Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 98
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم وَمَا : اور جو تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا حَصَبُ : ایندھن جَهَنَّمَ : جہنم اَنْتُمْ لَهَا : تم اس میں وٰرِدُوْنَ : داخل ہونے والے
بلاشبہ تم اور جن کی اللہ کے سوا تم عبادت کرتے تھے سب دوزخ کا ایندھن ہو تم اس میں داخل ہوگے۔
1:۔ فریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مردویہ، ابوداود نے ناسخ میں حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) کئی طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، انتم لھا وردون “۔ نازل ہوئی تو مشرکین نے کہا کہ فرشتے عیسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے کیا یہ بھی دوزخ میں جائیں گے تو پھر یہ (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ نازل ہوئی کہ جس سے مراد ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) ، عزیر اور فرشتے (کہ ان کو جہنم سے دور رکھا جائے گا ( 2:۔ ابن مردویہ اور ضیاء نے مختارہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن الزبعری نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت اتاری ہے۔ (آیت) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، انتم لھا وردون “۔ پھر کہنے لگا سورج کی چاند کی فرشتوں کی عزیر کی اور عیسیٰ بن مریم کی عبادت کی جاتی ہے کیا یہ سب ہمارے خدا وں کے ساتھ آگ میں جائیں گے تو یہ آیت ” ولما ضرب ابن مریم مثلا اذا قومک منہ یصدون (57) وقالواء الھتنا خیر ام ھو ما ضربوہ لک الا جدلا، بل ھم قوم خصمون (58) “ الزخرف) اور پھر یہ (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ نازل ہوئی۔ باطل خدا وں کا جہنم میں جلنا : 3:۔ ابوداود نے ناسخ میں ابن منذر، ابن مردویہ، طبرانی نے دوسری سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، انتم لھا وردون “۔ نازل ہوئی تو یہ آیت مکہ والوں پر بھاری گذری اور انہوں نے کہا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا گیا ابن الزبعری نے کہا میں تمہارے لئے محمد ﷺ سے جھگڑا کروں گا میرے لئے ان کو بلاوپس آپ کو بلایا گیا تو اس نے اے محمد ﷺ کیا یہ حکم ہمارے معبودوں کے لئے خاص ہے ؟ یا ہر اس معبود کے لئے ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے آپ نے فرمایا بلکہ ہر اس شخص کے لئے ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ ابن الزبعری نے کہا تجھ سے میں جھگڑا کروں گا اس کعبہ کے رب کی قسم اے محمد ﷺ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نیک بندے تھے عزیر (علیہ السلام) بھی نیک بندے تھے اور فرشتے بھی نیک سیرت (مخلوق) ہے تو آپ نے کہا کیوں نہیں تو اس نے کہا یہ عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور یہ یہود عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور یہ بنو ملیح فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اہل مکہ نے شور مچایا اور خوش ہوئے تو یہ (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ یہ لوگ جن ہم سے دور رکھے جائیں گے اور یہ آیت بھی نازل ہوئی یت ” ولما ضرب ابن مریم مثلا اذا قومک منہ یصدون (الزخرف 57) اور کہا کہ یہ صحیح روایت ہے۔ 4:۔ بزار نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، انتم لھا وردون “ نازل ہوئی پھر اس کو (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ نے منسوخ کردیا یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اور جو ان کے ساتھ ہیں (ایمان والے لوگ ان کو اللہ تعالیٰ جہنم سے دور رکھیں گے) 5:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، انتم لھا وردون “ یعنی (جھوٹے) معبود اور جو ان کی عبادت کرتا تھا۔ 6:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے اس کا ایندھن۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے جہنم کے درخت۔ 8:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے جہنم کا ایندھن زنجیہ زبان میں۔ 9:۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے جہنم کا ایندھن۔ 10:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے کہ وہ جہنم میں پھینکے جائیں گے۔ 11:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے راویت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے اس کی لکڑیاں، بعض قراء نے کہا (آیت) ” حصب جھنم “ عائشہ ؓ کی قرأت میں ہے۔ 12:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” حصب جھنم “ سے مراد ہے جہنم کو ان معبودوں کے ساتھ بھڑکایا جائے گا اور ہو پھینکنا ہے فرماتے ہیں کہ ان کو جہنم میں پھینکا جائے گا۔ 13:۔ ابن جریر نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حصب جھنم “ کو ضاد کے ساتھ پڑھا ہے۔ 14:۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن ابی الدنیا نے صفۃ النار میں طبرانی اور بیہقی نے بعث میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آگ میں صرف وہ باقی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ اس میں رہنا ہے تو مشرکین کے معبودوں کو آگ کے لوہے کے صندوقوں میں ڈال دیا جائے گا جس میں آگ کے لوہے کی کیلیں ہوں گی پھر ان صندوقوں کو لوہے کے اور صندوقوں میں ڈال دیا جائے گا پھر ان کو جہنم کے نچلے درجے میں پھینک دیا جائے گا وہ ان میں سے کسی ایک کو نہ دیکھے گا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی آگ میں عذاب دیا جارہا ہے پھر ابن مسعود ؓ نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” لھم فیھا زفیر وھم فیھا لایسمعون “۔ 15:۔ ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی “ سے عیسیٰ فرشتے اور عزیر (علیہ السلام) مراد ہیں۔ 16:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے راویت کیا کہ (آیت) ” اولئک عنھا مبعدون “ سے عیسیٰ (علیہ السلام) عزیر (علیہ السلام) اور فرشتے مراد ہیں۔ 17:۔ ابن ابی حاتم نے اصبغ کے طریق سے علی ؓ سے روایت کیا کہ اس (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی “ سے مراد ہے کہ ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے وہ آگ میں ہوگی سوائے سورج اور چاند اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے (کہ وہ آگ میں نہ ہوں گے) انبیاء اولیاء سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ : 18۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی “۔ سے اولیاء اللہ مراد ہیں جو پل صراط پر گذریں گے اور وہ بجلی سے زیادہ تیز رفتار ہوں گے تو ان کو آگ نہیں پہنچے گی اسی کو فرمایا (آیت) ” لا یسمعون حسیسھا “ (کہ وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے) اور کفار اس میں قیدی ہو کر باقی رہ جائیں گے۔ 19:۔ ابن ابی حاتم، ابن عدی اور ابن مردویہ نے نعمان بن بشیر (رح) سے روایت کیا کہ علی ؓ نے یہ (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ پڑھی اور فرمایا میں ان میں سے ہوں اور عمران میں سے ہیں اور عثمان ان میں سے ہیں اور زبیر اور طلحہ اور سعد اور عبدالرحمن ان میں سے ہیں۔ 20:۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابوعثمان نہدی (رح) سے (آیت) ” لایسمعون حسیسھا “ کے بارے میں فرمایا کہ پل صراط پر سانپ ہوں گے جو کفار کا کاٹیں گے جب وہ ان کو دسیں گے تو ہو کہیں گے حس حس۔ 21:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پل صراط پرسانپ ہیں جو حس حس کہتے ہیں۔ 22:۔ ابن مردویہ، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے سعادت مندی۔ 23:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، اور ابن جریر نے محمد بن حاطب (رح) سے روایت کیا کہ علی ؓ سے اس آیت (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس سے عثمان ؓ اور اس کے اصحاب مراد ہیں۔ 24:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” لا یسمعون حسیسھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ جنت والے دوزخ والوں کی آہٹ کو بھی نہ سنیں گے جب وہ جنت کے گھروں میں آکر ٹھہریں گے۔ 25:۔ عبد بن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سفیان ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لایسمعون حسیسھا “ سے مراد ہے اس کی آواز۔ 26:۔ ابن جریر نے عکرمہ ؓ اور حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ سورة انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم، انتم لھا وردون “ سے لے کر (آیت) ” وھم فیھا لایسمعون “ تک پھر اس میں سے استثناء کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ کیونکہ اللہ کے علاوہ فرشتے عزیر اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کی گئی لیکن ہو اس عبادت کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے ان کو مستثنی کردیا گیا۔ 27:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون “ تو اس سے سب لوگ مراد ہیں حالانکہ اس طرح نہیں ہے (بلکہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور وہ اللہ کے لئے فرمانبرداری کرنے والا مثلا عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی والدہ اور عزیر (علیہ السلام) اور فرشتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان معبودان باطلہ سے الگ کردیا ہے۔ 28:۔ ابن ابی الدنیا نے صفۃ النار میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لایحزنھم الفزع الاکبر “ سے مراد ہے کہ جب جہنم کو جہنمیوں پر بند کردیا جائے گا۔ 29:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لایحزنھم الفزع الاکبر “ سے مراد ہے دوسرا صورپھونکا جانا۔ 30:۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے (آیت) ” لایحزنھم الفزع الاکبر “ کے بارے میں فرمایا کہ جب کفار پر دوزخ کو بند کردیا جائے۔ 31:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لایحزنھم الفزع الاکبر “ سے مراد ہے جب آگ کو کفار پر بند کردیا جائے گا (تو یہ بڑی گھبراہٹ ہوگی) ، 32:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لایحزنھم الفزع الاکبر “ سے مراد ہے بندے کا لوٹنا (جہنم کی طرف) جب اس کو حکم دیا جائے گا آگ کی طرف (تو یہ بڑی گھبراہٹ ہوگی) 33:۔ ابن جریر (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” لایحزنھم الفزع الاکبر “ سے مراد ہے (بڑی گھبراہٹ جب ہوگی) جب کہ جہنم کو بند کیا جائے گا اور فرمایا جب موت کو ذبح کیا جائے گا (تو گھبراہٹ ہوگی ) ۔ 34:۔ بزار اور ابن مردویہ نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مہاجرین کے لئے سونے کے ممبر ہوں گے قیامت کے دن ان پر بیٹھیں گے اور گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔ 35:۔ طبرانی نے اوسط میں ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تاریکی میں چلنے والے (نماز کی طرف) ان کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا منابر کی خوشخبری ہے اس دن لوگ گھبرا رہے ہوں گے اور وہ نہیں گھبرائیں گے۔ 36:۔ طبرانی نے اوسط میں ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اللہ کے لئے اس دن اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے جب ان کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے لوگ گھبرا رہے ہوں گے اور وہ نہیں گھبرائیں گے۔ 37:۔ احمد اور ترمذی نے (ترمذی نے حسن بھی کہا ہے) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے ان کو بڑی گھبراہٹ پریشان نہیں کرے گی قیامت کے دن ایک وہ آدمی جس نے اپنی قوم کی اعانت کی اور وہ اس سے راضی رہے دوسرا وہ آدمی جو ہر دن اور رات میں اذان دیتا ہے اور وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا بھی حق ادا کیا۔ 38:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ وتتلقھم الملئکۃ “ سے مراد ہے کہ ان سے فرشتے ملاقات کریں گے قیامت کے دن جو ان کے ساتھی تھے دنیا میں اور وہ کہیں گے ہم تمہارے ساتھی تھے دنیا میں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں ہم تم سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ تم جنت میں داخل نہ ہوجاؤ۔ 39:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” ھذا یومکم الذی کنتم تو عدون “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ (کہاجائے گا) ان کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے۔ 40:۔ عبد بن حمید نے علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کطی السجل “ سے مراد ہے فرشتہ۔ 41:۔ عبد بن حمید نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کطی السجل “ ایک فرشتہ کا نام ہے۔ 42:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یوم نطوی السمآء کطی السجل للکتب “ میں السجل سے مراد ہے فرشتہ جب وہ استغفار کے ساتھ اوپر چڑھتا ہے تو فرماتے ہیں اس کو نور لکھ دو ۔ 43:۔ ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے ابوجعفر باقر (رح) سے روایت کیا کہ سجل ایک فرشتہ ہے اور ھاروت ماروت اس کے مددگاروں میں سے تھے اس کے لئے ہر دن تین لمحات ایسے ہوتے ہیں جس میں وہ ان کو ام الکتاب میں دیکھتا تھا ایک دفعہ اس نے دیکھا جب کہ اس وقت اس کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی اس نے دیکھا کہ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا جائے گا اس کے کاموں کو بھی دیکھا اس نے یہ بات چپکے سے ھاروت ماروت کو پہنچا دی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ’ ’ انی جاعل فی الارض خلیفۃ، قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا “ (البقرہ آیت 30) تو کہا یہ (انسانوں کا) غالب آنا ہے فرشتوں پر۔ 44:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ سجل ایک فرشتہ ہے جو مقرر کیا گیا ہے اعمال نامہ پر جب کوئی انسان فوت ہوتا ہے تو اس کی کتاب یعنی اعمال نامہ فرشتے کے حوالے کیا جاتا ہے وہ اسے لپیٹ دیتا ہے اور قیامت کے دن تک اس کو رکھ دیتا ہے۔ 45:۔ عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ سجل سے مراد ہے اعمال نامہ۔ 46:۔ ابوداود، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مندہ نے معرفہ میں ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں (بیہقی نے صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ السجل نبی کریم ﷺ کے ایک کاتب تھے۔ 47:۔ ابن منذر، ابن عدی اور ابن عساک نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سجل رسول اللہ ﷺ کے ایک کاتب تھے جن کو سجل کہا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس قول (آیت) ” یوم نطوی السمآء کطی السجل للکتب “ سے یہی مراد ہے۔ 48:۔ نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سجل ایک آدمی ہے اور ابن مردویہ نے یہ زیادہ کیا کہ یہ حبشہ کی لغت ہے۔ 49:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” کطی السجل للکتب “ کے بارے میں فرمایا کہ جیسے صحیفہ لپیٹا جاتا ہے کتاب پر۔ 50:۔ ابن جریرنے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” کما بدانا اول خلق نعیدہ “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم ہلاک کردیں گے ہر چیز کو جیسے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری مرتبہ پیدا کردیں گے۔ 51:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کما بدانا اول خلق نعیدہ “ سے مراد ہے کہ ہم ان کو ننگے بدن ننگے پاوں اور غیر مختون لوٹائیں گے۔ کیا بڑھیا جنت میں نہ جائے گی ؟ 52:۔ ابن جریر نے عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت میرے پاس بنوعامر میں سے ایک بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی آپ نے پوچھا اے عائشہ یہ بڑھیاکون ہے ؟ عرض کیا میری خالاوں میں سے ایک خالہ ہے اس بڑھیا نے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے جنت میں داخل کردے آپ نے فرمایا جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہ ہوگی (یہ بات سن کر) وہ بڑھیا انتہائی پریشان ہوئی (اور رونے لگی) تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بوڑھیوں کو نئے سرے سے پیدا فرمائے گا تم دوبارہ اٹھوگے تو تم ننگے پاوں ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے ہوں گے بڑھیا نے کہا پاک ہے اللہ سے یہ بہت دور ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) ” کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فعلین “ سب سے پہلے ابراھیم خلیل الرحمن کو لباس پہنایا جائے گا۔ 53:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) کے قد پر اور ان کے جسم پر اٹھائیں گے اور ان کی زبان سریانی ہوگی (لوگ) ننگے بدن ننگے پاوں اور بغیر ختنہ کے ہوں گے جیسے (پہلی بار ماں کے پیٹ سے) پیدا کئے گئے۔
Top