Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب ملاقات کرتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب تنہا ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ہنسی کرتے ہیں (یعنی مسلمانوں سے)
ساتویں آیت میں منافقین کے نفاق اور دو رخی پالیسی کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب مسلمانوں سے ملتے تو کہتے تھے کہ ہم مومن مسلمان ہوگئے اور جب اپنی قوم کے کافر لوگوں سے ملتے جو کہتے تھے کہ ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں اور تمہاری قوم کے فرد ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ تو محض تمسخر و استہزاء کے لئے یعنی ان کو بیوقوف بنانے کے لئے ملتے ہیں
(2) ایمان و کفر کی حقیقت
آیات مذکورہ میں غور کرنے سے ایمان واسلام کی پوری حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور اس کے بالمقابل کفر کی بھی کیونکہ ان آیات میں منافقین کی طرف سے ایمان کا دعوٰی اٰمَنَّابِاللہ میں اور قرآن کریم کی طرف سے ان کے اس دعوے کا غلط ہونا وَمَا ھُمْ بِمُؤ ْمِنِيْنَ میں ذکر کیا گیا ہے یہاں چند باتیں غور طلب ہیں ؛
اول یہ کہ جن منافقین کا حال قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے وہ اصل میں یہودی تھے اور اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان لانا یہود کے مذہب میں بھی ثابت اور مسلم ہے اور جو چیز ان کے عقیدہ میں نہیں تھی یعنی رسول اللہ ﷺ کی رسالت ونبوت کو ماننا اور آپ پر ایمان لانا اس کو انہوں نے اپنے بیان میں ذکر نہیں کیا بلکہ صرف دو چیزیں ذکر کیں، ایمان باللہ، ایمان بالیوم الآخر، جس میں ان کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا پھر قرآن کریم میں ان کو جھوٹا قرار دینا اور ان کے ایمان کا انکار کرنا کس بنا پر ہے ؟ بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی من مانی صورتوں میں خدا تعالیٰ یا آخرت کا اقرار کرلینا ایمان نہیں یوں تو مشرکین بھی کسی نہ کسی انداز سے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور سب سے بڑا قادر مطلق مانتے ہیں، اور مشرکین ہندوستان تو پر لو کا نام دے کر قیامت کا ایک نمونہ بھی تسلیم کرتے ہیں مگر قرآن کی نظر میں یہ ایمان نہیں بلکہ وہ ایمان معتبر ہے جو اس کی بتلائی ہوئی تمام صفات کے ساتھ ہو، اور آخرت پر ایمان وہ معتبر ہے جو قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے بتلائے ہوئے حالات داد صاف کے ساتھ ہو،
ظاہر ہے کہ یہود اس معنیٰ کے اعتبار سے نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر کیونکہ ایک طرف تو وہ حضرت عزیز ؑ کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور آخرت کے معاملہ میں بھی یہ غلط اعتقاد رکھتے ہیں کہ انبیاء کی اولاد کچھ بھی کرتی رہے وہ بہرحال اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے ان سے آخرت میں کوئی باز پرس نہ ہوگی، اور کچھ عذاب ہوا بھی تو بہت معمولی ہوگا اس لئے قرآنی اصطلاح کے اعتبار سے ان کا یہ کہنا کہ ہم اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائے ہیں غلط اور جھوٹ ہوا۔
(3) کفر و ایمان کا ضابطہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان وہ ہے جس کا ذکر اوپر سورة بقرہ کی تیرہویں آیت میں آچکا ہے وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کا دعوٰی صحیح یا غلط کے جانچنے کا معیار صحابہ کرام کا ایمان ہے جو اس کے مطابق نہیں وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ایمان نہیں،
اگر کوئی شخص قرآنی عقیدہ کا مفہوم قرآنی تصریح یا رسول اللہ ﷺ کی تشریح کے خلاف قرار دے کر یہ کہے کہ میں تو اس عقیدہ کو مانتا ہوں تو یہ ماننا شرعا معتبر نہیں جیسا کہ آجکل قادیانی گروہ کہتا ہے کہ ہم بھی عقیدہ ختم نبوت کو ماننے ہیں مگر اس عقیدہ میں رسول اللہ ﷺ کی تصریحات اور صحابہ کرام کے ایمان سے بالکل مختلف تحریف کرتے ہیں مرزا غلام احمد کی نبوت کیلئے جگہ نکالتے ہیں قرآن کریم کی اس تصریح کے مطابق وہ اسی کے مستحق ہیں کہ ان کو وَمَا ھُمْ بِمُؤ ْمِنِيْنَ کہا جائے یعنی وہ ہرگز مومن نہیں،
خلاصہ یہ کہ ایمان صحابہ کے خلاف کوئی شخص کسی عقیدہ کا نیا مفہوم بنائے اور اس عقیدہ کا پابند ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو مومن مسلمان بتلائے اور مسلمانوں کے نماز روزہ میں شریک بھی ہو مگر جب تک وہ قرآن کے اس بتلائے ہوئے معیار کے مطابق ایمان نہیں لائے گا اس وقت تک وہ قرآن کی اصطلاح میں مومن نہیں کہلائے گا،
ایک شبہ کا ازالہ
حدیث وفقہ کا یہ مشہور مقولہ کہ اہل قبلہ کو کافر نہیں کہا جاسکتا اس کا مطلب بھی آیت مذکورہ کے تحت میں یہ متعین ہوگیا کہ اہل قبلہ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر نہیں ورنہ یہ منافقین بھی تو قبلہ کی طرف سب مسلمانوں کی طرح نماز پڑہتے تھے مگر یہ صرف رو بقبلہ نماز پڑھنا ان کے ایمان کے لئے اس بناء پر کافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابہ کرام کی طرح تمام ضروریات دین پر نہیں تھا۔
Top