Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 49
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : سے دَآبَّةٍ : جاندار وَّالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَهُمْ : اور وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
اور اللہ ہی کی مطیع ہیں،70۔ جتنی چلنے والی چیزیں آسمان میں ہیں اور جتنی زمین میں ہیں اور فرشتے بھی اور وہ (اپنی) بڑائی نہیں کرتے،71۔
70۔ (تکوینی طور پر) (آیت) ” یسجدا۔ سجودیہاں اپنے اصل مفہوم، انقیاد واستلام کے معنی میں ہے۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ مخلوق کو چھوٹی یا بڑٰ کوئی سی بھی ہو اور عالم ارواح یا عالم اجسام میں کہیں بھی ہو، سب کی سب عظمت الہی کی مسخر ومنقاد ہیں۔ اے کل ماسوی اللہ سواء کان من عالم الارواح او من عالم الاجسام فھو منقاد خاضع الجلال اللہ تعالیٰ وکبریاۂ (کبیر) 71۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مطیع ومنقاد جب تکوینی طور پر، زمین و آسمان کی ساری ہی زندہ ومتحرک مخلوق ہے، اور سب سے بڑھ کر خود فرشتے جو ایک لحاظ سے اعظم مخلوقات ہیں اور مشرکوں نے انہی کو دیوی دیوتا قرار دیا اور خدا کا مدمقابل سمجھا ہے، وہ تو خاص طور پر مطیع ومنقاد ہیں، تو ان مشرکوں بیچاروں کی بساط ہی کیا ہے، (آیت) ” یستکبرون “۔ کے باب استفعال سے بعض نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ ملائکہ کے دل میں اپنی بڑائی کی طلب تک نہیں پیدا ہوتی، چہ جائیکہ خود بڑائی کرنے لگیں۔ لایطلبون ذلک فضلا عن فعلہ والاتصاف بہ (روح) (آیت) ” من دآبۃ “۔ دابۃ کے معنی یہاں جاندار کے بھی کئے گئے ہیں، اور متحرک کے بھی۔ اور سجدۂ انقیاد کے ایک سرے پر دابۃ اور دوسرے سرے پر ملائکہ کو لاکر گویا یہ بتادیا کہ ادنی سے لے کر اعلی تک ہر ذی حیات زنجیر انقیاد میں یکساں جکڑا ہوا ہے۔ بین بھذا الایۃ ان الحیوانات باسرھا منقادۃ للہ تعالیٰ لان اخسھا الدواب واشرفھا المآئکۃ (کبیر)
Top