رسول اللہ ﷺ کے سر کے پیچھے کھڑے تھے، جب عروہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا، آپ تلوار کا پھل اس کے ہاتھ پر مارتے اور کھڑے تھے، جب عروہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا، آپ تلوار کا پھل اس کے ہاتھ پر مارتے اور فرماتے رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک سے اپنا ہاتھ الگ رکھ، کسی مشرک کے لئے ریش مبارک کو چھونا مناسب نہیں۔ عروہ نے سر اوپر اٹھا کر پوچھا، یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا، مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے کہا، اوغدار ! کل ہی تو تو نے اپنے سرینوں کی نجاست عکاظ میں دھوئی ہے اور ہمیشہ کے لئے تو نے ہی بنی ثقیف کی عداوت ہمارے اندر پیدا کردی ہے۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ حضرت مغیرہ دور جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ تھے، موقع پاکر آپ نے ان کو قتل کردیا اور ان کا مال لوٹ لیا ، پھر آکر مسلمان ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کو تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں (میں اس کا ذمہ دار نہیں) ۔ اس کے بعد عروہ اپنی آنکھوں سے صحابہ کرام ؓ کی حالت کا مشاہدہ کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ناک کی ریزش جو پھینکتے ہیں، اس کو زمین پر گرنے سے پہلے کوئی صحابی اپنے ہاتھ پر لے کر منہ اور جلد پر مل لیتا ہے۔ جب حضور ﷺ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو صحابی باہم اس کام کو کرنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور جب آپ وضو کرتے ہیں تو وضو کا استعمال پانی لینے کے لئے صحابی ایسی چھینا جھپٹی کرتے ہیں جیسے باہم لڑ پڑیں گے۔ جب آپ کوئی بات کرتے ہیں تو آپ کے بولنے کے وقت سب لوگ اپنی آوازیں پست کرلیتے ہیں اور تعظیم وادب کی وجہ سے نظر اٹھا کر آپ کی طرف نہیں دیکھتے۔ یہ دیکھ کر عروہ اپنے رفقاء کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا : میری قوم والو ! خدا کی قسم ! میں بادشاہوں کے پاس گیا، قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی حاضر ہوا لیکن بخدا ! کسی کے ساتھیوں کو بادشاہ کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمد (ﷺ) کے ساتھی محمد (ﷺ ) کی کرتے ہیں۔ جب محمد (ﷺ ) نک کی ریزش پھینکتے ہیں تو وہ (زمین پر پہنچنے سے پہلے) کسی صحابی کے ہاتھ پر پڑتی ہے اور وہ اس کو اپنے چہرے اور جلد پر مل لیتا ہے اور جب وہ کسی کا حکم دیتے ہیں تو ان کے ساتھ اس کام کے کرنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کا استعمالی پانی لینے کے لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ لڑ پڑیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھی اپنی آوازیں نیچی کرلیتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ انہوں نے اب ایک اچھی بات پیش کی ہے ، تم اس کو قبول کرلو۔ قریش نے جواب دیا : نہیں، ہاں اس سال تم ان کو واپس کردو، آئندہ سال وہ لوٹ کر آجائیں (اور عمرہ کرلیں) عروہ نے کہا : تو مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ تم پر مصیبت آپڑنے ہی والی ہے۔ یہ کہہ کر عروہ اپنے ساتھیوں کو لے کر طائف کو واپس چلا گیا۔ مختلف قبائل کے متعدد افراد جو قریش کی حمایت کے لئے آئے تھے، ان کی جماعت کا کمانڈر اس روز جلیس بن علقمہ تھا، عروہ کے جانے کے بعد وہ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف چل پڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو اس کو آتا دیکھا تو فرمایا : یہ ایسے لوگوں میں سے ہے جو قربانی کے اونٹوں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اور خدا پرست ہیں۔ تم لوگ اس کے سامنے قربانی کے اونٹوں کو لے کر گزرو کہ وہ دیکھ لے۔ جب جلیس نے قربانی کے جانوروں کا سیلاب وادی کے عرض سے آتا ہوا دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ ان کی گردنوں میں قلادے پڑے ہوئے ہیں اور طول حبس کی وجہ سے ان کے بال اڑ گئے ہیں تو رسول اللہ ﷺ تک نہیں پہنچا، فوراً لوٹ کر قریش کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا : اے گروہ قریش ! میں دیکھ آیا کہ قربانی کے جانوروں کی گردنوں میں قلادے لٹک رہے تھے ، طول حبس کی وجہ سے ان کے بال اڑ گئے تھے، ان کو روکنا جائز نہیں۔ قریش نے کہا : بیٹھ جا، تو بدو ہے، تجھے کچھ علم نہیں۔ اس بات پر جلیس کو غصہ آگیا اور بولا، اے گروہ قریش ! اس بات پر ہم نے تم سے معاہدہ نہیں کیا تھا اور نہ یہ وعدہ کیا تھا کہ جو خانہ کعبہ کی تعظیم کے لئے آئے گا، تم اس کو روک دو گے۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں جلیس کی جان ہے ! یا تو محمد (ﷺ) اور اس کے مقصد آمد کے درمیان تم حائل نہ ہوگے، یا یہ مختلف قبائل کی پوری جماعت یک نفس ہوکر بھاگ جائے گی (یعنی میں اس ساری جماعت کو لے کر چلا جائوں گا) ۔ قریش نے کہا جلیس ! خاموش ہوجا، ہمارے معاملہ میں دخل نہ دے، ہم اپنے لئے جو بات پسند کریں گے، اسی کو اختیار کریں گے۔ ایک شخص جس کا نام مکرزبن حفص تھا، کھڑا ہوا اور بولا : مجھے ان کے پاس جانے کی اجازت دو (لوگوں نے اجازت دے دی، مکرز روانہ ہوگیا) جب صحابہ ؓ کے سامنے پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ مکرز ہے، یہ غدار آدمی ہے، یا فرمایا : یہ بدکار آدمی ہے۔ جب مکرز، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو حضور ﷺ نے اس سے وہی فرمایا جو بدیل اور عروہ سے فرمایا تھا۔ مکرز لوٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ جواب دیا تھا، اس کی اطلاع دے دی۔ مشرکین مکہ کی گفتگو اور صلح کے لئے کسی کو بھیجنا رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا : وہ لوگ صلح کے خواستگار ہیں، اسی لئے انہوں نے سہیل کو بھیجا ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کام آسان ہوگیا۔ اس وقت حضور ﷺ چار زانو بیٹھے ہوئے تھے، سر کے پیچھے عباد بن بشر اور سلمہ اور اسلم کھڑے ہوئے تھے (اول الذکر) دونوں حضرات لوہے سے ڈھکے ہوئے تھے۔ سہیل آکر دوزانو بیٹھ گیا اور رسول ﷺ سے بات شروع اور لمبی بات کی۔ دونوں کی گفتگو کا ردوبدل ہوتا رہا، آوازیں اونچی نیچی ہوتی رہیں۔ عباد بن بشر نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو طلب فرمایا۔ صلح نامہ تحریری طور پر لکھنے اور بعض شرائط کا صحابہ کرام پر شاق گزرنا بخاری نے حضرت براء کی روایت سے اور حاکم نے حضرت عبدالیہ بن مغفل کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا، لکھو ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ سہیل نے کہا، رحمن ورحیم کو تو میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے ؟ ” باسمک اللھم “ لکھو جیسے آپ لکھا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم یہ نہیں لکھیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” باسمک اللھم “ ہی لکھ دو ۔ پھر فرمایا : لکھو، یہ (معاہدہ) وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا ہے۔ سہیل بولا : اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ کو کعبہ سے نہ روکتے، نہ آپ سے لڑتے، محمد بن عبداللہ لکھو۔ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا : رسول اللہ ﷺ (کے لفظ) کو مٹا محمد بن عبداللہ لکھو۔ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا : رسول اللہ ﷺ (کے لفظ) کو مٹا دو ۔ حضرت علی ؓ نے جواب دیا : میں تو مٹانے والا نہیں۔ محمد بن عمرکا بیان ہے کہ اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : محمد رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اور کچھ نہ لکھیں ورنہ تلوار ہمارا اور ان (مشرکوں) کا فیصلہ کرے گی۔ آوازیں اونچی ہوگئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رسول اللہ کا لفظ) مجھے دکھائو۔ حضرت علی ؓ نے دکھا دیا تو حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کو مٹا دیا اور فرمایا : محمد بن عبداللہ لکھ دو ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت براء نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے وہ خط اپنے ہاتھ میں لیا اور آپ اچھی طرح نہیں لکھ سکتے تھے، پس اس خط میں لکھا : یہ (معاہدہ) وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے اتفاق کیا اور دس سال تک لوگوں کے باامن رہنے اور لڑائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مدت میں جنگ بندی رہے گی، لوگ پر امن رہیں گے، ہر شخص دوسرے سے باز رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے سہیل سے فرمایا : یہ (مصالحت) اس شرط پر ہے کہ تم ہمارے اور کعبہ کے درمیان حائل نہ ہوگے، ہم طواف کریں گے۔ سہیل نے کہا : نہیں، خدا کی قسم ! (اس سال آپ طواف نہیں کرسکتے) آئندہ سال آپ کوا س کا اختیار ہوگا۔ یہ بات لکھ دی گئی۔ سہیل نے کہا : ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہمارا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر تمہارے پاس جائے گا اس کو واپس کرنا ہوگا خواہ وہ مسلمان ہی ہو۔ مسلمانوں نے کہا : سبحان اللہ ! یہ کیسے لکھا جاسکتا ہے ؟ مشرکوں کے پاس اس کو کیسے واپس کیا جائے گا، وہ تو مسلمان ہوکر آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! ہم میں سے جو شخص مشرکوں کے پاس چلا جائے گا، اللہ نے اس کو دور کردیا (یعنی وہ مسلمان ہی نہ تھا، چلا گیا تو اچھا ہوا) اور ان میں سے جو کوئی ہمارے پاس آجائے گا (اور ہم اس کو واپس کردیں گے) تو اللہ اس کے لئے کوئی کشائش پیدا کر ہی دے گا۔ حضرت براء کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین شرطوں پر صلح کی تھی، مشرکوں میں سے شخص کٹ کر رسول اللہ ﷺ سے آکر مل جائے گا، آپ اس کو واپس مشرکوں کو دے دیں گے اور مسلمانوں میں سے جو شخص مشرکوں کے پاس چلا جائے گا، وہ مسلمانوں کو واپس نہیں دیں گے اور رسول اللہ ﷺ مکہ میں آئندہ سال داخل ہوسکیں گے اور تین روز قیام کریں گے اور مکہ میں داخل ہوں گے تو اسلحہ، تلوار ، تیر کمان وغیرہ غلاف پوش لے کر داخل ہوں گے۔ فریقین میں مصالحت ہوگئی اور یہ شرط ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ اور قریش کے درمیان یہ معاہدہ سر بند صندوق ہوگا، نہ اس میں چوری چھپے کوئی حرکت ہوگی، نہ خیانت اور جو شخص (اس معاہدہ کی رو سے) محمد (ﷺ ) کے دائرہ میں جانا پسند کرے وہ محمد (ﷺ ) کے ساتھ ہوجائے اور جو قریش سے ملنا چاہے وہ ان کے ساتھ شامل ہوجائے۔ فوراً بنی خزاعہ کود کر سامنے آئے اور کہا، ہم محمد ﷺ کے معاہدوں اور ذمہ داری میں شامل ہیں اور بنی بکر نے کہا : ہم قریش کے عہد اور ذمہ داری میں ہیں۔ جب صلح پختہ ہوگئی اور سوائے تحریر کے اور کوئی کام باقی نہ رہا تو حضرت عمر ؓ تیزی سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا یارسول اللہ ! (ﷺ ) کیا آپ اللہ کے نبی ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا، کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہیں جائیں گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا، کیوں نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا تو پھر آپ ہم کو ہمارے دین میں یہ ذلت کیوں دے رہے ہیں ؟ ابھی تک اللہ نے ہمارا اور ان کا فیصلہ نہیں کیا (یعنی لڑائی نہیں ہوئی) اور ہم واپس چلے جائیں (یہ بڑی ذلت کی بات ہے) حضور ﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں اللہ کے حکم کے خلاف نہیں کرسکتا، اللہ مجھے تباہ کردے گا، وہی میرا مددگار ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کیا آپ ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم کعبہ پہنچیں گے اور یقینا طواف کریں گے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں، مگر کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ میں پہنچیں گے ؟ حضرت عمر ؓ نے کہا یہ تو نہیں فرمایا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تو یقینا تم بیت اللہ پہ پہنچو گے اور اس کا طواف کروگے۔ اس کے بعد حضرت عمرغصہ کی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس پہنچے اور صبر نہ کرسکے اور بولے، ابوبکر ! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا، ہیں، کیوں نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کیا ہم لوگ سچائی پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا ہیں، کیوں نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہیں جائیں گے ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کیوں نہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا تو پھر کیوں یہ ذلت کیسی ؟ (یہ مصالحت تو ہمارے دین کی ذلت ہے) اللہ نے ہمارا ان کا فیصلہ نہیں کیا اور ہم لوٹ جائیں (یہ تو بڑی ذلت ہے) حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا اے شخص ! وہ اللہ کے رسول (ﷺ ) ہیں، اپنے رب کے حکم کے خلاف نہیں کرتے، وہی ان کا مددگار ہے، تم مرتے دم تک ان کی کمر (یعنی دامن) کو پکڑے رہو، بلا شبہ وہ سچائی پر ہیں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا : بلا شبہ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ حضرت عمر نے کہا میں بھی شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے یہ بھی کہا، کیا وہ ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ بیت اللہ پر پہنچیں گے اور طواف کریں گے ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا، کیوں نہیں۔ لیکن کیا انہوں نے تم کو یہ بھی بتایا تھا کہ اسی سال تم بیت اللہ پر پہنچو گے ؟ حضرت عمر ؓ نے کہا نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا تو پھر یقینا تم کعبہ کو پہنچو گے اور طواف کرو گے۔ حضرت ابو جندل کا بیڑیوں سمیت واپس کرنا اسی اثناء میں ابوجندل بن سہیل بن عمرو بیڑیاں پہنے، قیدیوں کی چال سے (وادی کے) نشیب سے نکل کر آپہنچے اور آتے ہی مسلمانوں کے سامنے گرپڑے، ان کے باپ سہیل نے ان کو بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردیا تھا۔ مسلمان فوراً ان کے خیر مقدم کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور (بھاگ کر رہائی پانے کی) مبارک باد دی۔ سہیل نے یہ حالت دیکھی تو اٹھ کر بیٹے کی طرف گیا اور اس کے منہ پر خار دار لکڑی ماری اور گریبان پکڑ لیا اور کہا محمد ﷺ یہ پہلا واقعہ ہے جس پر میں نے اور آپ نے معاہدہ کیا تھا (جو شخص ہم میں سے آپ کے پاس آجائے گا) آپ اس کو واپس کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابھی تک تو تحریر پوری نہیں ہوئی۔ کہنے لگا : تو پھر خدا کی قسم ! میں کبھی مصالحت نہیں کروں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تو اس کو میری ضمانت میں دے دو ۔ کہنے لگا، میں آپ کی ضمانت میں نہیں دے سکتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں، ایسا کردو۔ کہنے لگا : میں نہیں کروں گا۔ اس پر مکرز اور حویطب نے رسول اللہ ﷺ سے کہا ہم اس کو آپ کی وجہ سے اپنی ذمہ داری میں لیتے ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں نے اس کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا اور خیمے میں چلے گئے اور باپ بےتعلق ہوگیا۔ ابوجندل نے کہا : اے گروہ ہائے اہل اسلام ! کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں واپس دیا جارہا ہے ؟ میں تو مسلمان ہوکر آیا تھا۔ دیکھو ! میں نے کیسے دکھ جھیلے ہیں۔ سہیل نے ابوجندل کو سخت ترین تکلیفیں دی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا، ابوجندل ! صبر کر، ثواب کی امیدرکھ، اللہ تیرے لئے مع ان کمزور لوگوں کے جو تیرے ساتھ ہیں، کوئی کشائش اور رہائی کا راستہ ضرور پیداکردے گا۔ ہم نے ان لوگوں سے صلح کا معاہدہ کرلیا ہے، ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کو وعدہ دے دیا ہے، اس لئے ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ (یہ حالت دیکھ کر) ابو جندل کے برابر ہوگئے اور کہا صبر کر اور ثواب کی امید رکھ، یہ مشرک ہیں، ان کا خون کتے کے خون کے برابر ہے (یعنی ان کو قتل کرنا نہ گناہ ہے ، نہ قابل مواخذہ) حضرت عمر ؓ اس بات کے کہنے کے درمیان تلوار کا قبضہ ابوجندل کے قریب کرتے جارہے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : مجھے خیال تھا کہ ابوجندل تلوار لے کر اس سے باپ کو مارڈالے گا (اس لئے میں نے تلوار کا قبضہ اس کی طرف بڑھایا تھا) آخر ابوجندل کو باپ کے سپرد کردیا گیا۔ صحابہ خوش تھے اور رسول اللہ ﷺ کے خواب کی وجہ سے ان کو فتح میں کوئی شبہ نہ تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ صلح ہوگئی اور واپس جانا پڑے گا تو اس سے ان کو بڑا رنج ہوا۔ قریب تھا کہ موت سے ہمکنار ہوجائیں۔ پھر ابو جندل کے واقعہ نے ان کا رنج اور بڑھا دیا۔ جب صلح کی بات طے ہوگئی (اور صلح نامہ لکھ دیا گیا) تو کچھ مسلمانوں اور مشرکوں نے اس پر اپنی شہادت ثبت کی۔ مسلمانوں میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عبداللہ بن سہیل بن عمرو، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت محمود بن سلمہ، حضرت علی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور مشرکوں میں مکرز بن حفص نے شہادت دی۔ تحریر سے فراغت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اٹھو، قربانی کرو، پھر سر منڈوائو۔ (یہ حکم سن کر بھی) اللہ کی قسم ! کوئی نہیں اٹھا، یہاں تک کہ حضور ﷺ نے تین بار حکم دیا (لیکن کسی نے جنبش نہیں کی) اس سے حضور ﷺ کو بڑا صدمہ ہوا اور اندر حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ام المومنین سے فرمایا : مسلمان ہلاک ہوگئے، میں نے ان کو قربانی کرنے اور سر منڈوانے کا حکم دیا لیکن انہوں نے تعمیل نہیں کی۔ ام المومنین نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ! آپ مسلمانوں کو برا نہ کہیں، ان پر بڑا صدمہ پڑا ہے۔ آپ نے صلح کرنے اور بغیر فتح کرنے کے واپس ہوجانے کی جس دشواری میں خود اپنے آپ کو ڈالا ہے، اس کا مسلمانوں کو بڑا رنج ہوا ہے۔ یا نبی اللہ ﷺ ! آپ تشریف لے جائیے اور کسی سے ایک بات بھی نہ کیجئے۔ جاکر اپنے قربانی کے اونٹوں کو نحر کیجئے اور کسی کو طلب فرما کر اپنا سر منڈوادیجئے۔ حضور ﷺ باہر تشریف لے آئے اور کسی سے کوئی بات کہے بغیر بلند آواز سے بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر قربانی کے اونٹوں کو نحر کیا اور ایک شخص کو بلوا کر سرمنڈوایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے جب حضور ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنی اپنی قربانی کے اونٹوں کو نحر کیا اور باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ قریب تھا کہ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حدیبیہ کے دن کچھ لوگوں نے سر منڈوائے اور کچھ لوگوں نے بال کتروائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منڈوانے والوں پر اللہ کی رحمت ہو۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اور بال کتروانے والوں پر بھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : منڈوانے والوں پر اللہ کی رحمت ہو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ ! اور کتروانے والوں پر بھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اور کتروانے والوں پر بھی۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے منڈوانے والوں کے لئے دوبارہ دعاء رحمت فرمائی۔ فرمایا : اس لئے کہ وہ شبہ میں نہیں پڑے (یعنی ان کو یقین ہوگیا کہ حالت احرام ختم ہوگئی اور اب آگے بڑھنا نہیں ہے) ۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : حضور ﷺ کے اس فرمان کی وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگوں کو خیال تھا کہ شاید ہم کو طواف کرنے کا موقع مل جائے، اس لئے وہ سر منڈوانے سے رکے رہے (اور کچھ بال کتروا دیئے) ۔ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ میں 19 یا 20 رات قیام کیا ، محمد بن عمرو کا یہی بیان ہے۔ حدیبیہ کے قیام کے زمانہ میں (احرام کھولنے اور قربانی کرنے کے حکم سے پہلے) رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ سے فرمایا تھا، تم کو کیا سر کے کیڑوں (جوئوں) سے تکلیف ہورہی ہے ؟ حضرت کعب کے سر سے جوئیں گرتی ہوئی حضور ﷺ نے دیکھ لی تھیں۔ کعب نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضور ﷺ نے ان کو سر منڈوانے اور فدیہ دینے کا حکم دیا۔ فدیہ کی تین صورتیں تھیں۔ روزے رکھنے یا خیرات، یا قربانی۔ اس وقت آیت ” واتموا الحج والعمرۃ للہ فان احصرتم فما استیسر من الھدی الخ “ نازل ہوئی۔ ہم نے سورة البقرہ کی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں احصار (راستہ کی رکاوٹ) اور کسی عذر کی وجہ سے سر منڈوادینے اور اس سے تعلق رکھنے والے مسائل بیان کردیئے ہیں۔ مسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع کی روایت سے اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے اور بزار و طبرانی و بیہقی نے حضرت ابوحبیش کی روایت سے اور محمد بن عمرو نے اپنے شیوخ کی سند سے بیان کیا کہ حدیبیہ سے واپسی میں رسول اللہ ﷺ نے پہلی منزل مرالظہر ان میں اور اس کے بعد (دوسری منزل) عسفان میں کی۔ یہاں پہنچ کر لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے حضور ﷺ سے یہ شکایت کی اور عرض کیا، کیا ہم گدھوں کو ذبح کرلیں ؟ حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا، کیا ہم گدھوں کو ذبح کرلیں ؟ حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ حضرت عمر ؓ تعالیٰعنہ نے عرض کیا، کیا ہم گدھوں کو ذبح کرلیں ؟ حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ایسا نہ کیجئے، لوگوں کے پاس سواریاں رہنا زیادہ مناسب ہیں۔ اگر کل کو دشمن سے مقابلہ ہوگیا اور ہم بھوکے بھی ہوئے اور پیدال بھی تو کیا ہوگا ؟ میری رائے یہ ہے کہ جو کچھ صحابہ کے پاس کھانے کی چیز رہ گئی ہو، آپ وہ طلب بھوکے بھی ہوئے اور پیدال بھی تو کیا ہوگا ؟ میری رائے یہ ہے کہ جو کچھ صحابہ کے پاس کھانے کی چیز رہ گئی ہو، آپ وہ طلب بھوکے بھی ہوئے اور پیدل بھی تو کیا ہوگا ؟ میری رائے یہ ہے کہ جو کچھ صحابہ کے پاس کھانے کی چیز رہ گئی ہو، آپ وہ طلب بھوکے بھی ہوئے اور پیدل بھی تو کیا ہوگا ؟ میری رائے یہ ہے کہ جو کچھ صحابہ کے پاس کھانے کی چیز رہ گئی ہو، آپ وہ طلب فرمائیں، پھر برکت کی دعا کریں۔ امید ہے کہ اللہ آپ کی دعا سے ہم کو (منزل مقصود تک) پہنچا دے گا۔ اس مشورہ کے فرمائیں ، پھر برکت کی دعا کریں۔ امید ہے کہ اللہ آپ کو دعا سے ہم کو (منزل مقصود تک) پہنچا دے گا۔ اس مشورہ کے موافق رسول اللہ ﷺ نے جو سامان کھانے کا (کسی کے پاس) باقی رہ گیا تھا، طلب فرمایا اور چمڑے کا ایک دستر خوان بچھا دیا۔ سب سے زیادہ لانے والا وہ شخص تھا جو ایک صاع (تقریباً چار سیر) چھوارے لایا۔ غرض لوگوں کے پاس کھانے کی جو چیز تھی وہ چرمی دستر خوان پر جمع کردی گئی۔ پھر حضور ﷺ نے کھڑے ہوکر جو کچھ اللہ نے چاہا (پڑھ کر) دعا کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے پیٹ بھر کر کھایا اور اپنے برتن بھی بھرلیے اور چیزیں جتنی تھیں، اتنی ہی رہیں۔ حضور ﷺ یہ دیکھ کر ہنس دیئے، اتنے کہ کچلیاں نظر آگئیں۔ حضرت سلمہ کا بیان ہے میں نے اندازہ کیا کہ ہم اس روز تقریباً 14 سو آدمی تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں جو بندہ ان دونوں (یعنی توحید و رسالت) پر ایمان رکھے گا، وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔ زہری کی روایت میں آیا ہے، پھر مومن عورتیں آئیں جن کے متعلق اللہ نے نازل فرمایا : یایھا الذین امنوا اذا جآء کم المومنت مھاجرت فامتحنوھن…بعصم الکوافر “ تک۔ اس روز حضرت عمر ؓ نے اپنی دو عورتوں کو طالق دی جو شرک کے زمانہ میں ان کے عقد میں تھیں۔ ان میں سے ایک نے معاویہ بن ابی سفیان سے نکاح کرلیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ سے۔ راوی کا بیان ہے پھر اللہ نے (مومن) عورتوں کو واپس کرنے کی ممانعت فرمادی بلکہ ان کا مہر (جو کافروں سے عقد کی حالت میں انہوں نے وصول کیا ہو) کافروں کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ معاہدہ کے دوران ابو بصیر کا آپ ﷺ کی خدمت میں آنا اور ان کا بھی واپس کردینا امام احمد، بخاری ، ابودائود اور نسائی نے حضرت مسور بن مخرمہ اور بیہقی نے زہری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ سے مدینہ میں آگئے تو ابوبصیر عتبہ بن اسد ثقفی (مکہ سے بھاگ کر) مسلمان ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ خاندان بنی ثقیف، قبیلہ بنی زہرہ کا حلیف تھا۔ احبس بن شریف ثقفی اور ازہر بن عبدعوف زہرہ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک خط خنیس بن جابر عامری کے ہاتھ بھیجا جس میں گزشتہ مصالحت کا تذکرہ کیا اور درخواست کہ کہ ابو بصیر کو واپس بھیج دیا جائے۔ ابو بصیر کے پہنچنے سے تین دن بعد عامری اپنے غلام کے ساتھ جس کا نام کوثر تھا، خط لے کر پہنچا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوبصیر کے پہنچنے سے تین دن بعد عامری اپنے غلام کے ساتھ جس کا نام کوثر تھا، خط لے کر پہنچا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو بصیر کو حکم دیا کہ ان دونوں کے ساتھ واپس چلے جائو۔ تم واقف ہو کہ ہم نے ان لوگوں سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے مذہب میں عہد شکنی جائز نہیں۔ اللہ تمہارے لئے اور تمہارے ساتھی دوسرے مسلمانوں کے لئے کوئی کشائش اور رہائی کا راستہ پیدا کردے گا۔ غرض دونوں شخص ابوبصیر کو لے کر ذوالحلیفہ پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر ابو بصیر نے مسجد میں دو رکعت نماز قصر پڑھی اور نماز کے بعد جو کچھ کھانے کا سامان ساتھ لائے تھے، کھانے لگے اور عامری کو اور اس کے ساتھی کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ وہ دونوں بھی اتر آئے اور چھوہارے کھانے لگے۔ عامری کے پاس اس وقت تلوار تھی، دونوں باتیں کرتے رہے۔ بقول عروہ، عامری نے تلوار نیام سے نکال لی اور کہا میں اپنی اس تلوار سے کئی دن رات تک اوس اور خزرج کو ماروں گا۔ ابو بصیر نے کہا : کیا تمہاری تلوار براں بھی ہے ؟ عامری نے کہا : ہاں۔ ابو بصیر نے کہا مجھے تو دکھائو۔ عامری نے ابوبصیر کے ہاتھ میں تلوار دے دی۔ ابو بصیر نے جب تلوار کا قبضہ پکڑ لیا تو اسی سے عامری کے ایسی ضرب رسید کی کہ وہ ٹھنڈا پڑگیا۔ کوثر بھاگ کر مدینے پہنچا اور مسجد میں گھس گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ کوثر نے کہا : میرا ساتھی ختم ہوگیا اور میں چھوٹ کر بھاگ آیا ورنہ میں بھی مارا جاتا۔ غرض کوثر نے رسول اللہ ﷺ سے فریاد کی اور آپ نے اس کو پناہ دے دی۔ ابوبصیر، عامری کے اونٹ پر سوار ہوکر آگیا، اونٹ کو مسجد سے باہر بٹھایا اور خود وحشت زدہ حالت میں تلوار سمیت مسجد میں آگیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی اور اللہ نے آپ سے یہ ذمہ داری پوری کرادی اور آپ نے مجھے دشمن کے ہاتھ میں دے دیا لیکن میں اپنے دین کی وجہ سے مصیبت میں پڑنے سے محفوظ رہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ افسوس ! یہ لڑائی کی آگ بھڑکائے گا۔ کاش ! کوئی اس (کو مکہ پہنچانے) کے لئے ہوتا۔ ابو بصیر نے عامری کا مال جس پر اس نے قتل کرنے کے بعد قبضہ کیا تھا، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تاکہ آپ اس میں سے پانچواں حصہ لے لیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر میں اس میں سے خمس لے لوں گا تو وہ لوگ خیال کریں گے کہ میں نے ان سے کیا ہوا معاہدہ پورا نہیں کیا، تم جانو اور یہ چھینا ہوا مال ، اور جہاں چاہو چلے جائو۔ صحیح روایت میں آیا ہے کہ ابو بصیر نے جب رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا کہ تو لڑائی کی آگ بھڑکائے گا الخ تو اس نے سمجھ لیا کہ حضور ﷺ مجھے ضرور واپس کریں گے، اس لئے ابوبصیر اور اس کے ساتھ وہ پانچ آدمی جو بھاگ کر اس کے ساتھ مدینہ میں آئے تھے، اور کسی نے ان کی تلاش بھی نہیں کی تھی، نکل کر چل دیئے اور ساحل سمندر میں پہنچ کر عیص اور ذی المروۃ کے درمیان قریش کے قافلہ کے راستہ پر مقیم ہوگئے۔ مکہ میں جو مسلمان بند تھے، ان کو جب ابوبصیر کے واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ بھی چپکے سے چوری چھپے نکل کر ابوبصیر کے پاس پہنچ گئے۔ بیہقی نے بروایت زہری یہی بیان کیا ہے۔ قریش کا جو قافلہ ادھر سے گزرتا تھا، یہ لوگ اس کا مال چھین لیتے تھے اور قافلہ والوں کو قتل کردیتے تھے۔ قریش کو انہوں نے تنگ کردیا۔ قریش کا جو آدمی ان کے ہاتھ لگتا، اس کو قتل کردیتے۔ آخر قریش نے ابوسفیان کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا اور یہ پیام دیا کہ ابو بصیر اور اس کے ساتھیوں کو آپ (اپنے پاس) بلوالیں، آئندہ ہمارا جو آدمی آپ سے جاکر مل جائے، آپ اس کو روک لیں، آپ کے لئے روک لینا جائز ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوبصیر اور ابوجندل کو لکھ بھیجا کہ تم دونوں میرے پاس آجائو اور دوسرے مسلمان جو تمہارے ساتھ ہیں، ان کو حکم دے دو کہ وہ اپنی اپنی بستیوں کو اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ آئندہ جو قریشی یا قافلہ ان کی طرف سے گزرے، اس سے کوئی تعرض نہ کریں۔ ابو بصیر کے پاس رسول اللہ ﷺ کا نامہ گرامی اس وقت پہنچا جب ان کا آخری وقت تھا۔ نامہ گرامی ان کے ہاتھ میں تھا، اس کو پڑھ رہے تھے کہ اسی حالت میں وفات ہوگئی۔ ابوجندل نے ان کو اسی جگہ دفن کردیا اور ان کی قبر کے قریب مسجد بنادی۔ ” والھدی معکوفا “ وہ ہدی تقریباً ستر کے قریب تھے جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے ہنکائے تھے ۔” ان یبلغ محلہ “ ان کے تحر کی جگہ ناکہ ان کا نحر کرنا حلال ہوجائے۔ (یعنی حرم میں)” ولولا رجال مومنون ونساء مومنات “ جو مکہ ٹھہر چکے ہیں۔ ” لم تعلموھم “ جن کو وہ نہیں پہچانتے۔ ” ان تطوھم “ کہ ان کو قتل کردیں اور اس قتل کے جرم میں واقع ہوجائیں۔ ” فتصیبکم منھم معرۃ بغیر علم “ ابن زید نے فرمایا معرۃ سے مراد گناہ ہے۔ ابن اسحاق نے کہا کہ دیت دینا ہے۔ بعض نے کہا کہ کفارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دارالحرب میں اس مومن کے قتل کو معاف قرار دیا ہے جس کے ایمان کو مسلمان نہ جانتے ہوں۔ ” فان کان من قوم عدولکم وھو مومنتحریر رقبۃ مومنۃ “ بعض نے کہا کہ اگر ایسے مومنین کو قتل کرو گے تو مشرک لوگ عیب لگائیں گے کہ انہوں نے اپنے دین والوں کو قتل کردیا۔ معرۃ سے مراد پھر یہاں مشقت ہوگا۔ اگر ایسی حالت میں کسی مومن یا مومنہ کو قتل کردیا تو اس پر کفارہ ہے۔ ” لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشائ “ تاکہ اللہ اپنی رحمت سے اہل مکہ میں سے جس کو چاہے اسلام میں داخل کردے۔ ” لوتزیلوا “ اگر مومنین نے کفار سے اپنے مسلمانوں کو پہچان لیا۔ ” لعذبنا الذین کفروا منھم عذابا الیما “ قید کے ذریعے ہو یا اپنے ہاتھوں کے ساتھ قتل کے ساتھ ہو ۔ بعض اہل علم نے کہا ” لعذبنا “ دونوں کلاموں میں سے ایک کا جواب ہے ” لولا رجال “ یہ پہلا ہے دوسرا ” لو تزیلوا “ ہے۔ پھر فرمایا ” لید خل اللہ فی رحمتہ من یشائ “ اس سے مراد مومنین اور مومنات ہیں۔ ” فی رحمتہ “ سے مراد جنت ہے۔ قتادہ نے اس آیت کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ یہاں مومنین کو کفار سے ایسے دور کیا جیسے اہل مکہ کے مسلمانوں کو وہاں کے مشرکوں سے دور کردیا۔
Top