Baseerat-e-Quran - Al-Anfaal : 19
اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَكُمُ الْفَتْحُ١ۚ وَ اِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ١ۚ وَ لَنْ تُغْنِیَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَیْئًا وَّ لَوْ كَثُرَتْ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠
اِنْ : اگر تَسْتَفْتِحُوْا : تم فیصلہ چاہتے ہو فَقَدْ : تو البتہ جَآءَكُمُ : آگیا تمہارے پاس الْفَتْحُ : فیصلہ وَاِنْ : اور اگر تَنْتَهُوْا : تم باز آجاؤ فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاِنْ : اور اگر تَعُوْدُوْا : پھر کروگے نَعُدْ : ہم پھر کریں گے وَلَنْ : اور ہرگز نہ تُغْنِيَ : کام آئے گا عَنْكُمْ : تمہارے فِئَتُكُمْ : تمہارا جتھا شَيْئًا : کچھ وَّلَوْ : اور خواہ كَثُرَتْ : کثرت ہو وَاَنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو تمہارے پاس فیصلہ آگیا۔ اگر تم باز آگئے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم نے یہی کیا تو پھر ہم بھی یہی کریں گے ۔ اور تمہاری یہ کثرت تمہارے کام نہ آئے گی۔ بیشک اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے۔
آیات : 19 تا 24 لغات القرآن۔ تستفتحوا۔ تم فیصلہ چاہتے ہو۔ تنتھوا۔ تم رک جائو۔ تعودوا۔ تم پلٹ جائو گے۔ نعد۔ ہم پلٹ جائیں گے۔ لن تغنی۔ ہرگز فائدہ نہ دے گا۔ فئۃ۔ جماعت۔ گروہ۔ کثرت۔ بہت ہے۔ سمعنا۔ ہم نے سن لیا۔ شرا الدواب۔ جان داروں میں بدترین۔ الصم۔ بہرے۔ البکم۔ گونگے۔ اسمع۔ وہ سنوا دیتا۔ استجیبوا۔ تم حکم مانو۔ دعاکم۔ اس نے تمہیں بلایا۔ یحییکم۔ وہ تمہیں زندگی دیتا ہے۔ یحول۔ (حول) ۔ وہ آڑ بن جاتا ہے۔ بیچ میں آجاتا ہے۔ المراء۔ مرد۔ تشریح : ان آیات میں چند بہت ہی بناندی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ (1) جب مکہ کے کفار مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے اس وقت لشکر کفار کے سرداروں نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر اللہ سے جو دعا کی تھی وہ یہ تھی کہ : ” اے اللہ دونوں لشکروں میں جو اعلیٰ و افضل ہو، دونوں فریقوں میں جو زیادہ ہدایت پر ہو، دونوں جماعتوں میں سے جو زیادہ کریم اور شریف ہو اور دونوں میں سے جو دین افضل ہو اس کو فتح عطا فرمایا “ ان جاہلوں اور احمقوں کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہر بات میں وہی اعلیٰ وارفع ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ کے جان نثار صحابہ ؓ حق پر نہیں ہیں (نعوذ باللہ) اسی لئے انہوں نے اس کوش گمانی میں ایسی دعا کی جو خودان کے حق میں الٹ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” تم تو حق کی فتح چاہتے تھے تو لو تمہارے سامنے حق کی فتح آگئی ہے اگر تم اب بھی باز آجائو تو بہتر ہے تو بہ کے دروازے ابھی کھلے ہوئے ہیں اگر تم اپنی پرانی روش سے باز آجائو تو اس دنیا اور آخرت میں فائدہ ہی فائدہ ہے لیکن اگر تم نے وہی حرکتیں جاری رکھیں تو ہم بھی سابقہ نتائج دکھا دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی متوجہ کردیا کہ اگر تم دوبارہ لائو لشکر لے کر آئو گے تو تمہاری کثرت تمہارے کام نہ آسکے گی اور تم منہ کی کھا کر واپس لوٹو گے۔ یہ قرآن کریم کی ایک پیشین گوئی بھی تھی کہ یہ کفار اپنی روش سے باز نہ آئیں گے اور اپنی طاقت کو اپنی کثرت کے گھمنڈ می آزماتے رہیں گے لیکن اللہ نے اس طرف اشارہ کردیا کہ اللہ اور اس کی ساری کائنات کی قوتیں اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ (2) ۔ ان آیات میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ : جب تم نے اللہ کے ایک معبود ہونے اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا زبانی اور قلبی اقرار کرلیا ہے تو آگے بڑھو اور اپنے عمل کو اس کی شہادت بناد و۔ لیکن تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے زبانی اقرار تو کرلیا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو انہوں نے بھاگ نکلنے کے ہزار راستے تلاش کر لئے، اور بہرے ، گونگے، بےعقل جانوروں کی طرح ہوگئے۔ فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے گی تو ہر کامیابی نصبع ہوگی لیکن اگر بہرے گونگے بن کر زندگی گزاری گئی تو بدنصیبی ہی مقدر بن سکے گی۔ تمام جان داروں میں واحد ذمہ دار اگر ہے تو وہ انسان ہے وہی ” خلیفۃ اللہ فی الارض “ یعنی زمین میں انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اگر اس نے اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کیا۔ اس نے ایک کان سے سن اور دوسرے کان سے اڑا دیا تو یہ اس کی شان اور رتبہ کے خلاف بات ہوگی جو زبان سے دوسروں کو نہ سنائے جو اللہ کی آیات میں غوروفکر نہ کرے نہ سمجھے نہ سمجھائے تو کیا وہ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین نہیں ہوگا ؟ دین اسلام کو سمجھنے کے لئے سننا اور پڑھنا یعنی سمع و بصرکا استعمال ضروری ہے علم کی تعریف قرآن کریم میں بار بار آئی ہے۔ پڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید کو نازل کیا ہے جس کی ابتداء ہی ” اقراء بسم ربک “ ( اپنے رب کے نام سے پڑھو) سے ہوئی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ساتھ اپنے عظیم رسول کو بھی بھیجا ہے جو ان آیتوں کو پڑھ کر سناتے ہیں جو اس کتاب کی تعلیم دیتے اور اس کی حکمتوں کو بیان کرتے ہیں اور دلوں کے زنگ کو مانجھ کو صاف کرتے ہیں فرمایا کہ جو شخص ان کا حکم سنے گا، انکا کہ ان مانے گا ان کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ ہی کی اطاعت و فرماں برداری کرے گا۔ سننے والے چار طرح کے ہوتے ہیں (1) وہ جو کانوں سے سنتے ہیں مگر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے نہ فہم نہ عقیدہ نہ عمل (2) وہ جو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں مگر نہ عقیدہ نہ عمل (3) وہ جو سنتے ہیں سمجھتے ہیں اور عقیدہ بھی رکھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ (4) وہ جو سنتے ہیں سمجھتے ہیں۔ ایمان لاتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں سمعنا واطعنا ان کا بنیادی عقیدہ ہوتا ہے۔ پہلی قسم والوں کو ان آیات میں ” شر الدواب “ (جان داروں میں بدترین) کہا گیا ہے دوسری قسم والے کفار اور منافقین ہیں تیسری گناہ گار مسلمانوں کی ہے جو حق سے قریب تر ہیں چوتھی قسم ان مومنوں کی ہے جو اللہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنیو الے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں اور جو کچھ وہ سنتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا وآخرت میں کامیاب و بامراد ہونے والے ہیں۔ ایمان والوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب تم نے دیکھ لیا کہ فتح و نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے اور زندگی کے ہر میدان میں وہ اہل ا ایمان کی مدد کرتا ہے تا لازم ہے کہ تم اپنے اپنے ایمان کو اور پختہ کرلو اور جب کبھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم سنو تو اس پر فورا عمل کرو ہچکچاہٹ بہانہ اور پیچھے ہٹنا یہ سب باتیں ایمان کے خلاف ہیں۔ فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا کہ جب ان کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی گئی تو وہ بہرے گونگے بن کر رہ گئے۔ جنگ بدر میں بعض منافقین بہانے بنا کر پیچھے ہٹ گئے تھے میدان کارزار تک کوئی نہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کو وہاں تک جانے کی توفیق ہی نہیں دی گئی تھی اگر وہ وہاں جاتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگتے، جاسوسی کرتے یا دشمنوں سے جا کر مل جاتے اگر ان میں بھلائی کا کچھ مادہ ہوتا تو اللہ انہیں سننے اور عمل کرنے کی توفیق ضرور دیتا یہ اہل ایمان کے لئے اچھا ہی ہوا کہ صرف سچائی پر قائم لوگوں نے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا اور منافقین اس میدان کا رزار تک نہ پہنچ سکے۔ (3) آخر میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہیں ایک ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری زندگی ہے تو لپک کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرو۔ فرمایا گیا کہ جہاد ہی وہ چیز ہے جس میں ملت کی زندگی ہے۔ اور ملت ہی کی زندگی سے افراد کی زندگی وابستہ ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ کون جہاد میں شریک ہوا اور کون بہانے بناتا رہا۔ وہ ہر انسان کے دل میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کی ایک ایک نبض کو پہنچانتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ اس دنیا سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن ایک دن تم سب کو اس کے پاس جمع ہر کر اپنا اپنا حساب پیش کرنا ہے۔
Top