Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
جب یہ لوگ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو دعوت حق قبول کرچکے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان لائے لیکن جب اپنے سرغنوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارا (اظہار ایمان تو) مسلمانوں سے (ایک قسم کا) تمسخر ہے
منافقین کا اظہار ایمان : 30: ” اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے “ یہ بات منافقین دراصل ذی اثر مسلمانوں کی دلجوئی اور خوشنودی کے لئے کہتے۔ ان لوگوں کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ غریب عوام مسلمانوں کے مقابلے میں تواکڑتے ، اتراتے رہتے لیکن مسلمانوں میں جو لوگ صاحب ثروت ، صاحب اثر و اقتدار ہوتے ان کے سامنے فوراً گھٹنے ٹیک جاتے اور اظہار ایمان کا بار بار اقرار کرتے۔ بات شروع کرتے ہی ایسا انداز اختیار کرتے کہ وہ لوگ سمجھیں کہ یہ لوگ دین اسلام کے گویا ستون ہیں ؟ اس طرح کی حرکات سے وہ دوہرا فائدہ اٹھاتے۔ ایک یہ کہ صاحب اثر لوگ ان کو اپنا ہمدرد اور بہی خواہ سمجھیں اور دوسرا فائدہ یہ کہ اس طرح وہ مسلمانوں کے خاص رازوں سے واقف ہوں تاکہ وقت آنے پر ان کو گزند پہنچا سکیں۔ گویا یہ ” ایک پنتھ دو کاج “ کی مثال پر عمل کرتے۔ منافقین کی خاص مجلسیں : 31: منافقین کا دعویٰ اسلام تو جو کچھ تھا اس کا بیان تو ہو ہی رہا ہے۔ ایک عادت ان کی یہ بھی تھی راتوں کو سب خاص جگہوں پر اکھٹے ہوتے رہتے اور ان کے یہ اجتماعات ان کے خاص خاص سرغنوں کے ہاں ہوتے تھے۔ انہیں سرغنوں کو قرآن کریم کی زبان میں ” شیاطین “ کہا گیا ہے۔ شیطان کا لفظ عربی زبان میں بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ہر سرکش اور بھڑکانے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ انسان ، حیوان ، جن ، حشرات الارض ، ڈنگر ڈھور ، کیڑے مکوڑے اور مکھی مچھر تک پر بولا جاتا ہے۔ یہاں شیاطین سے مراد رؤسا یہود و منافقین لئے گئے ہیں جو اپنی سرکشی اور طغیان کے لحاظ سے خود ہی شیطان بنے ہوتے تھے نیز ان کے کاہن و پروہت یعنی مذہبی پیشوا جن کے یہ لوگ بہت معتقد تھے زیر نظر آیت میں : وَ اِذَا خَلَوْا : کا مطلب تنہائی کی ملاقات ہے یعنی جس مجلس میں کوئی مسلمان شریک نہ ہوتا تنہا ایک ہی مرض کے سارے مریض اکھٹے ہوجاتے۔ منافقین کا اقرار ِجرم : 32: ذرا غور کریں کہ ان منافقین نے کس طرح اقرار جرم کیا ہے مثل ہے کہ جھوٹ بولنے والے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ اپنے سرغنوں اور سرداروں کے پاس جب حاضر ہوتے ہیں تو یوں اقرار کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ تو محض ظاہرداری کے طور پر ہیں اور مصلحتاً اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے ہیں ورنہ حقیقتاً تو ہم تمہارے ہم عقیدہ و ہم مذہب ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں سے ملاقات کر کے ایمان کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا : ” اٰمَنَّا “ یعنی ہم ایمان لائے ہیں۔ اب اپنے سرغنوں کی مجلسوں میں ان کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دونوں دعوے ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں اور ان کا یہی کردار ان کو منافقین قرار دے رہا ہے۔ اندازہ کریں ایسا کر کے وہ اسلام کے ساتھ تمسخر کر رہے ہیں یا خود ان کی اپنی ذات کے ساتھ تمسخر ہو رہا ہے کتنی سیدھی سادھی بات ہے جس کو سمجھنے سے وہ عاری ہیں یہ لوگ خود اپنی زبان سے اس امر کا اقرار کر رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجالس میں صرف استہزاء و تمسخر کی غرض سے جاتے ہیں۔ ورنہ دراصل ان کی تلاش و جستجوئے حق نہیں ہوتی لیکن حقیقت میں وہ اپنے ہی ساتھ ہنسی کر رہے ہیں اور اپنے نفسوں کی صلاحیت کو فراموش کر رہے ہیں وہ دونوں جگہ عزت کے آرزومند ہیں مگر جلد ہی ان کی حقیقت مستورہ بےنقاب ہوجائے گی اور پھر چاروں طرف سے ذلت و رسوائی ہی ان کو نصیب ہوگی یہاں تک منافقین کی چند اصولی غلط کاریاں صاف کردی گئیں جو درج ذیل ہیں : ! : ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف شدید ہوتا ہے۔ " : خدع و فریب ان کی عادت ہے۔ #: جاہ طلبی ان کی غایت الغایات ہے۔ $: مسلمانوں کی نسبت ان کو پورا پورا یقین ہے کہ قرآن کریم کے پابند رہ کر یہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ %: فرزندان اسلام کو غیروں کا غلام بنانے کی کوشش وسعی کرتے ہیں۔ ^: فساد پھیلانے کی فکر میں رہتے ہیں اور اس پر طرح یہ کہ افساد کا نام اصلاح رکھتے ہیں۔ : مسلمانوں کو ناعاقبت اندیش اور کوتاہ بین خیال کرتے ہیں۔ : جانی و مالی قربانی سے گریز کرتے ہیں۔ ( : دوغلا پن ان کی گھٹی میں پڑا ہے ، گھڑی تولہ اور گھڑی ماشہ ان کی سرشت میں داخل اور راسخ ہوچکا ہے۔ ) : تعلیم الٰہی کے ساتھ تمسخر و استہزاء کرتے ہیں اور ” دروغ گورا حافظہ نباشد “ کے مصداق ہیں۔ ان علامات کو آپ ذہن نشین کرلیں اور اس وقت اپنے حکمرانوں کا تجزیہ کر کے دیکھیں گے تو ان شاء اللہ ان کی منافقت واضح ہوجائے گی۔
Top