Dure-Mansoor - An-Nahl : 49
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : سے دَآبَّةٍ : جاندار وَّالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَهُمْ : اور وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
اور عاجز ہیں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے حیوانات اور فرشتے یہ سب اللہ کے حکم کے فرمانبردار ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے
1:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وللہ یسجد مافی السموت وما فی الارض من دآبۃ “ سے مراد ہے کہ کوئی چیز نہیں چھوٹتی اس کی مخلوق میں سے مگر اس کی عبادت کرتی ہے خوشی سے یا نا خوشی سے۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ آسمان کی مخلوق خوشی سے سجدہ کرتی ہے اور زمین کی مخلوق بعض خوشی سے اور بعض مجبورا سجدہ کرتی ہے۔ 3:۔ خطیب نے تاریخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یخافون ربہم “ یعنی وہ اللہ کے جلال سے ڈرتے ہیں۔ 4: ابن ابی شیبہ اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے گذرے اور وہ اپنی دو انگلیوں کے ساتھ دعا کررہے تھے آپ نے اس سے فرمایا اے سعد احد احد (یعنی اللہ ایک ہے ایک ہے) 5:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن سرین (رح) سے روایت کیا کہ جب وہ لوگ کسی انسان کو دیکھتے تھے کہ وہ اپنی دو انگلیوں سے دعا مانگ رہا ہے تو اس کی ایک انگلی پر ضرب لگاتے اور کہتے (آیت) ” انما ھو الہ واحد ‘ (یعنی بلاشبہ وہ ایک ہی معبود ہے) 6:۔ ابن ابی شیبہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں کہ اس طرح دعا کی جائے اور ایک ہی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ 7:۔ ابن ابی شبیہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک انگلی سے دعا کرنا اخلاص ہے۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ دعا اس طرح مانگو پھر ایک انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا (اور فرمایا) کہ وہ کنڈی دار ڈانڈا ہے شیطان کے لئے۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اخلاص اس طرح سے ہے اور اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا اور دعا اس طرح سے ہے یعنی اپنی ہتھیلیوں کے اندورنی حصے کے ساتھ اور استخارہ اس طرح سے ہے اور اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور ان کی پشت کو پھیر دیا اپنے چہرہ پر۔ 10:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولہ الدین واصبا “ میں (آیت) ” الدین “ سے مراد ہے اخلاص اور ” واصبا “ سے مراد ہے ہمیشہ۔ 11:۔ ابن ابی حاتم نے ابوصالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولہ الدین واصبا “ سے مراد ہے لا الہ الاا اللہ۔ 12:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولہ الدین واصبا “ سے مراد ہے ہمیشہ۔ اللہ کا دین ہمیشہ باقی رہے گا : 13:۔ فریابی اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولہ الدین واصبا “ سے مراد ہے واجب ہونا۔ 14:۔ ابن الانباری نے الوقف والا ابتداء میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ولہ الدین واصبا “ کے بارے میں بتائیے کہ ” واصب ‘ کیا چیز ہے ؟ فرمایا اس کا معنی ہے ہمیشہ اور اس بارے میں امیہ بن ابی صلت نے فرمایا : ولہ الدین واصبا ولہ الملک وحمدلہ علی کل حال : ترجمہ : اور اس کے لئے ہمیشہ تابعداری ہے اور اس کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے ہر حال میں حمد ہے۔ 15:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ دین ہمیشہ کا ہے لوگ مشغول ہوگئے اور ان کے اور بہت لوگوں کے درمیان ان کی شہوتیں حائل ہوگئیں پس اس پر عمل کرنے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا سوائے اس کے جس نے افضل پہچان لیا اور اچھے انجام کی امید رکھتا ہے۔ 16:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، اور ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فالیہ تجئرون “ یعنی وہ عاجزی اور زاری کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔ 17:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فالیہ تجئرون “ یعنی وہ دعا میں روتے ہیں۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ثم کشف الضر عنکم “ (الآیہ) سے مراد ہے کہ ساری مخلوق اقرار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا رب ہے پھر اس کے بعد شرک کرتے ہیں۔ 19:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فتمتعوا فسوف تعلمون “ سے وعید مراد ہے۔ 20:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویجعلون لما لا یعلمون نصیبا مما رزقنہم “ یعنی وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایا اور وہی ان کو نقصان دیتا ہے اور وہی ان کو نفع دیتا ہے پھر ان چیزوں کے لئے جو ان کو نہ نقصان دیتی ہیں اور نہ ان کو نفع دیتی ہیں حصہ مقرر کرتے ہیں ان چیزوں میں سے جو ہم نے انکو رزق دیا ہے۔ 21:۔ عبدابن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویجعلون لما لا یعلمون “ سے مراد عرب کے مشرکین ہیں جنہوں نے اپنے بتوں اور اپنے شیطانوں کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں ان چیزوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو رزق دیا ہے اور اپنے مالوں میں سے کچھ حصہ علیحدہ کرتے ہیں اپنے بتوں کے اور شیطانوں کے لئے۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویجعلون لما لا یعلمون نصیبا مما رزقنہم “ سے ان کا قول مراد ہے جو وہ کہتے ہیں یہ (حصہ) اللہ کے لئے ہے اپنے گمان سے اور یہ (حصہ) ہمارے شریکوں کے لئے ہے۔
Top