Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
اور تیرا رب بےپروا ہے رحمت والا اگر چاہے تو تم کو لے جاوے اور تمہارے پیچھے قائم کر دے جس کو چاہئے جیسا کہ تم کو پیدا کیا اوروں کی اولاد سے
خلاصہ تفسیر
اور آپ ﷺ کا رب (رسولوں کو کچھ اس لئے نہیں بھیجتا کہ نعوذ باللہ وہ محتاج عبادت ہے وہ تو) بالکل غنی ہے (بلکہ اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ) رحمت والا (بھی) ہے (اپنی رحمت سے رسولوں کو بھیجا تاکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو منافع و مضار (نقصان دینی والی چیزیں) معلوم ہوجائیں، پھر منافع سے منتفع اور مضار سے محفوظ رہیں، سو اس میں بندوں ہی کا فائدہ ہے، اور باقی ان کا گناہ تو ایسا ہے کہ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو (دنیا سے دفعةً) اٹھالیوے اور تمہارے بعد جس (مخلوق) کو چاہے تمہاری جگہ (دنیا میں) آباد کر دے جیسا (اس کی نظیر پہلے سے موجود ہے کہ) تم کو (جو کہ اب موجود ہو) ایک دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے (کہ ان کا کہیں پتہ نہیں اور تم ان کی جگہ موجود ہو، اور اسی طرح یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، لیکن یہ سلسلہ تدریجاً قائم ہے، اگر ہم چاہیں دفعةً بھی ایسا کردیں، کیونکہ کسی کے ہونے نہ ہونے سے ہمارا کوئی کام اٹکا نہیں پڑا، پس ارسالِ رسل ہمارے احتیاج کی وجہ سے نہیں تمہارے احتیاج کی وجہ سے ہے، تم کو چاہئے کہ ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرکے سعادت حاصل کرو اور کفر و انکار کے ضرر سے بچو کیونکہ) جس چیز کا (رسولوں کی معرفت) تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (یعنی قیامت و عذاب) وہ بیشک آنے والی چیز ہے اور (اگر احتمال ہو کہ گو قیامت آوے مگر ہم کہیں بھاگ جائیں گے، ہاتھ نہ آئیں گے، جیسا دنیا میں حکام کا مجرم کبھی ایسا کرسکتا ہے تو خوب سمجھ لو کہ) تم (خدا تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے (کہ اس کے ہاتھ نہ آؤ، اور اگر باجود جو اقامت دلائل تعیین حق کے کسی کو اس میں کلام ہو کہ کفر ہی کا طریقہ اچھا ہے اسلام کا برا ہے، پھر قیامت سے کیا اندیشہ تو ایسے لوگوں کے جواب میں) آپ (آخری بات) یہ فرما دیجئے کہ اے میری قوم (تم جانو بہتر ہے) تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی (اپنے طور پر) عمل کر رہا ہوں، سو اب جلدی تم کو معلوم ہوا چاہتا ہے کہ اس عالم (کے اعمال) کا انجام کار کس کے لئے منافع ہوگا (ہمارے لئے یا تمہارے لئے اور) یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی (انجام میں) فلاح نہ ہوگی (اور سب سے بڑھ کر اللہ کی حق تلفی ہے، اور یہ امر دلائل صحیحہ میں تھوڑا غور کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ طریقہ اسلام حق تلفی ہے یا طریقہ کفر، اور جو دلائل میں بھی غور نہ کرے اس سے اتنا کہہ دینا بس ہے فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ یعنی عنقریب تم اس عمل بد کا انجام جان لوگے) اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی (وغیرہ) اور مواشی پیدا کئے ہیں ان (مشرک) لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ (کے نام) کا مقرر کیا (اور کچھ بتوں کے