Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
اور آپ کا پروردگار بےنیاز بھی ہے اور رحم و کرم والا بھی۔ اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹادے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین بنادے۔ جس طرح تمہاری موجودہ نسل کو پہلی نسل کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 133 تا 135 : الغنی (بےنیاز۔ بےپرواہ) یستخلف (وہ قائم مقام بنادیتا ہے) ذریۃ ( اولاد) توعدون ( وعدہ کئے گئے ہیں) مکانتکم ( اپنی جگہ) عاقبۃ ( انجام) ۔ تشریح آیت نمبر 133 تا 135 : اللہ رحمت والا ہے یعنی کسی کو سزا دینے میں اسے کوئی لطف نہیں آتا۔ اسے تو انعام و اکرام دینے میں لطف آتا ہے اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہے۔ تمہاری خوشی سے خوش ہے۔ تمہاری تکلیف سے ناخوش ہے۔ کیا تم اس کے بنائے ہوئے نہیں ہو ؟ جس جسم و جان کو اتنی محبتوں سے عنایت کیا اور اتنی محبتوں اور سفقتوں سے عمر کی مختلف منزلوں سے گذارا ۔ کیا وہ اسے دوزخ میں ڈال کر خوش ہو سکتا ہے ؟ مگر سزا۔ وہ بھی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ اس کے بغیر انصاف کہاں ممکن ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے لوگو ! یہ جو مال و دولت ‘ صحت و اقتدار اس نے دے رکھا ہے ‘ اس پر مت پھولو۔ فرد ہو یا جماعت ‘ بڑی سے بڑی ہستی اور بڑی سے بڑی قوم اس صفحہ دنیا سے ایسی ملیا میٹ ہوگئی کہ اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ وہ جگہ خالی نہ رہی۔ دوسری ہستیوں نے اور دوسری قوموں نے ان کی جگہ لے لی۔ کیا تم پیدائش اور موت کے نظام کو نہیں دیکھتے کہ تمہارے آبائو اجداد آج کہاں ہیں۔ کل وہ تھے۔ آج تم ہو۔ اسی طرح کل کوئی اور ہوگا۔ فرمایا ” جان رکھو کہ ظالموں کو کبھی فلاح حاصل نہ ہوگی “۔ قرآن پاک کی اصطلاح میں ظالم صرف وہ نہیں جو کسی اور پر ظلم کرے۔ ظالم وہ بھی ہے جو اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے ‘ جو کفر و شرک اور فسق و فجور کر کے اپنے آ پکو دوزخ کا مستحق بنادے۔ جو کوئی اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے وہ لپیٹ میں بہت سارے دوسرے لوگوں کو بھی لے لیتا ہے۔ فلاح دنیاوی بھی ہے اور اخروی بھی۔ اخروی تو خیر ‘ ابھی پردہ غیب میں ہے۔ لنکک اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ظالم اپنے کیفر وکردار کو اسی زندگی میں پہنچ جاتا ہے۔ عذاب الہیٰ کی ایک قسم دنیا میں یہ بھی ہے کہ دولت ونعمت ‘ صحت و اقدار کی زیادتی کردی اور وہ مزید گناہوں میں غرق وہ گیا یا زوال میں آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ظالم کے لئے قیامت کے دن ظلم ‘ سخت اندھیرا بنے گا “ (متفق علیہ) اوس بن شرجیل ؓ کی روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کسی ظالم کا ساتھ دے کر اس کو قوت پہنچائے گا یہ سمجھ کر کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا “ آپ ﷺ ہی کی ایک طویل حدیث ہے جس کا مطلب ہے کہ ظالم کی نیکیاں مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اگر اس کی نیکیوں کا ذخیرہ ختم ہوگیا تو مظلوموں کی برائیاں اس کے سرپر دھردی جائیں گی۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم کے ظلم میں اسکی مدد کرتا ہے تو کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اس مدد کرنیوالے کو ظالم کے اوپر مسلط کردیتا ہے تاکہ ظالم کو یہاں بھی سزا مل جائے۔ اور تاریخ بلکہ جدید تاریخ اس پر گواہ ہے۔
Top