Bayan-ul-Quran - Al-Hashr : 5
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا انکو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
5 ۔” ماقطعتم من لینۃ “ جب رسول اللہ ﷺ بنو نضیر پر اترے اور انہوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لے لی تو آپ (علیہ السلام) نے ان کے درخت کاٹنے اور ان کو جلانے کا حکم دیا تو اللہ کے دشمنوں نے اس وقت واویلا کیا اور کہنے لگے۔ اے محمد ( ﷺ ) آپ نے گمان کیا کہ آپ صلاح و خیرخواہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ کیا صلاح میں سے درختوں کا اکھاڑنا اور کھجوروں کو کافی ہے ؟ پس کیا تونے پایا ہے اس میں جو تجھ پر اتارا گیا ہے زمین میں فساد مچانا۔ پس مسلمانوں نے ان کے قول کی وجہ سے اپنے دل میں کچھ پایا اور ڈرے کہ یہ فساد نہ ہوا اور اس میں اختلاف کیا تو بعض نے کہا تم نہ کاٹو کیونکہ یہ اس میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ۔۔۔ بنائیں گے اور ان میں سے بعض نے کہا بلکہ ہم ان کو کاٹ کر ان لوگوں کو غصہ دلا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ن یاس آیت کو اتاا، ان کی تصدیق کے لئے جنہوں نے ان کو کاٹنے سے روکا اور جنہوں نے اس کو کاٹا ان کو گناہ سے حلال کرنے کے لئے۔ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کے کھجور کے درخت جلادیئے اور کٹوادیئے اور وہ تباہ ہوگئے تو آیت نازل ہوئی۔ ” اوترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ “ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جو تم نے کاٹ دیئے اور جو چھوڑ دیئے تو وہ اللہ کے اذن کے ساتھ تھے۔ ” والیخزی الفاسقین “ اور مفسرین رحمہم اللہ کا ” لینۃ “ میں اختلاف ہوا ہے، ایک قوم نے کہا ہے کھجور کے تمام درخت ” لینۃ “ ہیں عجوہ کے علاوہ اور یہ عکرمہ اور قتادہ رحمہما اللہ کا قول ہے اور اسی کو زاذان نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ ان کے کھجور کے درخت کٹواتے تھے سوائے عجوہ کے اور اہل مدینہ عجوہ کے علاوہ کھجوروں کا نام الوان رکھتے ہیں اور اس کا واحد ” لون “ اور ” لینۃ “ ہے زہری (رح) فرماتے ہیں یہ تمام کھجوروں کے درخت ہیں سوائے عجو وہ اور برنیہ کے اور مجاہد اور عطیہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں یہ تمام کھجور کے درخت ہیں بغیر کسی استثناء کے اور عوفی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا یہ کھجور کی ایک قسم ہے۔ اور سفیان (رح) فرماتے ہیں یہ عمدہ کھجور ہے اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں یہ کھجور کی ایک قسم ہے اس کے پھل کو لون کہا جاتا ہے اور یہ سخت زرد ہوتی ہے اس کی گٹھلی باہر سے دیکھی جاتی ہے۔ اس میں داڑھ چھپ جاتی ہے اور یہ عمدہ کھجور اور ان کے ہاں پسندیدہ ہے اور اس کے ایک درخت کی قیمت وصیف (کھجور کی قسم) کی قیمت ہے اور وہ ان کے ہاں وصیف سے زیادہ پسندیدہ تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ صحابہ کرام ؓ اس کو کاٹ رہے ہیں تو یہ ان پر بڑا بھاری ہوا اور مومنین کو کہتے لگے تم تو زمین میں فساد مچانے کو ناپسند کرتے ہو اور اب خود فساد مچا رہے ہو۔ ان درختوں کو چھوڑ دو یہ ان کے ہوں گے جو غالب آگئے تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ یہ اس کی اجازت سے ہے۔
Top