Dure-Mansoor - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب یہ لوگ ان سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب تنہائیوں میں اپنے شیطانوں کے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق بنانے والے ہیں
(1) امام الواحدی اور ثعلبی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس طرح سے کہ یہ لوگ ایک دن باہر نکلے تو رسول اللہ ﷺ سے اصحاب کی ایک جماعت سے ان کی ملاقات ہوگئی تو عبد اللہ بن ابی کہنے لگا دیکھو ان بیوقوفوں کو تم سے کس طرح دور کرتا ہوں۔ پھر جب یہ صحابہ کی جماعت سے ہو کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس گیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا اسے صدیق ! مرحبا بنی تمیم کے سردار اور شیخ الاسلام اور رسول اللہ ﷺ کے غار میں دوسرے اور اپنی جان اور اپنے مال کو رسول اللہ ﷺ کے لیے خرچ کرنے والے۔ پھر عمر ؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا مرحبا عدی بن کعب کے سردار، الفاروق اور اللہ کے دین میں قوی اپنی جان و مال کو رسول اللہ ﷺ کے لیے خرچ کرنے والے۔ پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا مرحبا رسول اللہ ﷺ کے چچا کے بیٹے اور ان کے داماد رسول اللہ ﷺ کے سوا بنو ہاشم کے سردار پھر جب صحابہ کرام جدا ہوگئے۔ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین۔ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تم نے مجھے دیکھا میں نے کس طرح کیا ؟ جب تم ان کو دیکھو تو اس طرح کرو جیسے میں نے کیا۔ ان کی اچھی تعریف کریں۔ مسلمان نبی اکرم ﷺ کی طرف واپس آئے اور ان کو اس ساری گفتگو کے بارے میں خبر دی۔ (اس پر یہ آیت نازل ہوئی) ۔ (2) حضرت امام ابن جریر اور ابن حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت لفظ آیت ” واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا “ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے یہود میں سے کچھ لوگ جب نبی اکرم ﷺ کے اصحاب کو یا ان میں سے بعض کو ملتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم تمہارے دین پر ہیں لفظ آیت ” واذا خلوا الی شیطینھم “ اور جب شیطانوں (جو) ان کے بھائی ہیں ان سے ملتے لفظ آیت ” قالوا انا معکم “ (تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں) اس دین پر جس پر تم ہو۔ لفظ آیت ” انما نحن مستھزء ون “ یعنی محمد ﷺ کے اصحاب کے ساتھ ہم مذاق کرنے والے ہیں ” اللہ یستھزی بھم “ اللہ تعالیٰ ان سے انتقام لینے کے لئے ان سے مذاق کرتا ہے۔ ” ویمدھم فی طغیانھم “ فرمایا تاکہ وہ اپنے کفر میں (بھٹکتے ہیں) ” یعمھون “ یعنی وہ ڈانو اڈول ہیں۔ منافقین کی عادت (3) امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا “ اس آیت میں اہل کتاب کے منافقین کا ذکر فرمایا۔ اور ان کے استہزاء کا ذکر فرمایا اور وہ لفظ آیت ” واذا خلوا الی شیطینھم، قالوا انا معکم “ جب اپنے ہم مسلکوں سے خلوت میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں (یعنی تمہارے دین پر ہیں) لفظ آیت ” انما نحن مستھزء ون “ یعنی ہم محمد ﷺ کے اصحاب سے مذاق کرتے ہیں۔ ” اللہ یستھزی بھم “ (اللہ تعالیٰ ان کو اس مذاق کی سزا دیں گے) آخرت میں ان کے لیے جنت میں سے جہنم کا دروازہ کھولا جائے گا۔ پھر ان سے کہا جائے گا آجاؤ وہ لوگ آگے بڑھیں گے تو جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے۔ اور مؤمنین عروسی پلنگوں پر بیٹھے ہوں گے۔ ان منافقین کی طرف دیکھ رہے ہوں گے جب وہ دروازہ پر پہنچیں گے تو دروازے ان سے بند کر دئیے جائیں گے۔ یہ دیکھ کر مؤمنین ان کی اس رسوائی کو دیکھ کر ہنسیں گے یہ قول ہے اللہ تعالیٰ کا لفظ آیت ” اللہ یستھزی بھم “ یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان سے مذاق فرمائیں گے۔ اور مؤمن ان منافقوں سے ہنسیں گے جب ان کے آگے دروازے بند کر دئیے جائیں گے یہی مطلب ہے (اللہ تعالیٰ کا) لفظ آیت ” فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون “ (المصفقین) (4) امام ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا “ ہم تمہارے ساتھ اللہ کے رسول پر ایمان لائے لیکن وہ خاص تمہاری طرف بھیجا گیا ہے لفظ آیت ” واذا خلوا الی شیطینھم “ اور جب یہود سے ملتے ہیں تو جو انہیں جھٹلانے کا حکم دیتے ہیں۔ لفظ آیت ” قالوا انا معکم “ تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اس دین پر جس پر تم ہو۔ ” انما نحن مستھزء ون “ یعنی اس قوم (ایمان والوں) کا مذاق کرتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ کھیل بناتے ہیں۔ (5) ابن الانباری نے الیمانی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یوں پڑھا لفظ آیت ” واذا لقوا الذین امنوا “۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے ابو مالک سے روایت کیا ہے کہ ” واذا خلوا “ سے مراد ہے مضوا یعنی وہ جب گزرتے ہیں۔ (7) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا خلوا الی شیطینھم “ سے مراد ہے کفر میں اپنے سرداروں سے جب تنہائی میں ملتے ہیں۔ (8) حضرت عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا خلوا الی شیطینھم “ سے مراد ہے منافقین اور مشرکین میں سے ان کے ساتھی۔ (9) حضرت عبد بن حمید اور جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا خلوا الی شیطینھم “ سے مراد ہیں اپنے بھائی مشرکین میں اور اپنے سرداروں میں ان کی قیادت کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ ” معکم، انما نحن مستھزء ون “ کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہم اس قوم (ایمان والوں) سے مذاق یعنی استہزاء کرتے ہیں۔ اہل جہنم سے استہزاء کا ذکر (10) امام ابن لمنذر نے ابو صالح سے لفظ آیت ” اللہ یستھزی بھم “ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے اہل نار سے کہا جائے گا اور وہ آگ میں ہوں گے نکل جاؤ اور ان کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جائیں گے جب اس کو دیکھیں گے کہ دروازے کھول لئے گئے تو دوڑ کر آئیں گے ارادہ کریں گے نکلنے کا۔ اور ایمان والے اپنے تختوں پر پیٹھ کر ان کی طرف دیکھ رہے ہوں گے جب دروازے پر پہنچیں گے تو اس سے آگے بند کر دئیے جائیں گے اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا ” اللہ یستھزی بھم “ اور ان پر ایمان والے ہنسیں گے جب ان کے آگے دروازے بند کر دئیے جائیں گے اور یہی مطلب اس قول کا بھی ہے۔ لفظ آیت ” فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون “۔ (المطففین) (11) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویمدھم “ سے مراد ہے ” یملی لہم “ یعنی ڈھیل دیں گے ان کو) ” فی طغیانھم یعمھون “ یعنی کفر میں سرکشی کرتے ہیں۔ (12) امام ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” یعمھون “ کا معنی ہے سرکشی کرنا۔ (13) الطستی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافر بن ازرق نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” یعمھون “ سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے کھیلنا اور بھٹکنا عرض کیا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں کیا تو نے شاعر کا قول نہیں سنا : ارانی قد عمھت وشاب رأسی وھذا اللعب شین بالکبیر ترجمہ : میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں کھیل رہا ہوں اس حال میں کہ میرے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں۔ اور اس وقت کا کھیل بزرگ آدمی کے لئے عیب ہے۔ (14) امام الفریابی، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، جریر، ابن المنذر نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ ” ویمدھم “ کا معنی ہے وہ ان میں اضافہ کرتا ہے لفظ آیت ” فی طغیانھم یعمھون “ تاکہ وہ گمراہی میں بھٹکتے رہیں۔
Top