Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
یہ جو خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں تو عورتوں کی اور پکارتے ہیں تو شیطان کی سرکش ہی کو
ان یدعون من دونہ . وہ نہیں عبادت کرتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : دعا عبادت ہے پھر حضور ﷺ نے آیت وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْتلاوت فرمائی۔ رواہ احمد و اصحاب السنن الاربعہ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جو کسی کی پوجا کرتا ہے وہ اسی کو حاجات کے لئے پکارتا ہے۔ الا انثا . مگر چند زنانی چیزوں کی۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ اناث سے مراد بت ہیں۔ بتوں کو اناث کہنے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ عرب اپنے بتوں کو مؤنث (مادہ) ہی جانتے تھے اور ان کے ناموں کے لئے مؤنث کے صیغے ہی استعمال کرتے تھے مثلاً مناۃ ‘ عزیٰ اللات (شاید حضرت مفسر (رح) کا اس تمثیل سے اشارہ اس طرف ہے کہ مناۃ منان کا اور اللات اللہ کا مؤنث ہے جیسے عزی بروزن فعلی اعزکا مؤنث ہے) اور کسی قبیلہ کے بت کو کہتے تھے۔ فلاں قبیلہ کی دیوی ‘ فلاں قبیلہ کی مؤنث۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے الااناثا کی تشریح میں فرمایا صنما جنیۃ (دیوی پری) رواہ ابن ابی حاتم و ابن المنذر و عبداللہ بن احمد زوائد المسند۔ یا یہ وجہ ہے کہ ان کے معبدوں کی کوئی حقیقت تو تھی نہیں صرف نام ہی نام تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے اللہ نے فرمایا ہے : مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ الاَّ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَا اور نام مؤنث تھے اس لئے اناث فرمایا۔ یہ وجہ کہ معبود جمادات تھے (پتھروں کے پتیل کے یا اور کسی دھات کے) اور اناث کا اطلاق جمادات پر ہوتا ہے۔ قاموس میں ہے اناث انثیٰ کی جمع ہے انثی کی جمع اناثیٰ بھی ہے اور اناث بےجان چیزوں کو کہتے ہیں جیسے درخت پتھر اور چھوٹی بیلیں۔ اس وقت اناث کاتبوں پر اطلاق لغت کے اعتبار سے حقیقی ہوگا مجاز کی ضرورت نہ ہوگی۔ علم نحو کی کتابوں میں صراحت ہے کہ الف تاء کے ساتھ کسی واحد کی جمع اور جمع مؤنث کا نون بےعقل چیزوں کے لئے اصلی (حقیقی لغوی) ہے جیسے کہا جاتا ہے سُفُنٌ جاریاتٌاور نخلٌ باسقاتٌاور صرن الایام الیالی۔ عورتوں کی جمع میں الف تاء کا آنا صرف اس وجہ سے ہے کہ کم عقل ہونے کی وجہ سے گویا ان کو بےعقل چیزوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ حسن اور قتادہ نے الا اناثا کی تشریح میں کہا بےجان جن میں روح نہیں۔ جس طرح مؤنث مذکر کے مقابلہ میں حقیر ہے اسی طرح بےجان جاندار کے مقابلہ میں حقیر ہے اس لئے بےجان کو اناث کے لفظ سے تعبیر کیا۔ اس قول پر بےجان پر اناث کا اطلاق مجازی ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت میں اناثا کی جگہ اثناآیا ہے۔ اثن اوثان کی جمع ہے اور اوثان وثن کی (وثن کا معنی ہے بت۔ استھان) ضحاک کے نزدیک۔ اناث سے مراد ملائکہ ہیں کیونکہ مشرک ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَجَعَلُوا الْمَلاءِکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَاد الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا۔ وان یدعون الا شیطانا . اور وہ نہیں پوجا کرتے مگر شیطان کی۔ ہر بت میں ایک شیطان ہوتا تھا اور پجاریوں اور کاہنوں کو دکھائی دیتا تھا اور ان سے کلام بھی کرتا تھا ہم اس کا ذکر پہلے کرچکے ہیں۔ بعض کے نزدیک شیطان سے ابلیس مراد ہے۔ ابلیس نے ہی مشرکوں کو بت پرستی کا حکم دیا تھا۔ بت پرستی میں درحقیقت ابلیس ہی کی عبادت اور طاعت تھی۔ مریدا . جو سرکش ہے۔ مارد اور مرید وہ (شریر) جس کا تعلق خیر سے نہ ہو۔ مرد (میم راء دال کا مجموعہ) کا لغوی معنی ہے چکناپن (یعنی کھردرا نہ ہونا) صَرْحٌ مُّمَرَّدٌصاف چکنا محل۔ امرد بےڈاڑھی مونچھ کا لڑکا۔ اس جگہ مرید سے مراد ہے سرکش۔ اللہ کی اطاعت سے خارج ہونے والا۔
Top