Tafseer-e-Baghwi - Al-Qalam : 18
وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ
وَلَا : اور نہ يَسْتَثْنُوْنَ : وہ استثناء کررہے تھے
ہم نے ان لوگوں کی اس طرح آزمائش کی ہم جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی جب انہوں نے قمسیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
17 ۔” انا بلوناھم “ یعنی ہم نے اہل مکہ کا قحط اور بھوک کے ذریعے امتحان لیا۔ ” کما بلونا “ ہم نے آزمائش۔ ” اصحاب الجنۃ “ ابو صالح نے ابن عباس ؓ سیروایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” انا بلوناھم کما بلونا اصحاب الجنۃ “ کے بارے میں۔ فرماتے ہیں یمن میں ایک باغ تھا جس کو ضروان کہا جاتا تھا صنعاء سے دو فرسخ پہلے اس کو اہل طریق روندتے تھے۔ اس کو اہل صلاۃ کی ایک قوم نے لگایا تھا یہ ایک شخص کا تھا جو مرگیا تو اس کے تین بیٹے وارث بنے اور جب اس کو ٹھنڈی ہوا لگتی اور جو چیز جدا ہوتی جس کو درانتی کاٹتی ہے جس وہ درختوں کے اوپر سے نیچے بچھونوں پر گرتی تو وہ مساکین کے لئے ہوتی اور جب کھیتی کاٹتے اور جس چیز کو درانتی کاٹنے سے چھوڑ دیتی وہ بھی مساکین کے لئے ہوتی اور جب دانہ نکالتے جو چیز نیچے گرجاتی وہ بھی مساکین کے لئے ہوتی۔ پھر جب باپ مرگیا اور یہ تین بھائی باپ سے وارث بنے تو کہنے لگے اللہ کی قسم ! مال تھوڑا ہے اور عیال زیادہ ہیں اور یہ کام تو تب کیا جاتا ہے جب مال زیادہ اور عیال تھوڑے ہوں۔ بہرحال جب مال تھوڑا ہے اور عیال زیادہ ہیں تو ہم یہ کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو ایک دن انہوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ وہ صبح کو لوگوں کے نکلنے سے پہلے جائیں گے اور اپنی کھجوریں کاٹ لیں گے اور انہوں نے استثناء نہ کیا یعنی انشاء اللہ نہ کہا تو وہ لوگ رات کی تاریکی میں اپنے باغ کی طرف گئے تاکہ مساکین کے نکلنے سے پہلے اس کو کاٹ لیں تو اس کو بالکل سیاہ دیکھا۔ تحقیق اس پر رات کو عذاب کا ایک حصہ چکرلگا گیا تھا پس اس کو جلا دیا۔ پس وہ اس زمین کی طرف ہوگئی جس کی کھیتی کٹ گئی ہو۔ پس یہ مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول ” اذقسموا “ انہوں نے قسمیں کھائیں۔ ” لیصرمنھا مصبحین “ ضرور اس کے پھل کاٹیں گے جب صبح ہوگی مساکین کو معلوم ہونے سے پہلے۔
Top