Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 88
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد
یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ ۔ اِلاَّ مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۔ (الشعرآء : 88، 89) (جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔ بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔ ) دعا کی تکمیل پروردگار کی طرف سے ہے پیشِ نظر دونوں آیات میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ انھیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا جز قرار دیا جائے۔ اور اس بات کا بھی کہ یہ دونوں آیات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکمیل و توضیح ہوں۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا پر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان آیات کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے کام کوئی چیز اگر آسکتی ہے تو وہ مال و اولاد نہیں بلکہ صرف قلب سلیم ہے۔ قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک و نفاق اور فسق و فجور کی ہر آلائش سے پاک ہو۔ اگر کوئی شخص ایسے قلب سلیم کی دولت سے بہرہ ور ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو اولاد بھی ایسے ہی قلب سلیم کی حامل دی ہے تو یہ یقینا اللہ تعالیٰ کے یہاں نافع ہوں گے۔ اسی طرح وہ مال جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں نہیں بلکہ دنیوی آلائشوں اور فسق و فجور کی اشاعت میں خرچ ہوتا ہے وہ بھی قیامت کے دن وبال تو بن سکتا ہے، کسی کام نہیں آسکتا۔ البتہ اگر یہ مال اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اس کی تبلیغ و دعوت اور خلق خدا کی خدمت میں صرف ہوا ہو تو یقینا یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جو قیامت کے دن کام آئے گا۔ ” آذر “ ایمان و عمل سے خالی نہایت دولت مند شخص کا نام ہے، جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے عظیم فرزند کا باپ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لیکن ایمان کی دولت سے محرومی کے باعث حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسا عظیم فرزند بھی اس کے کسی کام نہ آیا بلکہ دنیا ہی میں آپ ( علیہ السلام) نے اس کے لیے دعا مانگنا بھی چھوڑ دی۔ کیونکہ آپ ( علیہ السلام) کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے دین کی محبت پسری محبت پر غالب تھی۔ اسے دین کی محبت پر قربان کیا جاسکتا تھا لیکن دین کی محبت کو باپ کی محبت پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔
Top