Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب یہ (بد بخت) ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں مگر جب یہ تنہائی میں اپنے شیطانوں کے پاس پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو (دل و جان سے) تمہارے ساتھ ہیں (ان لوگوں سے تو) ہم بس مذاق کر رہے تھے1
34 منافقوں کی دو رخی پالیسی کا ذکر وبیان : سو اس ارشاد سے منافقوں کی دو رخی پالیسی کو واضح فرما دیا گیا اور ایسا کہ یہ لوگ محض دنیاوی مفاد کے لیے کرتے ہیں۔ سو ایمان سے محروم لوگوں کا منتہائے مقصود دنیائے فانی کا متاع فانی ہے اور بس۔ یعنی اس طرح کے بےایمان لوگ اہل ایمان کے سامنے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تاکہ اس طرح زبانی کلامی دعوی کرکے یہ لوگ اہل ایمان کے زمرے میں اپنے آپ کو شامل کرکے ان فوائد و منافع سے مستفید و متمتع ہوتے رہیں، جو کہ مسلمانوں کو ملتے ہیں، اور جب یہ لوگ تنہائی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، تاکہ اس طرح یہ دوسری طرف کے فوائد کو بھی سمیٹ سکیں اور یہی وطیرہ و شیوہ رہا ہے ایمان و یقین کی دولت سے محروم ان ابنائے دنیا کا، جو اسی دنیائے دوں کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں، کہ متاع دنیا کا حطام فانی و زائل ہی ان کا معبود اور قبلہ مقصود ہوتا ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ جبکہ مومن صادق کا اصل مقصد آخرت ہوتی ہے، کہ دنیا تو محض متاع غرور ہے، جو کسی بھی طور پر مومن صادق کیلئے متاع مقصود نہیں ہوسکتی۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مخلص مسلمان کا مرتبہ و مقام کس قدر بلند اور اس کا نصب العین کتنا اعلی وارفع ہوتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں ایمان و یقین کی دولت سے محروم لوگوں کی ذہنیت کس قدر پست ہوتی ہے کہ وہ دنیائے فانی کے متاع فانی ہی کے لیے جیتا اور مرتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 35 حق سے روکنے والے شیطان اور اس کے ایجنٹ : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق سے روکنے والے شیاطین اور ان کے ایجنٹ ہیں اگرچہ وہ انسانی شکل و صورت میں ہوں : یہاں پر شیاطین سے مراد ان کے لیڈر ہیں، یعنی جب یہ لوگ اپنے ان سرداروں اور لیڈروں سے ملتے ہیں جو بظاہر اگرچہ انسان نظر آتے تھے مگر " اے بسا ابلیس کہ آدم روئے ہست "، کے مصداق اپنے خبث باطن کی بناء پر اندر سے وہ شیطان تھے، سو اس سے معلوم ہوا کہ شیطان انسانوں میں سے اور انسانی شکل میں بھی ہوتے ہیں، کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ سو واضح رہے کہ جو لوگ دوسروں کو حق اور ہدایت سے روکتے اور اس سے محروم کرنا چاہتے ہیں وہ اگرچہ انسانی شکل و صورت میں ہوں، وہ ہوتے بہرحال شیطان ہی ہیں، جیسا کہ سورة الانعام میں فرمایا گیا { شَیَاطِیْنُ الاِنْس وَ الْجِن } ۔ وَ الْعِیَاذ باللّٰہ مِنْ کُلّ شَیْطٰنٍ وَشَرِّہٖ وَکَیْدِہٖ وَمکِرہٖ سَوَائٌ کَانَ مِنْ شَیَاطِیْن الْاِنْس اَو الْجِن بِکُلّ حَال مّنَ الْاَحْوَال و فی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 36 منافق لوگ کفار کے ساتھی : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ منافقین کے دل کفار کے ساتھ ہیں اور ان کا انجام بھی ایک ہی ہوگا۔ یعنی حق و ہدایت سے محرومی اور پھر دوزخ کی دہکتی آگ۔ سو جب یہ منافق لوگ کھلے کفار سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تو دل و جان سے تمہارے ساتھ ہیں، سو ایسوں کا انجام ایک ہی اور مشترک ہوگا، اور منافقوں کو ان کے ظاہری اور زبانی کلام ایمان سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔ اور جب یہ دونوں باہم کفر و شرک کی اسی زنجیر میں بندھے اور جکڑے ہوئے ہیں، تو انکا انجام بھی یقینا ایک ہی ہوگا۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ـ بلکہ منافقوں کا کفر چونکہ مخفی اور پوشیدہ ہوتا ہے اس لیے یہ کھلے کفر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی حیثیت مار آستین کی ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا انجام اور عذاب بھی بہت سخت اور بڑا ہولناک ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار } ۔ یعنی " منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top