Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
اور آپ کا پروردگار غنی ہے صاحب رحمت ہے،198 ۔ وہ چاہے تو تم (سب) کو اٹھا لے اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہاری جگہ لا بسائے جس طرح تم کو پیدا کردیا ایک دوسری قوم کی نسل سے،199 ۔
198 ۔ صفت غنا لا کر یہ یاد دلا دیا کہ وہ جو بار بار پیغمبر بھیجتا رہا ہے تو کچھ اس لیے نہیں کہ وہ بندوں کی عبادت کا محتاج رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احتیاج وشائبہ احتیاج سے پاک ہے۔ اور صفت غنا لاکر یاد دیا کہ وہ جو بار بار پیغمبر بھیجتا رہا ہے تو کچھ اس لیے نہی کہ وہ بندوں کی عبادت کا محتاج و متمنی ہے۔ یہ تو مشرکوں ہی کے دیوتا ہوتے ہیں جو اپنے پوجا ریوں کی پوجا وپاٹ کے محتاج رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احتیاج وشائبہ احتیاج سے پاک ہے۔ اور صفت رحمت لاکر یہ یاد دلادیا کہ اس کا یہ باربار پیغمبروں کو بھیجتے رہنا اسی رحمت کے تقاضہ سے ہے تاکہ بندے مرضیات الہی سے آگاہ باخبر ہو کر دنیا میں نفع زیادہ سے زیادہ حاصل کرتے رہیں۔ (آیت) ” وربک الغنی ذوالرحمۃ “۔ کی ترکیب حصر کے معنی پیدا کررہی ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ غنی بھی کوئی اس کے سوا نہیں۔ اور صاحب رحمت بھی کوئی اس کے سوا نہیں۔ وعلم ان قولہ ربک الغنی ذوالرحمۃ یفید الحصر (کبیر) فثبت انہ لاغنی الا ھو حیث انہ لارحیم الا ھو (کبیر) امام المفسرین امام رازی (رح) نے آیت کے ذیل میں مذہب اہل سنت اور مسلک معتزلہ پر بحث کرکے آخر میں اپنے والد ماجد کے حوالہ سے شیخ ابوالقاسم سلیمان بن ناصر انصاری کا یہ بالکل صحیح فیصلہ نقل کیا ہے کہ اہل سنت کی نظر حق تعالیٰ کی قدرت ومشیت پر زیادہ رہتی ہے اور معتزلہ کی نظر تنزیہ وصفت عدل پر۔ اور دونوں کی تشفی و توقع اجر کے لیے یہی کلمہ وربک الغنی ذوالرحمۃ کافی ہے، اعلم یا اخی ان الکل لایجادلون الاالتقدیس والتعظیم وسمعت الشیخ الاما الوالد ضیاء الدین عمر بن الحسین قال سمعت الشیخ ابا القاسم سلیمان بن ناصر الانصاری یقول نظر اھل السنۃ علی تعظیم اللہ فی جانب القدرۃ ونفاذ المشیۃ ونظر المعتزلۃ علی تعظیم اللہ فی جانب القدرۃ ونفاذ المشیۃ ونظر المعتزلۃ علی تعظیم اللہ فی جانب العدل والبراء ۃ عن فعل ما لا ینبغی فاذا تاملت علمت ان احدا لم یصف اللہ الا بالتعظیم والاجلال والتقدیس والتنزیۃ ولکن منھم من اخطاومنھم من اصاب ورجاء الکل متعلق بھذہ الکمۃ وھی قول وربک الغنی ذوالرحمۃ (کبیر) 199 ۔ یعنی جس طرح پرانی نسلیں معدوم ہوگئیں، اور ان کی جگہ اب تم ہو، اسی طرح اللہ اگر چاہے تو یک بیک تم سب کو فنا کرکے ایک نئی نسل انسانی اٹھاکھڑی کرے۔ (آیت) ” یذھبکم “۔ یعنی تمہیں ہلاک کردے اذھاب یہاں اہلاک کے معنی میں ہے۔ اماتت بھی مراد لی گئی ہے۔ الاقراب ان المراد بہ الاھلاک ویحتمل الاماتۃ ایضا (کبیر) خطاب رسول اللہ ﷺ کے منکرین معاصرین سے ہے (آیت) ” من بعدکم “۔ یعنی تمہاری ہلاکت کے بعد۔ یعنی من بعد اذھابکم (کبیر)
Top