Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 47
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
کہو کہ بھلا بتاؤ تو اگر تم پر خدا کا عذاب بےخبری میں یا خبر آنے کے بعد آئے تو کیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہوگا؟
قل ارء یتکم ان اتکم عذاب اللہ بغتۃ اوجہرۃ ہل یہلک الا القوم الظلمون : (اے محمد ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ (مشرکو) بتلاؤ اگر اللہ کا عذاب تم پر آپڑے خواہ بیخبر ی میں یا خبرداری میں تو کیا بجز ظالم لوگوں کے اور بھی کوئی ہلاک کیا جائے گا۔ بغتۃً سے مراد ہے اچانک بغیر کسی نشانی اور علامت کے اور جہرۃً کا معنی ہے علی الاعلان جس کی نشانیاں پہلے سے نمودار ہوچکی ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حسن ؓ نے فرمایا بغتۃً اوجہرۃً کا معنی ہے رات میں یا دن میں۔ ہل یہلک میں استفہام انکاری ہے یعنی سوائے ظالموں کے اور کوئی ہلاک نہ ہوگا چونکہ اس جگہ استفہام بمعنی نفی کا اسی لئے آگے استثناء کیا گیا۔ الظلمون سے مراد ہیں کافر جو کفر کی وجہ سے خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
Top