Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 159
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ
وَمِنْ : سے (میں) قَوْمِ مُوْسٰٓي : قوم موسیٰ اُمَّةٌ : ایک گروہ يَّهْدُوْنَ : ہدایت دیتا ہے بِالْحَقِّ : حق کی وَبِهٖ : اور اس کے مطابق يَعْدِلُوْنَ : انصاف کرتے ہیں
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے ایک جماعت ایسی بھی تھی جو سچائی کا راستہ دکھاتی اور وہ اسی کے مطابق انصاف کرتی تھی۔
تشریح : آیت نمبر 159 تا 160 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب تمام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر صحرائے سینا سے گذر رہے تھے تاکہ بنی اسرائیل کو فلسطین میں آباد کردیں ۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی گنتی کرانے کے بعد ان کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کردیا۔ جیسا کہ آپ نے اس سے پہلے پڑھ لیا ہے کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) فلسطین سے مصر آئے ہیں اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کی تعداد ایک سو سے بھی کم تھی۔ روایات کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور سلطنت کے چھ سال کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور انہوں نے بی اسرائیل کی اصلاح و تربیت فرمائی اور فرعون کی طاقت سے ٹ کرلی اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی فرعون کے غرق ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم بنی اسرائیل کو مصر سے فلسطین کی طرف لے کر جارہے تھے اور صحرائے سینا کے اس علاقے سے گذر رہے تھے جہاں دور دور تک آبادی کا نام نشان تک نہ تھا، کھلا آسمان تھا، کھانے اور پینے کا کوئی انتظام نہ تھا، چونکہ بنی اسرائیل کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی اس لئے انتظامی لحاظ سے ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کر کے ان پر ایک ایک نگران مقرر کردیا گیا تاکہ ان کے دنیاوی امور کے ساتھ ان کی اخلاقی اصلاح بھی ہوتی جائے۔ جہاں ان میں وہ لوگ تھے جن کا کام ہی شرارتیں کرنا اور ہر برے راستے کو اختیار کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا ان ہی میں ایک جماعت ایسے نیک لوگوں کی بھی تھی جو حق و صداقت کے علم بردار اور زندگی کا اعتدال رکھنے والے تھے ایسے لوگوں پر اللہ کا خاص کرم تھا لیکن مزاج کے اعتبار سے جو لوگ نافرمانی کا راستہ اختیار کرنے والے تھے انہوں نے اللہ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا اور اس طرح ان پر چالیس سال تک کے لئے شہری زندگی اور اس کی راحتوں کو حرام کردیا گیا۔ صحرائے سینا کا وہ مقام جہاں ان کو چالیس سال تک کے لئے مارے مارے پھرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا اس کو میدان تیہ کہتے ہیں ۔ یہ دن بھر اس صحرائی زندگی سے نکلنے کے لئے راستے تلاش کرتے، تھک کر سوجاتے اور یہ سمجھتے کہ ہم اس راستے کے قریب پہنچ چکے ہیں جہاں سے اس میدان نکلنا آسان ہوگا لیکن جب وہ سو کر اٹھتے تو ہر صبح وہ ہیں ہوتے تھے جہاں سے چلے تھے اپنے نبی کے بغیر ان کو وہ راستہ تو نہ مل جسے وہ برسوں سے تلاش کر رہے تھے مگر جب بھی وہ اپنے نبی حضرت موسیٰ سے کسی نعمت کی فرمائش کرتے اللہ تعالیٰ اس کو پورا کردیتا تھا۔ ارشادہوا کہ موسیٰ اپنے عصا کو پتھر پر مار یئے موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مخصوص پتھر پر ماراتو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، کانے کو مانگا تو اللہ نے ان کو اسی صحرا میں من سلویٰ عطا فرمایا۔ کہنے لگے کہ ہم صحرا کی دھوپ سے جھلسنے لگے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو ان پر بادل کا سایہ ہوگیا، جہاں وہ جاتے بال ساتھ ساتھ سایہ کئے ہوئے ہوتا ۔ اگر غور کیا جائے تو انسان کی بنیادی ضروریات میں تین ہی چیزیں اہم ہیں کھانا ، پانی اور چھت اور تینوں چیزیں اللہ نے اسی صحرا میں عطا فرمانے کے بعد اس اصول کو بتا دیا کہ اللہ وسائل کا محتاج نہیں ہے وہ جب چاہے جہاں جیسے چاہے ہر چیز اپنے بندوں تک پہنچا دینے کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے ۔ اگر بنی اسرائیل کھانے پینے اور سایہ کے علاوہ اللہ سے ہدایت بھی مانگتے تو ان کو مل سکتی تھی لیکن انہوں نے جب بھی مانگا دنیا ہی کو مانگا اگر وہ آخرت کی کامیابی مانگل لیتے تو ارحم الرحمین ان کو دنیا و آخرت سب ہی کچھ دیدیتا۔ یہ انسان کی سب سے بڑی بھول ہے کہ وہ ہر وقت دنیا ہی مانگتا رہتا ہے۔ اگر وہ آخرت بھی مانگے تو اس کو آخرت اور اس کی ابدی راحتیں بھی نصیب ہوسکتی ہیں ۔ اسی لئے اہل ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب ہماری دنیا بھی اچھی کر دے اور ہماری آخرت بھی اچھی کردے اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچالیجئے گا “ آج ہماری دعائیں بھی دنیا مانگنے تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور ہر شخص کی دعا دنیا کی فلاح و بہود تک محدود ہو کر رہ گئی ہے لیکن اہل ایمان جب بھی اللہ سے مانگتے ہیں تو وہ سب سے پہلے آخرت کی کامیابی اور پھر دنیا کی الجھنوں سے نجات کی درخواست کرتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطا کرتا ہے ۔ بنی اسرائیل کی یہ بہت بڑی بد قسمتی تھی کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دنیا کی چیزیں مانگتے تھے اور ان کو آخرت کی کوئی فکر نہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس سال تک اس سزا کو بھگتنے کے بعد جب وہ شہری زندگی سے قریب ہوئے تو وہاں بھی اپنے مزاج کی خرابی کا اظہار کرنے لگے عاجزی کے بجائے تکبر اور توبہ کے بجائے دنیا طلبی کرنے ل کے۔ قرآن کریم قوموں کی زندگی کو آئینہ بنا کر پیش کرتا ہے اور اہل ایمان کو یہ سمجھاتا ہے کہ تم بھی اس آئینہ کو دیکھ لو اگر تمہیں ان جیسی شکل و صورت نظر آٗئے تو پھر تو بہ کرکے نبی مکرم ﷺ کا دامن تھام لو تاکہ تم بھی ان ہی مصیبتوں میں گرفتار نہ ہو جائو جس میں پچھلی قومیں مبتلا ہو کر اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر بیٹھی تھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم لوگوں پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتے بلکہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہر بان ہے ۔
Top