Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 18
وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ
وَلَا : اور نہ يَسْتَثْنُوْنَ : وہ استثناء کررہے تھے
اور کچھ بھی نہ چھوڑیں گے۔
ایک عام غلط فہمی: عام طور پر لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ قسم کھاتے ہوئے انھوں نے ’اِنْ شَآءَ اللّٰہ‘ نہیں کہا۔ ان کو اپنی کامیابی اتنی متیقّن نظر آئی کہ یہ وہم بھی نہ گزرا کہ اس میں کوئی رخنہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس مطلب پر اگرچہ تمام مفسرین کا اتفاق ہے لیکن میرا دل اس پر نہیں جمتا۔ لفظ ’اِسْتِثْنَاءٌ‘ کے اندر اگرچہ اس مفہوم کی گنجائش ہے لیکن جس اسلوب میں یہاں بات فرمائی گئی ہے وہ اس کے لیے کچھ موزوں نہیں ہے۔ اگر یہ بات کہنی تھی تو ’وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ‘ کی جگہ ’وَلَمْ یَسْتَثْنُوْا‘ یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور اسلوب ہونا تھا۔ خود لفظ ’اِسْتِثْنَاءٌ‘ بھی ’اِنْ شَآءَ اللّٰہ‘ کہنے کے مفہوم کے لیے کوئی واضح لفظ نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب جہاں بھی لیا جائے گا قرینہ ہی کی مدد سے لیا جائے گا۔ اور یہاں اس کا قرینہ ایسا واضح نہیں ہے کہ اس پر ذہن پوری طرح مطمئن ہو سکے۔ میرے نزدیک یہاں ’وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ‘ اپنے اصل لغوی مفہوم ہی میں ہے یعنی انھوں نے قسم کھائی کہ کل ہم اپنے باغ کے پھل ضرور ہی توڑ لیں گے اور اس میں سے کچھ بھی چھوڑیں گے نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کا طریقہ نہیں اختیار کریں گے جو باغ کے پھل توڑتے ہیں تو کچھ غریبوں مسکینوں کے نام پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ باغوں سے متعلق دین دار اور فیاض لوگوں کے اندر یہ طریقہ قدیم زمانہ سے معروف چلا آ رہا ہے کہ جب باغ کے پھل توڑتے تو کچھ حصہ مسکینوں کے حق کے طور پر چھوڑ دیتے۔ انجیلوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی یہ تعلیم مذکور ہے کہ ’جب تو اپنے باغ کے پھل توڑے تو کُل نہ توڑے بلکہ اس کا کچھ حصہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے بھی چھوڑ۔‘ اسی معروف طریقہ کو پیش نظر رکھ کر ان لئیموں نے قسم کھائی کہ ہم ایسا ہرگز کرنے والے نہیں ہیں۔ ان کو اپنی اسی بات کو مؤکد کرنے کے لیے قسم کھانے کی ضرورت پڑی ورنہ جملہ میں قسم کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس تمثیل میں چونکہ قریش کے ان لیڈروں کا کردار نمایاں کیا جا رہا ہے جن کو اوپر ’مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ‘، ’عُتُلٍّ‘ اور ’اَثِیْمٍ‘ کہا گیا ہے اس وجہ سے باغ والوں کی مذکورہ بالا قَسم کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا تاکہ دونوں کے کردار کی مشابہت پوری طرح واضح ہو جائے۔ قرآن میں ابولہب اور اس کے ہم مشربوں کی بخالت کی جو تصویر جگہ جگہ کھینچی گئی ہے اس کو بھی یہاں ذہن میں تازہ کر لیجیے۔
Top