Bayan-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 21
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
وَفِيْٓ : اور میں اَنْفُسِكُمْ ۭ : تمہاری ذات اَفَلَا : تو کیا نہیں تُبْصِرُوْنَ : تم دیکھتے
اور تمہاری اپنی جانوں میں بھی (نشانیاں ہیں)۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟
آیت 21{ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”اور تمہاری اپنی جانوں میں بھی نشانیاں ہیں۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ یعنی انسان کے جسم اور جسم کے ایک ایک نظام کے اندر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرے۔ مرزا بیدل ؔ نے اس خوبصورت شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎ ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر ِسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدئہ درِ دل کشا بہ چمن درآ ! اے انسان ! بڑے ستم کی بات ہے اگر تجھے تیری خواہش نفس کسی باغ کی سیر کے لیے کھینچ کرلے جاتی ہے ‘ جبکہ خود تیری اپنی چمک دمک کسی پھول سے کم نہیں ہے۔ کبھی اپنے دل کا دروازہ کھول کر اس چمن کی سیر کے لیے بھی آئو جو تمہاری روح کے اندر اللہ تعالیٰ نے مہکا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی تخلیق اور اپنے وجود پر غور کرے اور اس اعتبار سے اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانے۔ بقول مرزا بیدلؔ : ؎ ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش ِآدمی اے بہارِ نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! اس شعر کی تشریح سورة النحل کی آیت 40 کے تحت بیان ہوئی ہے۔
Top