Dure-Mansoor - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
یہ لوگ اللہ کے سوا صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور نہیں پکارتے مگر شیطان کو، جو سرکش ہے
(1) عبد اللہ بن احمد نے الزوائد المسند میں وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابی بن کعب ؓ سے لفظ آیت ” ان یدعون من دونہ الا انثا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر بت کے ساتھ ایک جنی عورت ہوتی ہے۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ ” ان یدعون من دونہ الا انثا “ یعنی لات عزی اور منات سب مؤنث ہیں۔ (3) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” ان یدعون من دونہ الا انثا “ کہ ان کے نام عورتوں والے رکھتے تھے (جیسے لات، منات اور عزی ) ۔ (4) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان یدعون من دونہ الا انثا “ سے مردہ مراد ہے۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ” اناث “ سے ہر وہ چیز مراد ہے جس میں روح نہ ہو جیسے خشک لکڑی اور خشک پتھر۔ (6) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” الا انثا “ سے میت مراد ہے جس میں روح نہ ہو۔ (7) سعید بن منصور وابن جریر وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ عرب کے قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کے لئے ایک بت تھا جو اس کی عبادت کرتے تھے اور جنہیں وہ انثی بنی فلاں کہتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” ان یدعون من دونہ الا انثا “۔ (8) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” ان یدعون من دونہ الا انثا “ کے بارے میں روایت کیا کہ مشرکوں نے کہا فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ہم ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ ہم کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں پھر فرمایا انہوں نے ان کو رب بنا رکھا تھا اور ان کی عورتوں والی صورتیں بنا رکھی تھیں۔ ان کے زیور اور ہار پہنائے اور کہتے ہیں یہ (مورتیاں) اللہ کی بیٹیوں کے مشابہ ہیں جن کی ہم عبادت کرتے ہیں اور اس سے فرشتے مراد لیتے ہیں۔ (9) عبد بن حمید نے کلبی سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ اس حروف کو یوں پڑھتے تھے ” ان یدعون من دونہ الا انثا وان یدعون الا شیطنا مریدا “ پھر فرمایا ہر بت کے ساتھ ایک شیطان عورت ہوتی ہے۔ (10) عبد بن حمید وابن وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” الا انثا “ سے ” الا انثا “۔ (11) ابو عبید نے فضائل القرآن میں وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن الانباری نے مصاحف میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتی تھیں لفظ آیت ” ان یدعون من دونہ الا انثا “ اور ابن جریر کا الفاظ : حضرت عائشہ ؓ کے مصحف میں یوں تھا ” الا اوثانا “۔ (12) الخطیب نے اپنی تاریخ میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھا ” ان یدعون من دونہ الا انثی “۔ (13) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان یدعون الا شیطنا “ میں شیطان کا معنی ابلیس ہے۔ (14) سفیان سے روایت ہے کہ ” ان یدعون من دونہ الا شیطنا “ سے مراد ہے کہ کوئی بت ایسا نہیں ہوتا جس میں شیطان نہ ہو۔ (15) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” مریدا “ سے مراد ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں سرکشی کی۔ (16) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقال لاتخذن من عبادک “ سے شیطان کا قول ہے ” نصیبا مفروضا “ یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ (17) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقال لاتخذن من عبادک نصیبا مفروضا “ سے مراد ہے کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کریں گے اور وہ میری جماعت میں ہوں گے۔ (18) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” نصیبا مفروضا “ سے مراد ہے حصہ جو معلوم ہے۔ (19) ابن المنذر نے ربیع بن انس (رح) سے ” وقال لاتخذن من عبادک نصیبا مفروضا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (دوزخ کے لئے ) ۔ (20) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے لفظ آیت ” ولاضلنہم ولامنینہم ولامرنہم فلیبتکن اذان الانعام “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ دین جس کو ابلیس نے ان کے لئے بنایا جیسے بحیرہ اور سائبہ کی ہیئت۔ (21) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے ” فلیبتکن اذان الانعام “ کے بارے میں روایت کیا کہ (بتوں کے نام پر) کان کاٹنا بحیرہ میں اور سائبہ میں وہ اپنے بتوں کے لئے جانوروں کے کان کاٹ دیتے تھے۔ (22) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلیبتکن اذان الانعام “ سے مراد ہے کہ وہ جانوروں کے کان کاٹ دیتے ہیں۔ (23) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جانوروں کے کانوں کو پھاڑ دیتے اور اس کو بحیرہ بنا دیتے تھے۔ بلا ضرورت خصی کرنا ناپسندیدہ عمل ہے (24) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے خصی کرنے کو ناپسند کیا اور فرمایا کہ اس کے بارے میں (یہ آیت) اتاری گئی لفظ آیت ” ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ “۔ (25) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ وہ خصی کرنے کو ناپسند فرماتے تھے اور فرمایا اس بارے میں (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ “ اور عبد الرزاق کے لفظ میں یوں فرمایا جس نے اللہ کی تخلیق کو بدل ڈالا وہ خصی کرنا ہے۔ (26) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جانوروں کو خصی کرنا مثلہ ہے پھر یہ آیت ” ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ “۔ (27) عبدبن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ “ سے خصی کرنا مراد ہے۔ (28) ابن ابی شیبہ و بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے اور جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ابن عمر ؓ سے فرمایا اس کے ذریعہ مخلوقات میں اضافہ ہوتا ہے۔ (29) ابن المنذر و بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی جانور کو باندھ کر پھر اس کو تیرون یا پتھروں یا گولیوں سے مارنے کو منع فرمایا اور جانوروں کو خصی کرنے سے بھی منع فرمایا۔ (30) ابن ابی شیبہ نے وابن المنذر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرماتے تھے اور فرماتے تھے جانوروں کی افزائش مذکروں کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ (31) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر نے شبیل (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے شہر بن حوشب کو یہ آیت یوں پڑھتے ہوئے سنا لفظ آیت ” فلیغیرن خلق اللہ “ اور فرمایا کہ خصی کرنا اس میں سے ہے میں نے ابو السیاح کو کہا تو اس نے حضرت حسن سے بکری کو خصی کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ (32) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلیغیرن خلق اللہ “ سے خصی کرنا مراد ہے۔ (33) ابن المنذر و بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ خصی کرنے کو ناپسند کرتے ہیں اور کہتے تھے اس کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی افزائش ہوتی ہے۔ (34) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ خصی کرنے کو ناپسند کرتے تھے اور فرمایا کہ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ “۔ (35) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے عروہ رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے خچر کو خصی کیا۔ (36) ابن المنذر نے طاؤس رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے اونٹ کو خصی کیا۔ (37) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ان سے نروں کو خصی کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کوئی حرج نہیں اگر نروں کو چھوڑ دیا جائے تو اس کا بعض بعض کو کھائے۔ (38) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جانوروں کو خصی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (39) ابن المنذر نے ابو سعید عبد اللہ بن بشر سے روایت کیا کی ہم کو عمر بن عبد العزیز نے گھوڑے کو خصی کرانے کا حکم فرمایا اور عبد الملک بن مروان نے اس سے ہم کو منع فرمایا۔ ضروریات کے لئے خصی کرنے میں کوئی حرج نہیں (40) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے عطا رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ ان سے نر کے خصی کرانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے نقص اور اس کے برے رویے کہ وجہ سے خصی کرنے میں کوئی حرج ہے۔ (41) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولامرنہم فلیغیرن خلق اللہ “ سے اللہ کا دین مراد ہے (کہ اس کو نہ بگاڑو) ۔ (42) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” فلیغیرن خلق اللہ “ سے اللہ کا دین مراد ہے اور ان کا قول ” فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ “ (روم آیت 30) میں فطرہ کا معنی دین ہے۔ (43) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ” فلیغیرن خلق اللہ “ سے اللہ کا دین مراد ہے۔ (44) سعید بن منصور وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” فلیغیرن خلق اللہ “ سے اللہ کا دین مراد ہے۔ (45) عبد الرزاق وآدم وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” فلیغیرن خلق اللہ “ سے مراد ہے کہ اللہ کا دین پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم “۔ (46) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلیغیرن خلق اللہ “ سے سوئی سے گودنا مراد ہے۔ (47) ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمایہ گودنے والیوں گدوانے والیوں پر پیشانی کے بال اکھڑوانے والیوں پر اور خوبصورتی کے لئے اپنے دانتوں میں کشادگی گرانے والیوں پر اور اللہ کی پیدائش کو تبدیل کرنے والیوں پر۔ (48) احمد نے ابو ریحانہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس باتوں سے منع فرمایا دانتوں کو گھسا کر باریک کرنے سے، سوئی کے ساتھ گودنے سے، بال اکھاڑنے سے، مرد کا مرد کے ساتھ پردے کے بغیر اکٹھے ہونا، عورت کا عورت کے ساتھ بغیر پردے کے اکٹھے ہونا، اور کسی آدمی کا اپنے کپڑے کے نیچے ریشم لگانے سے بطور ملامت کے اور اپنے کندھوں پر عجمیوں کی طرح کوئی چیز رکھنے سے اور کسی کا مال لوٹنے سے، اور چیتے پر سوار ہونے سے اور انگوٹھی پہننے سے مگر بادشاہ کیلئے (بطور ضرورت جائز ہے) ۔ (49) احمد نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی چہرے کو رگڑنے والی اور چہرے کو رگڑوانے والی گودنے والی اور گدوانے والی پر بالوں میں جوڑ لگانے والی اور لگوانے والی۔ (50) احمد ومسلم نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے عورت کو اپنے سر پر کوئی چیز لگانے سے سخت منع فرمایا۔ (51) احمد و بخاری ومسلم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک لڑکی نے شادی کرلی وہ بیمار ہوگئی اس کے بال گرگئے انہوں نے دوسرے بال لگوانے کا ارادہ کیا اور نبی ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اللہ لعنت کرے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر۔ انسانی بالوں کی پیوندکاری حرام ہے (52) احمد و بخاری، و مسلم نے اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہا رسول اللہ ! اپنی بیٹی کی شادی کر رہی ہوں اس کو خسرہ کی بیماری لگی ہوئی تھی اس کی وجہ سے اس کے بال ختم ہوگئے۔ کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگا سکتی ہوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لعنت کرے بال لگانے اور لگوانے والی دونوں پر۔ (53) عبید حمید و ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ولامرنہم فلا یغیرن خلق اللہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ان جاہل لوگوں کا کیا حال ہے جو اللہ کے رنگ کو بدل ڈالتے ہیں۔ (54) ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ سب سے سچی بات اللہ کا کلام ہے۔ (55) بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہر وہ چیز جو انے والی ہے وہ قریب ہے۔ خبردار وہ چیز ہے جو آنے والی نہیں ہے۔ خبردار اللہ تعالیٰ جلدی نہیں فرماتے کسی ایک کی جلدی کی وجہ سے، لوگوں کے عمور میں سے یہ امر اللہ کی مشیعت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لوگوں کی خواہش کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایک کام کا ارادہ فرماتے ہیں اور لوگ بھی ایک کام کا ارادہ کرتے ہیں۔ جو اللہ چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اگرچہ لوگ نہ پسند کریں۔ اس چیز کے لئے قریب ہونا نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ دور فرما دیں گے اور نہیں ہے اس کے لئے دور ہونا جس کو اللہ قریب فرما دیں۔ اور کوئی چیز اللہ کے اذن کے بغیر واقع نہیں ہوتی۔ سب سے سچا کلام اللہ کا کلام ہے۔ اور سب سے اچھی ہدایت محمد ﷺ کی ہدایت ہے۔ اور برے کام وہ ہیں جو نئے نکالے ہوئے ہیں۔ اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور دل میں جو چیزیں القا کی گئیں ان سے بہترین یقین ہے اور بہترین مال داری دل کی مال داری ہے۔ اور بہترین علم وہ ہے جو نفع دے۔ اور بہترین ہدایت ہے وہ ہے جس کی اتباع کی جائے جو مال کہ تھوڑا ہو اور کافی ہوجائے وہ بہتر ہے اس زیادہ مال سے جو غافل کرنے والا ہو۔ بلاشبہ تم میں سے ہر آدمی کا ٹھکانا چار ہاتھ جگہ ہے۔ خبردار ! لوگوں کو زچ نہ کرو اور نہ ان کو اکتاو کیونکہ ہر نفس کا نشات اور توجہ کا وقت ہوتا ہے۔ اور اس کے لئے ایک وقت اکتاہٹ اور ادم توجہی کا بھی ہوتا ہے۔ خبردار سب سے برے راوی جھوٹ کی روایت کرنے والے ہیں اور جھوٹ لے جانا ہے نافرمانی کی طرف اور نافرمانی لے جاتی ہے آگ کی طرف۔ خبردار لازم پکڑو تم سچائی کو کیونکہ سچائی لے جاتی ہے نیکی کی طرف اور نیکی لے جاتی ہے جنت کی طرف اور اس میں عبرت حاصل کرو۔ اے دو جماعتوں جو آپس میں ملی ہو تو سچ بولنے والے کے لئے کہا گیا سچائی اور نیکی اور جھوٹ بولنے والے کے لئے کہا گیا جھوٹ اور گناہ اور ہم نے تمہارے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی برابر سچ بولنا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے خبردار جھوٹ جائز نہیں ہے سنجیدگی میں اور مذاق میں اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ تم میں سے کوئی مرد اپنے بچے سے وعدہ کرے پھر اسے پورا نہ کرے۔ خبردار اہل کتاب سے کوئی سوال نہ کرو کسی چیز کے بارے میں اس لئے کہ جب ان پر مدد لمبی ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور انہوں نے اپنے دین میں بدعتیں نکال لیں اور اگر لامحالہ ان سے سوال کرنا پڑے تو اگر وہ تمہاری کتاب سے موافق ہے تو اس کو لے لالو اور جو اس کے مخالف ہو اس سے رک جاؤ اور خاموشی اختیار کرو خبردار گھروں میں سے وہ گھر خالی ہے جس میں اللہ کی کتاب میں سے کوئی چیز نہ ہو خبردار اور وہ گھر جس میں اللہ کی کتاب میں سے کوئی چیز نہ ہو وہ ویران ہے جیسے وہ گھر ویران ہے جس میں کوئی رہنے والا نہ ہو خبردار بلاشبہ شیطان اس گھر میں سے نکل جاتا ہے جس میں وہ سورة بقرہ کو سنتا ہے جو اس میں پڑھی جاتی ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر خطبہ (56) بیہقی نے دلائل میں عقبہ بن عامر سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں نکلے رسول اللہ ﷺ بلندی پر چڑھے جب کہ اس میں سے ایک رات ایسی تھی کہ آپ نہیں جاگے یہاں تک کہ سورج ایک نیزہ پر آگیا آپ نے فرمایا اے بلال ! میں نے تم کو نہیں کہا تھا آج رات ہماری حفاظت کرنا عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ کر نیند غالب آگئی جو مجھ پر غالب آیا وہ آپ پر بھی غالب آگیا رسول اللہ ﷺ تھوڑی دور دوسری جگہ منتقل ہوگئے اور وہاں نماز پڑھی پھر باقی دن اور رات چلتے رہے اور صبح کو ہم تبوک میں پہنچ گئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تعاریف بیان فرمائی جیسی اس ذات کے لائق ہے۔ پھر فرمایا اما بعد ! بلاشبہ سب سے سچا کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے مضبوط حلقہ تقویٰ ہے اور دینوں میں بہترین دین ابراہیم کا دین ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ بہترین گفتگو اللہ کا ذکر ہے جس سے اچھے قصے یہ قرآن ہے اور بہترین عمور قطعی احکام (فرائض) ہیں اور برے کام دین میں نئی باتیں نکالنا ہے اور سب سے اچھی ہدایت انبیاء کی ہدایت ہے۔ بہترین موت شہداء کی موت ہے اور سب سے زیادہ اندھا پن ہدایت کے بعد گمراہی ہے اور بہترین علم وہ ہے جو نفع دے اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کا اتباع کیا جائے اور سب سے برا اندھا پن دل کا اندھا پن ہے اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے جو مال تھوڑا ہو اور کافی ہوجائے اور بہتر وہ ہے جس مال سے جو زیادہ ہو اور اللہ کی یاد سے غافل کرنے والا ہو اور بری معذرت موت حاضر ہونے کے وقت ہے۔ اور بری ندامت قیامت کی ندامت ہے اور لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو آخر وقت میں نماز ادا کرتے ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو صرف تھکاوٹ و اکتاہٹ میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں سب سے بری غلطی جھوٹ بولنے والی زبان ہے۔ اور بہترین مال داری دل کی مال داری ہے اور بہترین توشہ تقوی ہے۔ اور حکمت کی جڑ اللہ عزوجل سے ڈرنا ہے۔ اور دل میں جو چیز قرار پذیر رہی ان میں سے بہترین یقین ہے اور شک کرنا کفر میں سے ہے اور نوحہ کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے اور مال غنیمت میں سے چرانا جہنم کے ڈھیر میں سے ہے اور خزانہ آگ کا کاویہ ہے اور شعر کہنا ابلیس کے گانے بجانے کے آلات میں سے ہے، اور شراب گناہوں کے جمع کرنے والی ہے، عورتیں شیطان کا جال ہیں جوانی جنون میں سے ایک شعبہ ہے، سب سے بری کمائی سود کی کمائی ہے۔ اور سب سے برا کھانا یتیم کا مال ہے۔ اور نیک بخت وہ ہے جو اپنے علاوہ سے نصیحت حاصل کرنا ہے اور بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بھی بدبخت ہو اور بلاشبہ تم سب کا ٹھکانا ہے چار ہاتھ جگہ ہے اور کام کی پہچان اس کے انجام میں سے ہے عمل کی روح اس کے خاتمہ میں سے ہے سب سے برے راوی جھوٹ روایت کرنے والے ہیں اور ہر آنے والی چیز قریب ہے اور مومن کو گالی دینا فسق ہے اور مومن کو قتل کرنا کفر ہے اور اس کا گوشت کھانا اللہ کی معصیت میں سے ہے اور اس کے مال کی حرمت ایسی ہے جیسے کہ خون کی حرمت اور جو شخص اللہ تعالیٰ تاویلیں پیش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جھٹلاتا ہے اور وہ شخص معافی کا طلب گار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیتا ہے اور جو شخص غصہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے غصہ ہوتے ہیں۔ اور جو شخص غصہ کو پی جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اجر دیں گے اور جو شخص کسی مصیبت پر صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اجر عطا فرماتا ہے اور جو شخص شہرت کے پیچھے بھاگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے شہرت دے دیتا ہے۔ اور جو شخص صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کئی گناہ عطا فرماتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا ہے اے اللہ ! میری اور میری امت کی مغفرت فرما اس کو تین مرتبہ فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں۔ (57) ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے سب سے سچی بات اللہ کا کلام ہے پھر اس نے برابر گفتگو کی۔
Top