Bayan-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونس (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجیئے جب وہ (اپنی قوم سے) خفا ہو کر چل دیئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم ان پر (اس چلے جانے میں) کوئی داروگیر نہ کریں گے پس انہوں نے (ف 4) اندھیروں میں پکارا آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ (سب نقائص) سے پاک ہیں میں بیشک قصور وار ہوں۔ (ف 5)
4۔ پس چونکہ اس افرار کو انہوں نے اجتہاد جائز سمجھا، اس لئے انتظار نص اور وحی کا نہ کیا، لیکن چونکہ امید وحی کا انتظار انبیاء کے لئے مناسب ہے اس ترک مناسب پر ان کو یہ ابتلا پیش آیا، راہ میں ان کو کوئی دریا ملا، اور وہاں کشتی میں سوار ہوئے کشتی چلتے چلتے رک گئی، یونس (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ میرا یہ فرار بلا اذن ناپسند ہوا، اس کی وجہ سے کشتی رکی، کشتی والوں سے فرمایا کہ مجھ کو دریا میں ڈال دو ، وہ راضی نہ ہوئے، غرض قرعہ پر اتفاق ہوا تب بھی ان ہی کا نام نکلا، آخر ان کو دریا میں ڈال دیا اور خدا کے حکم سے ان کو ایک مچھلی نگل گئی۔ 5۔ ایک اندھیرا شکم ماہی کا دوسرا قعر دریا کا، پھر دونوں گہرے اندہیرے بجائے بہت سے اندھیروں کے یا تیسرا اندھیرا رات کا غرض ان تاریکیوں میں دعا کی۔
Top