Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 13
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً١ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ١ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
فَبِمَا : سو بسبب (پر) نَقْضِهِمْ : ان کا توڑنا مِّيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد لَعَنّٰهُمْ : ہم نے ان پر لعنت کی وَ : اور جَعَلْنَا : ہم نے کردیا قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل (جمع) قٰسِيَةً : سخت يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام عَنْ : سے مَّوَاضِعِهٖ : اس کے مواقع وَنَسُوْا : اور وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : انہیں جس کی نصیحت کی گئی وَلَا تَزَالُ : اور ہمیشہ تَطَّلِعُ : آپ خبر پاتے رہتے ہیں عَلٰي : پر خَآئِنَةٍ : خیانت مِّنْهُمْ : ان سے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : تھوڑے مِّنْهُمْ : ان سے فَاعْفُ : سو معاف کر عَنْهُمْ : ان کو وَاصْفَحْ : اور درگزر کر اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
پھر انہی لوگوں کے اپنے عہد کو توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا اب ان کی حالت یہ ہے کہ کلام الٰہی کو اس کے حقیقی مواقع سے بدل دیتے ہیں اور جو نصیحت ان کو کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ یہ لوگ بھول چکے ہیں اور ان میں سے سوائے چند اشخاص کے روز مرہ آپ کو ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ لگتا رہتا ہے بہرحال ! آپ ان کو معاف فرمائیے اور ان سے در گذر کیجیے بلا شبہ اللہ تعالیٰ نیک روش اختیار کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے۔2
2 ان بنی اسرائیل نے اس عد مذکور کو توڑ ڈالا پھر ان لوگوں کے اس اپنے عہد کو توڑ دینے اور ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا اور اس سنگدلی کا اثر یہ ہے کہ یہ لوگ کلام الٰہی یعنی توریت کو اس کے حقیقی مواقع سے بدل دیتے ہیں یعنی کبھی الفاظ اور کبھی مطلب بدلتے رہتے ہیں اور اس تحریف کا اثر یہ ہے کہ جو نصیحت ان کو توریت میں کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ یہ لوگ فراموش کر بیٹھے اور بھول چکے ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے سوائے چند آدمیوں کے جو مسلمان ہوچکے ہیں۔ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کو روز مرہ ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ لگتا رہتا ہے جو ان سے ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال ! آپ ان کو معاف فرمائیے اور ان کو در گذر فرماتے رہیے اور یقین کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نیک روش اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اور خوش معاملہ لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ (تیسیر) شاید یاد ہوگا ہم کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ ایک گناہ دوسرے گناہوں کا موجب ہوتا ہے اور ایک نیکی سے دوسری نیکیوں کی توفیق عطا ہوتی ہے اسی طرح گناہ کا اثر انسانی قلب پر اور انسان کی روحانیت پر بہت برا ہوتا ہے اور روحانی قوت اور نیک اعمال کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ اسی مضمون کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے چناچہ نقض عہد اور عہد شکنی کے خوگر تھے عام طور پر نقض عہد کیا کرتے تھے حتی کہ وہ یہودی جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھے ان کی بھی خیانت اور عذر کا حال آئے دن معلوم ہوتا رہتا تھا اس لئے نقض عہد کی وجہ سے ان پر مختلف طریقوں سے عذاب نازل ہوا۔ اور صرف اس نقض عہد کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا جب کہ اس کا قاعدہ ہے جب اس کی درگاہ سے معلون قرار دیئے گئے تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دل سخت ہوگئے اور یہ سب اثرات اگرچہ بد پرہیزی سے ہوا کرتے ہیں لیکن ان کی مشیت اور ارادے کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے لعنت اور قسادت کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ان پر لعنت کی اور ہم نے ان کے قلوب کو سخت بنادیا اور اب ان کی حالت یہ ہے کہ توریت میں تحریف کرتے ہیں اور توریت کے الفاظ کو یا الفاظ کے مطالب اور معانی کو بدل دیتے ہیں اور کلام کو اس کے مواقع اور اس کے موضوع سے بدل کر بیان کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کام ان کے علماء کرتے ہوں گے اور چونکہ عوام کی خواہش کے خیال سے کرتے ہوں گے اس لئے سب ہی تحریف کے گناہ میں مبتلا تھے اور اس تحریف و تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ جو کچھ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے یعنی ان کے علم کا اکثر حصہ ان کے سینے سے نکل گیا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نصیحت کا ایک بہت بڑا حصہ جو عمل کرنے سے ان کو حاصل ہوتا اس کو فوت اور ضائع کر بیٹھے اور یہ لوگ اس قدر ان جرائم کے خوگر ہوگئے کہ آپ ان کے مکرو فریب اور خیانت و عذر کی روز مرہ کچھ نہ کچھ حالات سے واقف ہوتے رہتے ہیں مگر ہاں ! ان میں سے معدودے چند لوگ ان باتوں سے مستثنا ہیں اگر ان قلیل سے حضور ﷺ کے زمانے والے مراد ہوں تب تو یہ مطلب ہے کہ آپ آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے معاہدے کر کے توڑنا آپ ﷺ کے قتل کی سازش کرنا آپ ﷺ کے خلاف کافروں سے ساز باز کرنا وغیرہ مگر ہاں ! جو لوگ مسلمان ہوگئے۔ جیسے عبداللہ ابن اسلام اور ان کے ساتھی وہ اس قسم کی باتوں سے مستثنا ہیں۔ یہ وہ معنی ہیں جن کو ہم نے اختیار کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منھم سے پہلے اور پچھلے سب یہود مراد ہوں تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو بذریعہ وحی آئے دن ان لوگوں کی کوئی نہ کوئی خیانت معلوم ہوتی رہتی ہے اور آپ خود بھی آئے دن ان کی کسی نہ کسی خیانت کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں مگر ان میں سے معدودے چند لوگ مستثنا ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے نیک مسلمان اور آپ ﷺ کے دور میں عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی۔ آخر میں ان کے ساتھ عفو و در گذر کے برتائو کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ اپنی ناشائستہ حرکات کے باعث سزا کے متحق ہیں۔ لیکن آپ کو اسلامی تعلیم کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اپنے اخلاق کی بزرگی اور برتری کے اعتبار سے ان کے ساتھ اچھا برتائو کرنا چاہئے اور سیاسی مصالح کو پیش نظر رکھنا چاہئے جس کا مقتضایہ ہے کہ آپ ان کو معاف فرما دیں اور چشم پوشی کا برتائو کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو برائی کے بدلے میں بھلائی کرنے کے خوگر ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہود عام طور پے عہد شکنی کے عادی تھے اور ہمیشہ مختلف سزائوں اور بلائوں میں مبتلا کئے جاتے تھے لیکن یہاں جو سزا بیان کی گئی ہے وہ صرف اس نقض عہد کی ہے جو عہد مذکور ہے۔ جیسا کہ فبما نقضھم سے مفہوم ہوتا ہے وسعت کلام کی وجہ سے چونکہ مفسرین کے اقوال مختلف ہوتے ہیں مگر ہم اس کی کوشش کرتے ہیں کہ سب کے اقوال تیسیر اور تسہیل کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے آجائیں اگرچہ ان مختلف اقوال کی وجہ سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔ اس آیت سے وہ بات بھی معلوم ہوگئی جو ہم نے عرض کی تھی یعنی جب کوئی بندہ نافرمانی کر کے شرمند نہیں ہوتا تو وہ نافرمانی بہت سی نافرمانیوں اور توفیق الٰہی سے محرومیوں کا موجب ہوجایا کرتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہود کی صرف اس عہد شکنی کے باعث کہ انہوں نے اپنے عہد کو توڑ دیا ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں میں قسادت اور سختی پیدا کردیا ور سا لعنت اور قسادت کا یہ اثر ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو اس کے صحیح اور حقیقی مواقع سے بدل ڈالتے ہیں ان کے بعض اہل علم تو جرأت کر کے الفاظ بھی بدل دیتے ہیں اور بعض معانی اور مطالبہ بیان کرنے میں تحریف کرتے ہیں اور کلام کا مطلب گھڑ کر کچھ کا کچھ بیان کردیتے ہیں اور کلام کو اپنے مطلب کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اس قسم کی جرأت و بےباکی کا اثر یہ ہے کہ اس نصیحت میں سے جو ان کو کی گئی تھی بڑا حصہ فراموش کرچکے ہیں یا عمل سے جو نفع حاصل ہوتا اس کو فوت کرچکے ہیں یعنی نافرمانیوں کے باعث علم کا حصہ بھی سینے سے نکل گیا اور بےعملی کے باعث ثواب بھی فوت ہوگیا اور آئے دن ان کی جانب سے جو ایک نہ ایک خیانت ظاہر اور صادر ہوتی رہتی ہے اس سے تو آپ واقف ہی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً کبھی کوئی توریت کا حکم چھپالیا کبھی کوئی غلط دعویٰ کردیا اور ان کے بڑے جو خیانتیں کرچکے ہیں ان کا بھی علم آپ کو ہماری وحی سے ہوتا رہتا ہے مگر ہاں کچھ تھوڑے لوگ اس قسم کی خیانت سے محفوظ ہیں اور نیک وہی لوگ تھے جو موسیٰ پر اور عیسیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور نبی آخر الزماں کی بعثت کے بعد اس آخری نبی پر بھی ایمان لے آئے یہود کی مذمت اور ان کی اخلاقی خرابیاں کرنے کے بعد اپنے نبی کو عفو کرنے اور مواخذہ نہ کرنے کا حکم دیا اور آخر میں اپنی محبت کا نیک لوگوں کے ساتھ اظہار فرما دیا۔ اور یہ بات کئی مرتبہ معلوم ہوچکی ہے کہ احسان کا مفہوم بہت وسیع ہے ہر قسم کی نیکی اور بھلائی پر اس لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے یہاں کلام کی ظاہری مناسبت سے ہم نے برائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی کرنا ترجمہ کردیا ہے اور محسن کا ترجمہ اور مفہوم مذکورہ الفاظ سے ظاہر کیا ہے۔ حدیث شریف میں بھی آتا ہے واحسن الی من اساء الیک یعنی جو شخص تیرے ساتھ برائی کرے تو اس کے ساتھ بھلا کر آیت کا یہ آخری ٹکڑا عفو اور صفح کی تعلیل بھی ہے اور اس امر پر تنبیہ بھی ہے کہ جب کافر خائن کے ساتھ عفو و صفح کا حکم ہے تو دوسروں کے ساتھ یعنی جو خائن کافر نہ ہو اس کے ساتھ اس سے بھی بہتر سلوک ہونا چاہئے۔ مزید تفصیل تفسیر مظہری سے معلوم کرنی چاہئے اب اگٓے نصاریٰ کی عہد شکنی اور ان کی سزا کا ذکر ہے۔ چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)
Top