نام کا مقرر کیا حالانکہ پیدا کرنے میں کوئی شریک نہیں) اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے (جو کہ مہمانوں اور مساکین اور مسافر وغیرہ عام مصارف میں صرف ہوتا ہے) اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (جس کے مصارف خاص ہیں) پھر جو چیز ان کے معبودوں (کے نام) کی ہوتی ہے وہ تو اللہ (نام کے حصہ) کی طرف نہیں پہنچتی (بلکہ اتفاقاً مل جانے سے بھی الگ نکال لی جاتی ہے) اور جو چیز اللہ (کے نام) کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں (کے نام کے حصہ) کی طرف پہنچ جاتی ہے، انہوں نے کیا بری تجویز نکال رکھی ہے (کیونکہ اول تو اللہ کا پیدا کیا ہوا دوسرے کے نام کیوں جائے، دوسرے پھر جتنا اللہ کا حصہ نکالا ہے اس میں سے بھی گھٹ جاوے، اور اگر غناء و احتیاج اس کا مبنیٰ ہے تو محتاج مان کر معبود سمجھنا اور زیادہ حماقت ہے)۔

معارف و مسائل
اس سے پہلی آیت میں مذکور تھا کہ اللہ جل شانہ، کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جن و بشر کی ہر قوم میں اپنے رسول اور اپنی ہدایات بھیجی ہیں، اور جب تک رسولوں کے ذریعہ ان کو پوری طرح متنبہ نہیں کردیا گیا اس وقت تک ان کے کفر و شرک اور معصیت و نافرمانی پر ان کو کبھی سزا نہیں دی۔
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ رسولوں اور آسمانی کتابوں کے تمام سلسلے کچھ اس لئے نہیں تھے کہ رب العالمین کو ہماری عبادت اور اطاعت کی حاجت تھی، یا اس کا کوئی کام ہماری اطاعت پر موقوف تھا، نہیں وہ بالکل بےنیاز اور غنی ہے، مگر اس کے کامل استغناء اور بےنیازی کے ساتھ اس میں ایک صفت رحمت بھی ہے اور سارے عالم کے وجود میں لانے پھر باقی رکھنے اور ان کی ظاہری اور باطنی موجودہ اور آئندہ تمام ضرورتوں کو بےمانگے پورا کرنے کا سبب بھی صفت رحمت ہے، ورنہ بیچارہ انسان اپنی ضروریات کو خود پیدا کرنے کے قابل تو کیا ہوتا اس کو تو اپنی تمام ضروریات کے مانگنے کا بھی سلیقہ نہیں، خصوصاً نعمت و جود جو عطا کی گئی ہے اس کا تو بےمانگے ملنا بالکل ہی واضح ہے کہ کسی انسان نے کہیں اپنے پیدا ہونے کی دعا نہیں مانگی، اور نہ وجود سے پہلے دعا مانگنے کا کوئی تصور ہوسکتا ہے، اسی طرح انسان کی تخلیق جن اعضاء سے کی گئی ہے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤ ں، دل و دماغ کیا یہ چیزیں کسی انسان نے مانگی تھیں، یا کہیں اس کو مانگنے کا شعور و سلیقہ تھا ؟ کچھ نہیں بلکہ
مانبودیم و تقاضا ما نبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود
اللہ تعالیٰ سب سے بےنیاز ہے تخلیق کائنات صرف اس کی رحمت کا نتیجہ ہے
بہر حال اس آیت میں وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ کے الفاظ سے رب الارباب کی بےنیازی بیان کرنے کے ساتھ ذو الرَّحْمَةِ کا اضافہ کرکے یہ بتلا دیا کہ وہ اگرچہ تم سب سے بلکہ ساری کائنات سے بالکل مستغنی اور بےنیاز ہے، لیکن بےنیازی کے ساتھ وہ ذوالرحمة یعنی رحمت والا بھی ہے۔
کسی انسان کو اللہ نے بےنیاز نہیں بنایا اس میں بڑی حکمت ہے، انسان بےنیاز ہوجائے تو ظلم کرتا ہے
