Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 98
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ
اِنَّكُمْ : بیشک تم وَمَا : اور جو تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا حَصَبُ : ایندھن جَهَنَّمَ : جہنم اَنْتُمْ لَهَا : تم اس میں وٰرِدُوْنَ : داخل ہونے والے
(کافر اس روز) تم اور جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہونگے (اور) تم (سب) اس میں داخل ہو کر رہوگے
مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انکم وما تعبدون حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ایک ایسی آیت ہے کہ لوگ اس کے متعلق مجھ سے نہیں پوچھتے، معلوم نہیں وہ اس کا عرفان رکھتے ہیں اس لیے اس کے متعلق نہیں پوچھتے یا اس سے غافل ہیں اس لیے نہیں پوچھتے ؟ پوچھا گیا : وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا : انکم وما تعبدون۔۔۔ الخ، جب یہ آیت نازل ہوئی تع کفار قریش پر بڑی شاپ گزری کہنے لگے۔ اس نے ہمارے خدائوں کو برا بھلا کہا ہے۔ لوگ ابن الزبعری کے پاس آئے اور اس کے متعلق بتایا تو وہ کہنے لگا : اگر میں وہاں ہوتا تو میں اس کو جواب دیتا۔ لوگوں نے کہا : تو اسے کیا کہتا ؟ کہنے لگا : میں اسے کہتا حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نصاریٰ عبادت کرتے ہیں، یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں کیا وہ دونوں بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے ؟ قریش اس کی بات سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے خیال کیا کہ حضرت محمد ﷺ سے نزاع کیا گیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی : ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ ، اولئک عنھا معبدون۔ (بلا شبہ وہ لوگ جن کے لیے مقدر ہو چکلی ہے ہماری طرف سے بھلائی تو وہی اس جہنم سے دور رکھیں جائیں گے) اور لما ضرب ابن مریم مثلا (الزخرف :57) ابن العزیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ آیت آگے آرہی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ اصل قول میں عموم کی اصل ہے اور عموم کے لیے مخصوص صیغے ہیں جبکہ بعض اس کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں : عموم پر دلالت کرنے کے لیے کوئی صیغہ نہیں کیا گیا۔ یہ قول باطل ہے کیونکہ یہ آیت اور دوسری آیات اس کی دلیل ہیں۔ عبد اللہ بن الزبعری نے ما سے زمانہ جاہلیت کے تمام معبود سمجھے اور قریش جو فصحاء عرب اور بلغاء لسان تھے انہوں نے بھی اس کی موافقت کی اگر یہ ما عموم کے لیے نہ ہوتا تو اس سے استشنا کرنا صحیح نہ ہوتا حالانکہ یہ پایا گیا ہے۔ پس یہ عموم کے لیے ہے اور یہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ عام قرأت حصب یعنی صاد کے ساتھ ہے مفہوم یہ ہے کہ اے کفار کے گروہ ! تم اور جن بتوں کی تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ جہنم کا ایندھن ہیں، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ مجاہد، عکرمہ اور قتادہ نے کہا : خطبھا حضرت علی ابن طالب اور حضرت عائشہ ؓ نے خطب جھنم یعنی طاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے حضب ضاد کے ساتھ پڑھا ہے۔ فراء نے کہا : ا سے مراد الحصب ہے۔ فرمایا : ہمیں بتایا گیا ہے کہ الحضب اہل یمن کی لغت میں الحطب کے معنی میں ہے۔ ہر وہ چیز جس کے ساتھ آگ بھڑکائی جائے اور جس کے ساتھ تو آگ جلائے وہ حضب کہلاتی ہے، یہ جوہری نے ذکر کیا ہے۔ الموقد کا معنی محضب (چولھا) ابو عبیدہ نے حصب جھنم کے بارے میں فرمایا : ہر وہ چیز جو آگ میں ڈالے اس کے لیے حصب تھا بہ بولا جاتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافر لوگ اور وہ بت جن کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ اس آیت کی مثال اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاتقوالنارالتی وقودھا الناس والحجارۃ (البقرہ :24) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : الحجارۃ سے مراد کبرت کا پتھر ہے جیسا کہ سروہ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ آگ، بتوں پر عذاب اور عقاب نہ ہوگی کیونکہ انہوں نے تو کوئی جرم نہیں کیا بلکہ یہ ان کے عبادت گزاروں کے لیے عذاب ہوگی۔ یہ پہلا مقام حسرت ہوگا پھر انہیں آگ پر جعم کیا جائے گا اور ان کی آگ ہر آگ سے سخت ہوگی۔ پھر اس آگ کے ساتھ مشرکوں کو عذاب دیا جائے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان پتھروں (بتوں) کو جلایا جائے گا اور پھر مشرکوں کے عذاب میں زیادتی کے لیے انہیں ان بتوں کے ساتھ ملایاجائے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : انہیں آگ میں ڈالا جائے تاکہ ان کی عبادت پر سرزنش ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انتم لھ اور دون تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔ یہ خطاب مشرکوں کو ہے جو بتوں کے پجاری ہیں یعنی تم اپنے بتوں کے ساتھ آگ میں داخل ہو گے۔ یہ کہنا بھی جائز ہے کہ خطاب بتوں کے لیے اور ان کے عبادت گزاروں کے لیے ہو کیونکہ اگرچہ جمادات تھے لیکن آدمیوں کی ضمیروں کے ساتھ ان کے متعلق خبر دی جاتی ہے۔ علماء نے فرمایا : حضٗرت عیسیٰ ، حضرت عزیر اور ملائکہ (علیہم السلام) اس میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ما کے غیر آدمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اگر آدمیوں کا ارادہ ہوتا تو من کہا جاتا۔ زجاج نے کہا چونکہ اس آیت کا مخاطب مشرکین مکہ ہیں دوسرے نہیں۔
Top