Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 13
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً١ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ١ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
فَبِمَا : سو بسبب (پر) نَقْضِهِمْ : ان کا توڑنا مِّيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد لَعَنّٰهُمْ : ہم نے ان پر لعنت کی وَ : اور جَعَلْنَا : ہم نے کردیا قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل (جمع) قٰسِيَةً : سخت يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام عَنْ : سے مَّوَاضِعِهٖ : اس کے مواقع وَنَسُوْا : اور وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : انہیں جس کی نصیحت کی گئی وَلَا تَزَالُ : اور ہمیشہ تَطَّلِعُ : آپ خبر پاتے رہتے ہیں عَلٰي : پر خَآئِنَةٍ : خیانت مِّنْهُمْ : ان سے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : تھوڑے مِّنْهُمْ : ان سے فَاعْفُ : سو معاف کر عَنْهُمْ : ان کو وَاصْفَحْ : اور درگزر کر اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
پس بوجہ ان کے توڑ دینے کے اپنا عہد پیمان ہم نے کی پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا وہ تباہی کرتے ہیں کلام کو اس کے ٹھکانوں سے اور وہ ۔۔ گئے فائدہ ٹھانا اس چیز سے جس کے ساتھ ان کو نصیحت کی گئی تھی اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہیں گے ان کی کسی نہ کسی خیانت پر مگر بہت کہ لوگ ان میں سے ۔ آپ معاف کردیں اور در گزر کریں اللہ تعالیٰ پر۔۔ کرتا ہے احسان کرنے والوں کو
ربط آیات ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایفائے عہد کی تلقین کی تھی وافو بالعقود اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عہد صرف تمہیں سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی عہد لیے گئے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے توسط سے ان میں سے بارہ نقیب مقرر کیے گئے بنی اسرائیل کے بارہ خاندانوں کے لیے ایک ایک نقیب تھا جو اپنے قبیلے کی نگرانی اور حفاظت کا ذمہ دار تھا۔ اللہ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ میری مدد تمہارے ساتھ ہوگی اگر تم نماز قائم کرتے رہو کے زکوۃ ادا کرتے رہو گے رسولوں پر ایمان لائو گے اور ان کی تاکید کرتے رہو گے۔ پھر اللہ کو قرض حسن دو گے یعنی محتاجوں پر خرچ کرتے رہو گے اگر ایسا کرتے رہو گے تو میں تمہاری خطا میں معاف کر دوں گا اور تمہیں باغات میں داخل کردوں گا ‘ مگر جس نے کفر کا راستہ اختیار کیا تو یقین جانو کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا تذکرہ کر کے اہل ایمان کو سمجھا دیا کہ عہد و پیمان کو پورا کرنا لازمی ہے ۔ ورنہ انسان گمراہ ہوجاتے ہیں۔ نقض عہد پر لعنت آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اس سزا کا ذکر کیا ہے جو بنی اسرائیل کو عہد توڑنے کی وجہ سے دی گئی ۔ اس جرم کی سزا نہ صردنیا میں دی گئی بلکہ انہیں آخرت میں بھی سزا ملیگی۔ ارشاد ہوتا ہے فبم نقضھم میثاقھم پس بوجہ ان لوگوں کے تو ڑ دینے اپنے پختہ عہد کو۔ یہاں مازائد ہے اور یہ تاکید کے لیے آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو سخت تاکید کی گئی تھی کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں مگر بوجہ ان کے اس عہدکو توڑ ڈالنے کے لعنھم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان پر لعنت کی حسنت کا معنی دھکیل دینا یا دور کردینا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی رحمت ومہربانی سے دور کردیا۔ یہ وہی دور ہی یا لعنت ہے جو شیستان کے حصے میں ہمیشہ کے لیے آگئی ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے تکبر کا اظہار کیا تو اللہ نے اسے دائمی طعون قرار دیا ‘ اسی طرح بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی تو اللہ نے انہیں بھی مستحق لعنت ٹھہرایا۔ سنگ دلی فرمایا لعنت کے علاوہ وجعلنا قلوبھم ۔۔ سزا کے طور پر ہم نے ان کے دل سخت کردیے۔ سنگدلی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہے ‘ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے دور ہونے والی چیزوں میں سب سے زیادہ دور سخت دل لوگ ہیں تو فرمایا کہ بنی اسرائیل کو سنگدل بنادیا گیا۔ جب دل سخت ہوجائیں ۔ تو فہم بھی معکوس ہوجاتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کی سمجھ اور فکر حزاب ہوجاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ وہ اللہ کے کلام کو اپنے مقام سے پھر دیتے ہیں۔ یعنی اصل احکام میں تحریف کردیتے ہیں ‘ دو بدل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گو یا عہد شکنی کی وجہ سے پہلے ان پر لعنت ہوئی ‘ پھر ان کے دل سخت ہوئے اور آخر میں انہوں نے اللہ کے کلام کو ہی بدل ڈالا یہ سب عہد شکنی کی سزا تھی۔ تحریف لفظی و معنوی یہودی و نصاری کی کار گزاری کا تذکرہ اگلی آیات میں آرہا ہے ‘ تاہم یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت زیادہ تحریف کی۔ یہ ان کی عادت قدیمہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب میں تبدیلیاں کرکے اسے بگاڑ تے رہتے ہیں۔ اور اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اصل کتابوں کا حصہ بہت کم رہ گیا ہے۔ اور بگاڑ والی خو د ساختہ چیزیں ان میں داخل ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں اب صریح کفر و شرک ‘ اور بےحیائی اور بد اخلاقی جیسی قبیح چیزیں موجود ہیں۔ انہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق نہایت ناروا باتیں درج کردی ہیں حالانکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ن ان انبیاء کی عصمت کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ان بدبختوں نے تحریف کے ذریعے اللہ کے پاک نبیوں کے کردار کو بھی داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ تحریف دو قسم کی ہوتی ہے یعنی لفظی اور معنوی انجیل میں تحریف لفظی کی گئی جس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سریانی انجیل میں فارقلیط کا لفظ موجود ہے اور اس کا معنی احمد ہے۔ یہ بنی آخر الزمان (علیہ السلام) کی آمد کی بشارت تھی مگر یہودیوں نے فارقلیط کی بجائے شیفع اور مدد گار کے الفاظ داخل کردیے یہی لفظی تحریف ہے۔ جو لفظ اللہ نے نازل کیا تھا اس کی جگہ دوسرا لفظ لگادیا گیا۔ حضور ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں تورات میں بھی موجود تھیں۔ اصل تورات میں یہ الفاظ تھے کہ وہ آخری نبی ﷺ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوگا۔ دس ہزار قدسیوں کی جماعت کے ساتھ آئیگا۔ اس کے دائیں ہاتھ پر آتشیں شریعت ہوگی ‘ وہ دنیا کی قوموں سے محبت کرنے والا ہوگا اور قومیں اس کے قدموں میں جمع کی جائیں گی ‘ یہ تمام نشانیاں حضور ﷺ پر صادق آتی ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے ہمراہ دس ہزار صحابہ ؓ موجود تھے۔ مگر یہودیوں نے تورات میں دس ہزار کی بجائے لاکھوں لکھ دیا تاکہ یہ پیش گوئی بنی آخرالزمان (علیہ السلام) پر ثابت نہ ہو سکے۔ امام شاہ ولی اللہ المحدث دہلوی اپنی کتاب فوزالکبیر میں لکھتے ہیں۔ کہ اہل کتاب نے لفظی تحریف سے زیادہ معنوی تحریف کی ہے۔ انہوں نے کلام الٰہی کے مطالب و معانی کو غلط رنگ میں پیش کیا اور اس طرح وہ ہدایت الٰہی سے مستقل طور پر محروم ہوگئے۔ انہیں تورات ‘ انجیل کے ذریعے نصیحت کی گئی تھی تاکہ ان کے احوال درست ہوجائیں مگر ونسواحظا مما ذکروا بہ اور اس نصحت سے مستفید ہونا بھلا بیٹھے اور اللہ کے کلام سے کچھ فائدہ حاصل نہ کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کی سابقہ تحریف کے متعلق آپ کو بہت کچھ بتا یا جا چکا ہے تاہم ان کی آئندہ تحریف کے متعلق فرمایا ولاتزال تطلع علی خآ ئنۃ منھم ‘ آپ ان کی آئندہ خیانت یعنی تحریف سے بھی مطلع ہوتے رہیں گے۔ یہ لوگ جب بھی اللہ کے کلام میں تبدیلی کے مرتکب ہوں گے۔ آپ و قتافوقتا اس پر مطلع ہوتے رہیں گے۔ فرمایا سارے اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں۔ الا قلیلا منھم ان کی ایک قلیل تعداد اللہ کی۔۔۔ کتابوں میں تحریف کی مرتکب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (علیہ السلام) کو فرمایا کہ اہل کتاب کی ان تمام تر خباثتوں کے باوجود فاعف عنھم آپ ان کو معاف کردیں واصفح اور در گزر فرمائیں نیکی پر قائم رہیں کیونکہ ان اللہ یحب المحسنین بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنیوالوں کو پسند فرماتا ہے۔ میثاق نصاری اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نصاری کے متعلق خصوصی طور پر فرمایا ومن الذین قالوا انا نصری اپنے آپ کو نصاری کہلانے والے لوگوں سے۔ نصاریٰ یا نصرانی انصار کے مادہ سے ہے جس کا معنی مدد گار ہے سورة صف میں موجود ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے کہا من انصاری الی اللہ “ اللہ کے دین کی خاطر میری کون مدد کرے گا ” قال الحواریون نحن انصار اللہ “ تو حواریوں نے کہا کہ ہم مطلوبہ مدد پر تیار ہیں اس وجہ سے انہیں نصرانی کہاجاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں۔ کہ نصاری کی نسبت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے گائوں ناصرہ کی طرف ہے۔ بہر حال جو لوگ اپنے آپ کو نصاری کہتے ہیں۔ وہ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں رکھتے۔ نہ انجیل پر ان کا صحیح ایمان ہے۔ بہرحال فرمایا کہ جن لوگوں نے نصاری ہونے کا دعوی کیا اخذنا میثاقھم ‘ ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔ ” فنسوا حظامما ذکروا بہ مگر وہ اس چیز سے فائدہ اٹھانا بھول گئے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی۔ فرمایا اس کے نتیجہ میں فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضآء ہم نے ان کے درمیان عداوت اور دشمنی اور کینہ ڈال دیا یہ دنیا میں ہی ان کو سزادے دی گئی کہ وہ ایک دوسرے سے کے دشمن بن گئے۔ یہ سب کچھ عہد شکنی کا نتیجہ تھا کہ ان پر لعنت کی گئی اور ان کے دلوں کو سخت بنادیا گیا۔ پھر انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کی اور اصل کتاب کے احکام کو بھول گئے نصاری کے متعلق خاص طور پر فرمایا کہ انہیں آپس کی دشمنی اور عداوت کی سزا دی گئی الی یوم القیمۃ جو ہمیشہ انہیں ملتی رہیگی۔ یہاں پر قیامت کے دن سے مراد یوم آخرت نہیں بلکہ اس سے لمبا عرصہ مراد ہے۔ ان معانی کی مثال زمانہ جاہلیت کے شاعر عبید ابن ابرص کے کلام سے ملتی ہے۔ یہ شخص اپنے زمانے کا عظیم شاعر تھا مگر حضور ﷺ کی ولادت سے اکیس سال پہلے مر گیا تھا۔ عرب کے کسی علاقے کا بادشاہ قبیلہ بنی اسد پر ناراض ہوگیا اور اس نے قتل عام کا حکم دے دیا ۔ شاعر نے کھڑے ہو کر بادشاہ کے سامنے قصیدہ پڑھا اور معافی کی درخواست ان الفاظ میں کی۔ انت الملیک علیھم وھم العبید الی القیمۃ تم بادشاہ ہو خدا کے لیے ان پر رحم کرو ۔ یہ قیامت تک تمہارے غلام رہیں گے مطلب یہ کہ لوگ لمبے عرصے تک تمہارے مطیع و فرمانبردار رہیں گے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے نصاری کے متعلق فرمایا کہ ان میں غیر محدود عرصہ کے لیے عداوت ڈال دی گئی۔ اہل کتاب مسلمان جن خرابیوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے متعلق کیا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سب خرابیاں خود اہل ایمان میں بھی پیدا ہوچکی ہیں۔ حضور کریم ﷺ نے اپنی امت کے متعلق فرمایا ” لتتبعن سنن من قبلکم حذ۔۔۔ تم بھی پہلے لوگوں کے نقش قدم پر ہی چلو گے۔ جس طرح جوتا جوتے کے ساتھ برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح تم میں اور سابقہ امتوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ چناچہ جو جو خرابیاں اللہ نے اہل کتاب کی گنوائی ہیں وہی خرابیاں اس امت میں بھی موجود ہیں۔ نقض عہد مسلمان قوم کا شیوہ بن چکا ہے۔ عہد انفرادی ہو یا اجتماعی ملکی سطح کا ہو یا بین الاقوامی اس کی خلاف ورزی کی مثالیں زبان زد عام ہیں اسی طرح تمام مسلم اقوام میں سنگدلی کی بیماری بھی پیدا ہوچکی ہے ‘ کوئی کسی کے ساتھ ا ؎ بخاری ص 491 402 ‘ 8801/ج 2 ‘ مسلم 329/ج 2 و مستدرک 129 ج 1 و ترمذی 37 (فیاض) احسان و مروت کا سلوک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آج محسن لوگ مفقود ہیں جو قرآن پاک کے اس حکم کی تعمیل پر کمر بستہ ہوں ان اللہ یامر۔۔ بالعدل والاحسان “۔ اس کے بجائے خود مسلمانوں میں سنگدلی پیدا ہوچکی ہے ‘ افسوس کا مقام ہے کہ اب مسلمانوں سے طہارت ‘ سماحت ‘ اخبات اور عدل جیسے اصول منہ موڑ چکے ہیں۔ جہاں تک تحریف کا تعلق ہے مسلمان لفظی تحریف پر تر قادر نہیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے ہر فرقے میں کسی نہ کسی حد تک معنوی تحریف ضرور پائی جاتی ہے اپنے ذاتی مفاد یا اپنے فرقہ کو تقویت پہنچانے کے لیے قرآن پاک کے مطالب و معانی کو غلط رنگ میں پیش کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی غلط تاویلات کرنا تحرایف معنوی ہی تو ہے۔ فرقہ پرستی سید جمال الدین افغانی عالم اسلام کے بہت بڑے راہنما ہوئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی فرقہ پرستی سے سخت بیزار تھے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر میرا بس چلے تو دس بارہ سال کے بچوں کو چھوڑ کر باقی سب آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتاردوں۔ ان کا تجزیہ یہ تھا کہ موجودہ نسل فرقہ پرستی میں اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ اب ان کا واپس آنا ناممکن ہے۔ اہل اسلام کو راہ راست پر لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان سب کو یکدم نیست و نابود کرکے نئی نسل کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے تو شاید وہ سمجھ جائیں۔ کیونکہ موجودہ نسل اپنی ڈگر سے ہٹنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے دو سوسالہ دور حکومت میں انگریز نے تمہیں اس طرح پیس کر رکھ دیا ہے س طرح کوئی چیز کھرل میں پیسی جاتی ہے۔ انہوں نے اہل اسلام کی اجتماعیت اور خلافت کو ختم کرکے اس کی جگہ فرقہ بندی کی بیماری پیدا کردی ہے۔ اب تمہارے اندرونی خلفشار کی وجہ سے دنیا میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انگریز کا واحد مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنے دین کے ساتھ تعلق قائم نہ رہے۔ بلکہ ان کا متعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ بھی منقطع کردیا جائے۔ فرماتے تھے کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ان خرابیوں میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی نئی قوم کو اٹھائے جو ان سب کی سرکوبی کرے اور قرآن پاک کے پروگرام پر عمل پیرا ہو تو شاید حالات درست ہوجائیں۔ ورنہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ فرماتے تھے عربوں اور ترکوں کے تعلقات کا جائزہ لے لیں ان کی دشمنی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ اسی طرح مذہبی فرقہ واری ہے۔ ہر فرقہ دوسرے کے خون کاپیاسا ہے۔ یہ وہی خرابی ہے جو اہل کتاب میں نقض عہد کی وجہ سے پیدا ہوئی اور آج مسلمانوں میں بھی موجود ہے ‘ ان میں سنگدلی پیدا ہوچکی ہے ‘ احسان ختم ہوگیا ہے ‘ اخبات ‘ سماحت اور عدل کہیں نظر نہیں آتے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ تحریف کی لعنت ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی بھی عظیم مسلمان اور درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ انگریزوں کے دور میں آپ پچیس سال تک برصغیر سے جلاوطن رہے۔ آپ نے ایک سال روس میں ‘ سات سال افغانستان میں ‘ چار سالو ترکی میں اور بارہ سال سے زیادہ عرصہ مکہ مکرمہ اور دوسری جگہ بسر کیا۔ آپ بھی انگریز کے سخت مخالف تھے۔ آخر میں جب واپس ہندوستان آئے تو فرمایا کہ میری خواہش تو یہ تھی کہ عمر کے آخری لمحات حرم شریف میں گذارتا مگر میں آپ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے واپس آیا ہوں کہ بڑے طوفان برپا ہیں۔ انگریز تمہارے مذہبت کی جڑ اکھاڑ رہے ہیں مگر تم سمجھ رہے ہو کہ ہم ترقی کر رہے ہیں لہذا اپنے دین کو بچانے کے لیے قائم ہو جائو اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے دین حق کے مدد گار بن جائو ‘ ورنہ پوری دنیا میں تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی اور تم اغیار کے دست نگر بن کر رہ جائو گے۔ عیسائی فرقے الغرض ! فرمایا کہ ہم نے نصاری کے درمیان عداوت اور دشمنی ڈال دی اور وہ گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے۔ ہر فرقہ دوسرے کا دشمن بن گیا۔ آج بھی دیکھ لیں۔ رومن کیتھولک اور پر اٹسٹنٹ آپس میں کس طرح دست و گریباں ہیں ‘ برطانیہ اور سکاٹ لینڈ والوں کے تنازعہ کی بنیاد کیا ہے۔ مختلف اعتقاد رکھنے والے لوگ کبھی اکھٹے نہیں ہو سکتے۔ مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنانے والے یا تیسرا خدا تسلیم کرنے والے یا بالکل بعینہ خدا ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں۔ یہی عداوت اور اختلاف مختلف سلطنتوں کے درمیان دشمنی کی بنیاد بن چکے ہیں اللہ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ان کے لیے سزا کے طور پر ہے۔ یہ تو دنیا میں سزا مل رہی ہے۔ جب قیامت کا دن آئیگا اور حساب کتاب کی منزل آئے گی تو ان کا کیا دھرا ان کے سامنے کردیا جائے گا۔ اس دن بدبختوں کو بتایا جائے گا کہ تم اپنی بدکرداری کی وجہ سے سزا کے مستحق ٹھہرے ہو ۔ فرمایا وسوف ینبئھم اللہ بما کانوا یصنعون اور عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں بتا دے گا کہ جو کچھ وہ دنیا میں کرتے تھے۔ بہر حال اہل کتاب کی خرابیاں بیان فرما کر مسلمانوں کو خبردار کردیا گیا ہے کہ تم بھی ا ن کے نقش قدم پر چل نکلنا۔
Top