Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور آپ ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے جسے ہم نے اپنی آیات دیں پھر وہ ان سے نکل گیا۔ پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا
(1) امام فریابی، عبد الرزاق، عبد بن حمید، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، طبرانی اور ابن مردویہ نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی تھا جس کو بلعم بن ابر کہا جاتا تھا۔ (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے چند طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ بلعم بن باعوراء تھا اور دوسرے الفاظ میں بلعام بن عامر تھا یہ آدمی ہے جسے اسم اعظم عطا کیا گیا تھا اور بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا۔ (3) امام ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ مدینہ الجبارین میں سے ایک آدمی تھا جس کو بلعم کہا جاتا تھا وہ اسم اعظم کو جانتا تھا جب موسیٰ وہاں جا کر اترے تو اس کے چچا کے بیٹے اور اس کی قوم اس کے پاس آئی اور کہا اے موسیٰ نیا آدمی ہے اور اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے اگر وہ ہم پر غالب آگیا تو ہم کو ہلاک کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہم سے واپس لوٹا دے۔ اس نے کہا میں موسیٰ اور ان کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے واپس لوٹنے کی دعا کروں تو میری دنیا اور میری آخرت دونوں ختم ہوجائیں گی۔ وہ برابر اس کو کہتے رہے یہاں تک کہ اس نے ان کے لئے بددعا کردی تو وہ اس حال اور کیفیت سے نکل گیا جس میں وہ تھا۔ اور فرمایا لفظ آیت ” ان تحمل علیہ یلھث او تتر کہ یلھث “ یعنی اگر وہ حکمت کو اٹھائے تو اسے نہیں اٹھا سکتا تو اس کو نہ اٹھا سکے۔ اور اگر چھوڑ دے تو خیر اور بھلائی کا راستہ نہ پاسکتا جیسے کہ کتا اگر وہ بیٹھا ہو تب بھی ہانپتا ہے۔ اور اگر بھاگے تب بھی ہانپتا ہے۔ (4) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں ایک آدمی کا ذکر ہے جس کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ اس کی تین دعائیں قبول کی جائیں گی اس کی بیوی تھی اور اس میں سے اس کا ایک لڑکا تھا۔ اس عورت نے کہا اس میں سے میرے لئے ایک دعا کرو اس نے کیا تیرے لئے ایک دعا ہوگی تو کیا چاہتی ہے ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ بنی اسارئیل میں مجھے سب سے زیادہ خوبصورت عورت بنا دے۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو وہ عورت بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ خوبصورت عورت بن گئی۔ جب اس عورت نے جان لیا کہ اس کی مثل حسین و جمیل ان میں کوئی بھی نہیں ہے۔ تو اس نے اس سے اعراض کرلیا اور دوسری چیز کا ارادہ کرنے لگی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس کو کتیا بنا دے۔ تو وہ کتیا بن گئی اور اس کی دو دعائیں پوری ہوگئی اور ان کا حق اس سے ختم ہوگیا پھر اس کے بیٹے اس کے پاس آئے اور کہا اس پر ہم کو کوئی قرار اور سکون نہیں کہ ہماری ماں کتیا بن گئی کہ لوگ ہم کو اس کے ذریعے عار دلاتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیی سے دعا کی کہ اس کو اس حال میں لوٹا دیجئے۔ جس پر وہ تھی اس نے اللہ سے دعا کی تو وہ اس حال میں لوٹ آئی جیسے وہ تھی۔ تو تینوں دعائیں ختم ہوگئیں اور اس کو البسوس کا نام دیا گیا۔ (5) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایک آدمی ہے جسے بلعم کہا جاتا تھا۔ اہل یمن میں سے تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی آیات دی تھیں تو اس نے ان کو چھوڑ دیا۔ (6) امام عبد بن حمید، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، طبرانی اور ابن مردویہ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ امیہ بن ابی صلت نقفی تھا۔ اور دوسرے الفاظ میں کہ یہ (آیت) تمہارے ساتھی امیہ بن ابی صلت کے بارے میں نازل ہوئی۔ (7) امام ابن عساکر نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ امیہ بن ابی صلت کی بہن فارعہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی آپ نے اس سے فرمایا کیا تیرے بھائی کے اشعار میں سے تجھے کچھ یاد ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ نبی ﷺ نے فرمایا اے فارعہ تیرے بھائی کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس کو الہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں دی تھیں پھر وہ ان سے کھسک گیا۔ (8) امام ابن عساکر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کی ہے کہ امیہ بن ابی صلت نے کہا۔ الا رسول لنا منا یخبرنا ما بعد غایتنا من رأس نجرانا ترجمہ : خبر دار ہمارا ایک رسول ہے جو ہم میں سے ہے وہ ہمیں ایسے امور کی خبر دیتا ہے جو ہماری موت کے بعد وقوع پذیر ہونے والے ہیں وہ نجران کے سرداروں میں سے ایک ہے۔ راوی نے کہا کہ پھر امیہ بحرین کی طرف نکال اور رسول اللہ ﷺ نے دعویٰ نبوت فرمایا امیہ بحرین میں آٹھ سال رہا پھر وہ آیا اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی جبکہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے رسول اللہ ﷺ نے اس کو اسلام کی طرف بلایا اور اس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم یس والقرآن الحکیم “ پڑھیں یہاں تک کہ آپ اس سے فارغ ہوئے تو امیہ کو دا اور اپنے پاؤں گھسیٹے ہوئے چل پڑا۔ قریش نے بھی اس کی اتباع کی انہوں نے پوچھا اے امیہ تو کیا کہتا ہے : اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ حق پر ہیں قریش نے کہا پھر کیا تو اس کی اتباع کرے گا ؟ اس نے کہا یہاں تک کہ میں آپ کے معاملہ میں خوب غوروفکر کرلوں پھر امیہ شام کی طرف نکل گیا اور بدر کے واقعہ کے بعد آیا اور ارادہ رکھتا تھا کہ مسلمان ہوجائے، لیکن جب اس کو بدر کے مقتولین کے بارے میں خبر دی گئیں تو اس نے اسلام لانے کا ارادہ ترک کردیا۔ اور طائف کی طرف لوٹ گیا اور وہاں مرگیا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” واتل علیہم بنا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “۔ (9) امام عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابن عساکر نے نافع بن عاصم بن عروہ بن مسعود (رح) سے روایت کیا کہ میں اس حلقہ میں تھا جس میں عبد اللہ بن عمر ؓ تھے قوم میں سے ایک آدمی نے یہ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ پڑھی جو کہ سورة اعراف میں ہے فرمایا کیا تم جانتے ہو وہ کون ہے ؟ ان میں سے بعض نے کہا وہ صیفی بن الراھب اور ان کے بعض نے کہا وہ بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی بلعم ہے فرمایا نہیں لوگوں نے کہا وہ کون ہے ؟ فرمایا امیہ بن ابی صلت ہے۔ (10) امام ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت ” واتل علیہم بنا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں فرمایا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی تھا جس کو بلعم بن باعورا کہا جاتا ہے۔ انصار کہا کرتے تھے وہ ابن الراھب ہے جس کے لئے مسجد الثقاق بنائی گئی اور ثقیف کہتے تھے وہ امیہ بن ابی صلت ہے۔ (11) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ صیفی بن راھب ہے۔ (12) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اس میں بنی اسرائیل کے ایک نبی بلعم کا ذکر ہے اس کو نبوت دی گئی اس کی قوم نے اس کو رشوت دی کہ وہ خاموش رہیں اس نے ایسا ہی کیا اور قوم کو حچوڑ دیا ان کے حال جس پر وہ تھے۔ (13) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فانسلخ منھا “ یعنی اس سے علم کو کھینچ لیا گیا اور فرمایا لفظ آیت ” ولو شئنا لرفعنہ بھا “ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو علم کے ساتھ (اس کا رتبہ) بلند کردیتا۔ (14) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کے نبی موسیٰ نے بلعام بن باعورا کو مدین کے بادشاہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کو اللہ کی طرف طلائے بلعام مستجاب الدعوات تھا اور وہ بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا موسیٰ تکالیف میں اس کو آگے کردیتے تو مدین کے بادشاہ نے اس لاجواب کرکے خاموش کردیا۔ اور اس کو عطیہ دے کر خوش کردیا تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کا دین چھوڑ دیا اور اس کا دین اختیار کرلیا تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “۔ (15) امام ابن ابی حاتم نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کو جانتا تھا کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہوتی۔ (16) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک مثال ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی اس شخص کے لئے جس پر ہدایت کو پیش کیا گیا مگر اس نے انکار کیا اس کے قبول کرنے سے اور اس کو چھوڑ دیا (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ولو شئنا لرفعنہ بھا “ یعنی اگر ہم چاہتے تو ہم اس کو ہدایت عطا فرما کر اس کا درجہ بلند فرما دیتے تو شیطان کے لئے اس پر راستہ نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ آزمائش میں مبتلا فرماتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے (فرمایا) لفظ آیت ” ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھوہ “ فرمایا مگر اس نے انکار کیا ہدایت کو قبول کرنے سے (پھر فرمایا) ” فمثلہ کمثل الکلب “ تو اس کی مثال کتے جیسی ہے قتادہ (رح) نے فرمایا یہ کافر کی مثال ہے جس کا دل اس طرح مردہ ہیں جیسے کتوں کے دل مردہ ہوتے ہیں۔ یہود و نصاری کا علم پر عمل نہ کرنے کی مذمت (17) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے (رح) نے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ یہودی و نصاری اور حنفاء میں سے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اور اپنی کتاب کا علم عطا فرمایا تھا ” فنسلخ منھا “ وہ اسی سے کتراکر نکل گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کتے کی مثال بنا دیا۔ (18) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” لرفعنہ بھا “ کے بارے میں فرمایا یعنی اگر ہم چاہتے تو ہم اس سے اسے دور کردیتے ” ولکنہ اخلد الی الارض “ لیکن وہ تو پستی کی جانب ٹھہر گیا ” ان تحمل علیہ یلھث او تتر کہ یلھث “ یعنی اگر تو اس کو بھگائے اپنی سواری کے ساتھ اور اپنے پاؤں کے ساتھ (تو ہانپنے لگے) مثال اس شخص کی ہے جو کتاب کو پڑھتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا۔ (19) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکنہ اخلد الی الارض “ لیکن وہ پستی کی جانب جھک گیا تو اسے نکال دیا گیا۔ (20) امام عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ان تحمل علیہ “ کے بارے میں فرمایا اگر تو اس پر وسعت (یعنی طاقت) کو پالے۔ (21) امام ابن منذر اور ابو الشیخ نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان تحمل علیہ یلھث “ یعنی وہ کتے کا دل کاٹا ہوا ہوتا ہے (گویا) اس کی عقل نہیں ہوتی مثال اس شخص کی ہے جو ہدایت کو چھوڑ دیتا ہے (گویا) اس کی عقل نہیں ہوتی۔ بیشک عقل کالی ہوتی ہے وہ پہلے بھی اور بعد میں بھی گمراہ ہوتا ہے۔ بلغم بن باعور کا تذکرہ (22) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے ابو معتمر (رح) سے روایت کی ہے کہ ان سے اس آیت ” واتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے سیار کی طرف سے بیان کیا کہ وہ ایک آدمی تھا جو کو بلعام کہا جاتا تھا اس کو نبوت دی گئی تھی۔ اور وہ مستحاب الدعوات تھا۔ پھر جب موسیٰ بنی اسرائیل کی طرف آئے اور اس زمین کا ارادہ کیا جس میں بلعام تھا۔ تو وہ لوگ یہ خبر سن کر خوف زدہ اور سخت مرعوب ہوئے وہ لوگ بلعام کے پاس آئے اور کہا کہ اس آدمی کے لئے آپ اللہ تعالیٰ سے بددعا کرو۔ اس نے کہا یہاں تک کہ میں اپنے رب سے مشورہ کرلوں پھر اس نے ان پر بددعا کرنے کی اجازب طلب کی اس کو کہا گیا ان پر بددعا نہ کر ان میں میرے بندے ہیں اور ان میں ان کے نبی ہیں اس نے اپنی قوم سے کہا میں نے ان بددعا کرنے کا مشورہ کیا تھا تو مجھ کو منع کردیا گیا۔ راوی نے کہا پھر لوگوں نے اس کو ھدیہ دئیے تو اس نے ان کو قبول کرلیا پھر اس کی طرف اور کہا اللہ تعالیٰ سے ان پر بددعا کرو اس نے کہا یہاں تک میں مشورہ کرلوں اس نے اجازت طلب کی تو کچھ جواب نہ ملا۔ تو اس نے کہا میں نے مشاورت طلب کی مگر مجھے کوئی جواب نہیں دیا گیا لوگوں نے کہا اگر تیرا رب ناپسند کرتا ہے کہ تو ان پر بددعا کرے تو ضرور تجھے منع کردیتا جیسا کہ اس نے پہلی بار منع کیا تھا۔ چناچہ وہ ان کے خلاف دعا کرنے لگا۔ جب اس نے دعا شروع کی تو اس کی زبان پر اپنی ہی قوم کے خلاف بددعا جاری ہوگئی۔ جب اس نے دعا کی کہ میری قوم کو فرح دیدے تو اس کی زبان پر جارہ ہوگیا کہ موسیٰ اور اس کے لشکر کو فتح دیدے لوگوں نے کہا دیکھ رہے ہیں کہ تم ہمارے ہی خلاف دعا کر رہے ہو۔ اس نے کہا میری زبان پر نہیں جاری ہوتا مگر اسی طرح اگر میں ان پر بددعا کرتا تو میری دعا قبول نہ ہوتی۔ لیکن میں ایسا کام تم کو بتاتا ہوں قریب کہ ان کی ہلاکت اس میں ہوگی اللہ تعالیٰ زنا کو ناپسند فرماتے ہیں۔ اگر وہ زنا میں مبتلا ہوجائیں تو وہ ہلاک ہوجائیں گے تم عورتوں کو نکالو اور وہ مسافر قوم ہے۔ قریب ہے کہ وہ زنا کریں گے اور ہلاک ہوجائیں گے پھر ایسا ہی ہوا عورتوں کو نکال دیا گیا۔ وہ ان کے پاس آتیں تو وہ لوگ زنا میں واقع ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون کو مسلط کردیا جس سے ان میں سے ستر ہزار آدمی مرگئے۔ (23) امام ابو الشیخ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واقتل علیہم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس نام بلعم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام کو خوب اچھی طرح جانتا تھا موسیٰ نے ان سے جنگ کی ستر ہزار افراد کے ساتھ۔ اس کی قوم (بلعم) کے پاس آئی اور کہا اللہ تعالیٰ سے ان کے خلاف دع اکیجئے اور جب کوئی ان سے جنگ کرتا تھا تو اس کے پاس آکر اس سے بددعا کراتے تھے تو وہ ہلاک ہوجاتے اور وہ دعا نہیں کرتا تھا یہاں تک کہ سو جاتا تھا پھر دیکھتا جو کچھ نیند میں اس کو جو حکم کیا جاتا۔ اس نے نیند کی اس کو کہا گیا ان کے لئے دعا کر، ان کے کے لئے بددعا نہ کرو وہ نیند سے جاگا اور اس نے بددعا کرنے سے انکار کردیا اور اپنی قوم سے کہا کہ تم ان کے لئے عورتوں کو آراستہ کرو جب وہ ان کو دیکھیں گے تو صبر نہیں کرسکیں گے یہاں تک کہ گناہوں میں پڑجائیں گے پھر تم لوگ ان پر غالب آجاؤ گے۔
Top