Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 45
اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ
اِنَّمَا : وہی صرف يَسْتَاْذِنُكَ : آپ سے رخصت مانگتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَارْتَابَتْ : اور شک میں پڑے ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ فِيْ : میں رَيْبِهِمْ : اپنے شک يَتَرَدَّدُوْنَ : بھٹک رہے ہیں
اجازت وہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواڈول ہو رہے ہیں۔
طالبین اجازت منکر آخرت ہیں : آیت 45: اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (آپ سے وہ لوگ رخصت مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے) یعنی منافقین ان کی تعداد انتالیس 39 تھی۔ وَارْتاَبَتْ قُلُوْبُھُمْ ۔ (اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں) ان کو اپنے دین میں اشتباہ ہے۔ اور اپنے عقیدہ میں وہ مضطرب ہیں۔ فَہُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ (پس وہ اپنے شکوک میں پڑے ہوئے حیران ہیں) وہ حیران ہیں کیونکہ تردد کا معنی شک و شبہ میں پڑنا۔ الثبات کا معنی دلیل سے کسی چیز کا ماننا۔
Top