اور یہ اسی ذات کا کمال ہے ورنہ انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر وہ دوسروں سے بےنیاز اور مستغنی ہوجائے تو اس کو دوسروں کے نفع نقصان اور رنج و راحت کی کوئی پروا نہیں رہتی، بلکہ اسی حالت میں وہ دوسروں پر ظلم وجور کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے، قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ہے (آیت) ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی۔ یعنی انسان جب اپنے آپ کو بےنیاز اور مستغنی پاتا ہے تو وہ سرکشی اور طغیانی پر آمادہ ہوجاتا ہے، اسی لئے حق جل شانہ، نے انسان کو ایسی ضروریات میں جکڑ دیا ہے جو دوسروں کی امداد کے بغیر پوری ہی نہیں ہو سکتی، بڑے سے بڑا بادشاہ اور حاکم نوکروں چاکروں اور چپراسیوں کا محتاج ہے، بڑے سے بڑا مالدار اور مل آنر مزدوروں کا محتاج ہے، صبح کو جس طرح ایک مزدور اور رکشا چلانے والا کچھ پیسے حاصل کرکے محتاجی دور کرنے کے لئے تلاش روزگار میں نکلتا ہے ٹھیک اسی طرح بڑے مالدار جن کو اغنیاء کہا جاتا ہے وہ مزدور اور رکشا اور گاڑی، سواری کی تلاش میں نکلتے ہیں، قدرت نے اس کو محتاجی کی ایک زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے، کسی کا کسی پر احسان نہیں اور یہ نہ ہوتا تو نہ کوئی مالدار کسی کو ایک پیسہ دیتا اور نہ کوئی مزدور کسی کا ذرا سا بوجھ اٹھاتا، یہ تو صرف حق جل شانہ کی صفت کمال ہے کہ کامل استغناء اور بےنیازی کے باوجود و ذوالرحمة یعنی رحمت والا ہے، اس جگہ ذوالرحمة کے بجائے اگر رحمن یا رحیم کا لفظ لایا جاتا تب بھی مقصود کلام ادا ہوجاتا، لیکن غنی ہونے کے ساتھ صفت رحمت کے جوڑ کی خاص اہمیت ظاہر کرنے کے لئے عنوان ذو الرَّحْمَةِ کا اختیار فرمایا گیا کہ وہ غنی اور مکمل بےنیاز ہونے کے باوجود صفت رحمت بھی مکمل رکھتا ہے، اور یہی صفت رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا اصل سبب ہے۔
اس کے بعد یہ بھی بتلا دیا کہ جس طرح اس کی رحمت عام اور تام ہے اسی طرح اس کی قدرت ہر چیز اور ہر کام پر حاوی ہے، اگر وہ چاہے تو تم سب کو ایک آن میں فناء کرسکتا ہے، اور ساری مخلوق کے فنا کردینے سے بھی اس کے کارخانہ قدرت میں ادنیٰ سا فرق نہیں آتا، پھر اگر وہ چاہے تو موجودہ ساری کائنات کو فناء کر کے ان کی جگہ دوسری مخلوق اسی طرح اسی آن میں پیدا کرکے کھڑی کر دے، جس کی ایک نظیر انسان کے ہر دور میں اس کے سامنے رہتی ہے، کہ آج جو کروڑوں انسان زمین کے چپہ چپہ پر آباد اور زندگی کے تمام شعبوں کے مختلف کاروبار کو چلا رہے ہیں، اگر اب سے ایک سو سال پہلے کی طرف غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی یہ دنیا اسی طرح آباد تھی، اور سب کام چل رہے تھے، مگر موجودہ آباد کرنے والوں اور کام چلانے والوں میں سے کوئی نہ تھا، ایک دوسری قوم تھی جو آج زیر زمین ہے، اور جس کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، اور موجودہ دنیا اسی پہلی قوم کی نسل سے پیدا کی گئی ہے، ارشاد ہے(آیت)
اۭاِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِيْنَ
یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو تم سب کو لے جائیں، لے جانے سے مراد ایسا فنا کردینا ہے کہ نام و نشان تک گم ہوجائے، اور اسی لئے یہاں ہلاک کرنے یا مار دینے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ لے جانا ارشاد فرمایا، جس میں فناء محض اور بےنام و نشان کردینے کی طرف اشارہ ہے۔
Top