Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Fath : 25
هُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ الْهَدْیَ مَعْكُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ١ؕ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَطَئُوْهُمْ فَتُصِیْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ۚ لِیُدْخِلَ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
هُمُ : وہ، یہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا وَصَدُّوْكُمْ : اور تمہیں روکا عَنِ : سے الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَالْهَدْيَ : اور قربانی کے جانور مَعْكُوْفًا : رکے ہوئے اَنْ يَّبْلُغَ : کہ وہ پہنچے مَحِلَّهٗ ۭ : اپنا مقام وَلَوْلَا رِجَالٌ : اور اگر نہ کچھ مرد مُّؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) وَنِسَآءٌ : اور عورتیں مُّؤْمِنٰتٌ : مومن (جمع) لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ : تم نہیں جانتے انہیں اَنْ : کہ تَطَئُوْهُمْ : تم انکو پامال کردیتے فَتُصِيْبَكُمْ : پس تمہیں پہنچ جاتا مِّنْهُمْ : ان سے مَّعَرَّةٌۢ : صدمہ، نقصان بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ : نادانستہ لِيُدْخِلَ : تاکہ داخل کرے اللّٰهُ : اللہ فِيْ رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جسے وہ چاہے لَوْ تَزَيَّلُوْا : اگر وہ جدا ہوجاتے لَعَذَّبْنَا : البتہ ہم عذاب دیتے الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے مِنْهُمْ : ان میں سے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم انکو پامال کردیتے تو تم کو ان کی طرف سے بیخبر ی میں نقصان پہنچ جاتا (تو ابھی تمہارے ہاتھ سے فتح ہوجاتی مگر تاخیر) اس لئے (ہوئی) کہ خدا اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے
اور وہ لوگ یعنی اہل مکہ جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں حدیبیہ کے سال مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانور کو بھی اس کے موقع پر پہنچنے سے روکا کہ وہ حدیبیہ ہی میں رہ گیا۔ اور اگر اس وقت مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان مرد جیسا کہ ولید سلمہ بن ہشام، عیاش بن ربیعہ، ابو جندل اور بہت سی مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تمہیں خبر بھی نہ تھی یعنی ان کے قتل ہونے کا خدشہ نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تمہیں بھی بیخبر ی میں گناہ اور دیت کا نقصان پہنچتا تو ابھی تمہیں ان پر مسلط کر کے ان کا سارا قصہ ہی ختم کردیا تھا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اس کو دولت عطا فرمائے جو اس چیز کا اہل ہو البتہ اگر یہ مزکور مسلمان مکہ والوں کے درمیان سے کہیں ٹل گئے ہوتے تو ہم ان مکہ والوں میں سے جو کافر تھے دردناک سزا دیتے اور مسلمانوں کی تلواروں سے ان کی گردنیں کٹواتے۔ شان نزول : وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ (الخ) طبرانی اور ابو یعلی نے ابو جمعہ جنید بن سبع سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ دنیا کے ابتدائی حصہ میں میں نے رسول رسول اکرم سے کفر کی حالت میں قتال کیا اور اخیر حصہ میں آپ کے ساتھ شامل ہو کر اسلام کی حالت میں کفار سے لڑا اور ہم تین آدمی اور سات عورتیں تھے ہمارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
Top