Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
اللہ کے سوا نہیں پکارتے مگر عورتوں کو اور نہیں پکارتے مگر شیطان سرکش کو84
84 یعنی بظاہر تو فرشتوں اور بزرگوں کی موتیوں کو پکارتے اور ان پر نذریں نیازے چڑھاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ سب کچھ وہ شیطان کیلئے کر رہے ہیں جو ان مورتیوں سے بولتا ہے کان یدخل فی اجواف الاصنام فیتکلم واعیھا (بحر ج 3 ص 352) یہاں تک شرک اعتقادی کی نفی تھی وقال لا تخذن من عبادک نصیبا مفروضا۔ یہاں سے شرک فعلی کی نفی کی گئی ہے۔ نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً مقررہ حصہ یعنی میں تیرے بندوں کو ایسا گمراہ کروں گا کہ وہ شرک کرنے لگیں گے اور اپنے مالوں سے مقررہ حصے غیر اللہ کی نیازوں کے نکالیں گے (شاہ عبدالقادر) ۔ فَلْیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ الخ یعنی وہ غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے جانور چھوڑیں گے اور بحیرے سائبے وغیرہ بنائیں گے اور بطور علامت ان کے کانوں میں شگاف کردیں گے ای احملھم علی قطع اٰذان البحیرۃ و السائبۃ ونحوہ (قرطبی ج 5 ص 389) فَلَیُغَّیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں۔ خَلْقَ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے اور تغیر سے حلال کو حرام کرنا اور حرام کو حلال کرنا مراد ہے۔ قال ابن عباس یعنی دین اللہ و تغییر دین اللہ ھو تحلیل الحرام و تحریم الحلال (خازن ج 1 ص 499) یہاں تک شرف فعلی کی نفی تھی۔
Top