Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 13
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً١ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ١ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
فَبِمَا
: سو بسبب (پر)
نَقْضِهِمْ
: ان کا توڑنا
مِّيْثَاقَهُمْ
: ان کا عہد
لَعَنّٰهُمْ
: ہم نے ان پر لعنت کی
وَ
: اور
جَعَلْنَا
: ہم نے کردیا
قُلُوْبَهُمْ
: ان کے دل (جمع)
قٰسِيَةً
: سخت
يُحَرِّفُوْنَ
: وہ پھیر دیتے ہیں
الْكَلِمَ
: کلام
عَنْ
: سے
مَّوَاضِعِهٖ
: اس کے مواقع
وَنَسُوْا
: اور وہ بھول گئے
حَظًّا
: ایک بڑا حصہ
مِّمَّا
: اس سے جو
ذُكِّرُوْا بِهٖ
: انہیں جس کی نصیحت کی گئی
وَلَا تَزَالُ
: اور ہمیشہ
تَطَّلِعُ
: آپ خبر پاتے رہتے ہیں
عَلٰي
: پر
خَآئِنَةٍ
: خیانت
مِّنْهُمْ
: ان سے
اِلَّا
: سوائے
قَلِيْلًا
: تھوڑے
مِّنْهُمْ
: ان سے
فَاعْفُ
: سو معاف کر
عَنْهُمْ
: ان کو
وَاصْفَحْ
: اور درگزر کر
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُحْسِنِيْنَ
: احسان کرنے والے
’ ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ وہ لوگ کلام کو اس کے مواقع سے بدلتے ہیں۔ اور انھوں نے اس نصیحت کا بیشتر حصہ بھلا دیا ہے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی۔ آپ ﷺ کو ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہی ہوتی رہے گی۔ مگر (ان میں) تھوڑے ہیں جو بچے ہوئے ہیں۔ سو ان کو معاف کر دیجئے اور ان سے درگزر فرمائیے۔ بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “۔
فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً ج یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ لا وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ج وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاصْفَحْ ط اِنَّ اللہ َ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (المائدہ : 13) ” ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ وہ لوگ کلام کو اس کے مواقع سے بدلتے ہیں۔ اور انھوں نے اس نصیحت کا بیشتر حصہ بھلا دیا ہے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی۔ آپ ﷺ کو ان کی کسی نہ کسی خیانت سے آگاہی ہوتی رہے گی۔ مگر (ان میں) تھوڑے ہیں جو بچے ہوئے ہیں۔ سو ان کو معاف کر دیجئے اور ان سے درگزر فرمائیے۔ بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “۔ کوئی سرکش گروہ اللہ کا چہیتا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیشہ جب کسی قوم کو ( خواہ وہ مسلمان ہوں یا بنی اسرائیل) داعی کے منصب پر فائز کرتا ہے تو ان سے ایک عہد لیا کرتا ہے۔ چناچہ سب سے پہلے ہمیں اس عہد کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ دیکھو ! بالکل اسی طرح کا عہد ہم نے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا اور پھر جب انھوں نے اس سے انحراف کرتے ہوئے عہدشکنی کی تو ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ دراصل ان سب باتوں سے امت مسلمہ کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اب تم جس منصب پر فائز ہو ‘ تمہارے علاوہ دوسری کوئی قوم اس منصب پر فائز نہیں۔ تم آخری رسول کی آخری امت ہو ‘ اگر تم نے اس منصب کی عہدشکنی کی تو کچھ عجب نہیں کہ تم پر بھی اسی طرح عذاب الٰہی آجائے اور جس طرح آج تم بنی اسرائیل کی جگہ فائز کیے گئے ہو ‘ کل تمہاری جگہ کسی اور کو فائز کردیا جائے۔ اللہ نے ہمیشہ اپنے دین کا کام انسانوں ہی سے لیا ہے اور چونکہ اس کی کسی قوم سے رشتہ داری نہیں ہے ‘ لہٰذا ناروا عنایت بھی کسی پر نہیں ہوتی۔ اللہ کا قانون اور سنت یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اور گروہ اس کے ساتھ کیے گئے عہدوں کو پورا کرتا ہے ‘ تب تک اللہ کی بےپایاں عنایات اس کے شامل حال رہتی ہیں اور جب کوئی گروہ اس سے سرکشی کرتا ہے تو پھر وہ گروہ خواہ ہزارہا نبیوں کی اولاد ہی کیوں نہ ہو یا اس امت کا رشتہ نبی ِآخر الزماں ہی سے کیوں نہ ہو ‘ وہ ان کو اس عظیم منصب سے معزول کردیتا ہے۔ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ عربوں نے جب نااہلی کا ثبوت دیا تو بغداد سرنگوں ہوگیا اور تاتاریوں کے ہاتھوں ان پر ایسی تباہی لائی گئی کہ لگتا تھا کہ دین اسلام کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا۔ لیکن اللہ کی یہی سنت غالب آئی اور اللہ کا قانون حرکت میں آیا اور اس نے خود تاتاریوں کو اسلام کی دولت بخشی اور انہی میں سے ایسے لوگ اٹھائے جو تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے بالآخر خلافت عثمانیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن جب انھوں نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی برتی تو قدرت نے ان کو بھی ختم کردیا۔ نتیجتًا آج تمام امت مسلمہ اپنی گردن میں ذلت کا طوق ڈالے اپنی سزا سے گزر رہی ہے اور تاریخ اس بات کے انتظار میں ہے کہ دیکھیں ! امت مسلمہ کا کونسا گروہ اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چون (54) سال پہلے اللہ نے اس ملک کے رہنے والوں کو شاید اسی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے چنا تھا۔ یہ آیات ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ لوگو ! اپنے منصب کو سمجھو ‘ اپنے میثاق کو یاد رکھو۔ اس میں تمہاری عزت و زندگی کی بقا ہے۔ ان آیات میں بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ‘ مگر انھوں نے جب عہدشکنی کا ارتکاب کیا تو پھر ان کے ساتھ کیا ہوا ؟ ان نکات پر نظر رکھتے ہوئے ہم ان آیات کو دیکھتے ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے جب یہ ذمہ داری ان پر ڈالی اور ان سے عہد لیا تو کہا تھا کہ (میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ ہر وقت تمہاری مدد کروں گا۔ لیکن میری کچھ شرائط ہیں اور وہ یہ کہ تم نماز پڑھتے رہنا، زکوٰۃ ادا کرتے رہنا ‘ جو انبیاء ہم بھیجیں گے ‘ ان پر ایمان لانا ‘ ان کے دست راست بننا اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہنا) مگر ان لوگوں نے ان میں سے ایک ایک عہد کو توڑا۔ نہ اللہ کے بھیجے ہوئے قاصدوں کی مدد کی ‘ نہ دین کے احیاء اور نفاذ کے لیے ہاتھ پائوں ہلائے ‘ نہ اقامت صلوٰۃ کی پابندی کی اور نہ ہی اقامت زکوٰۃ پر قائم رہے یعنی ان کے ذمے صرف اللہ سے وفاداری کرنا تھا۔ جب انھوں نے اللہ کی وفاداری کو چھوڑ کر نجانے اور کس کس سے وفاداری شروع کردی تو انھیں سخت ترین سزا دی گئی۔ فرمایا کہ ہم نے سزا کے طور پر ان پر لعنت کی۔ ایک اور جگہ اس کی وضاحت کے لیے اللہ نے قرآن میں یہ الفاظ استعمال کیے ہیں : وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّہِط (البقرۃ : 61) (ہم نے ان پر ذلت اور مسکنت کی پھٹکار ماری اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے) یعنی لعنت کی ایک صورت ذلت ‘ مسکنت اور غضب ہے۔ گویا اللہ جس قوم کو سزا دینا چاہتا ہے ‘ اسے اپنی رحمت سے دور کردیتا ہے۔ اب بنی اسرائیل ہی کی تاریخ دیکھیں کہ کہاں تو وہ حال کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کچھ زمانے قبل تک ‘ پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر باقی پوری تاریخ میں اللہ نے اس قوم کو کتنی سربلندیوں سے نوازا ‘ اعزازات عطا کیے اور انھیں اپنا چہیتابنا کر پالا ‘ یہاں تک کہ ان کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ شاید ہمارا اللہ سے کوئی رشتہ ہے اور کہاں پھر یہ حال کہ اللہ سے عہدشکنی اور بےوفائی اور اللہ کی بجائے دوسروں سے تعلقات استوار کرنے کے باعث اللہ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور رحمت کی دوری کے باعث ان کے دل سخت کر دئیے گئے۔ اللہ کے عذاب کی پہلی نشانی دلوں کا سخت ہوجانا ہے جب بھی کوئی امت یا افراد اللہ کی رحمت سے دور کیے جاتے ہیں اور اس کے غضب کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ ان کے دلوں کو سخت کردیتا ہے کیونکہ جب بھی کوئی اللہ سے کیے گئے عہد سے اعراض و انحراف کرتا ہے تو اللہ اس کے نفس لوّامہ کو حکم دیتا ہے کہ تم اس کو ملامت کرو کہ یہ لوٹ آئے۔ لیکن جب آدمی ضمیر کی بات بھی نہیں سنتا اور قرآن سے دور ہوتا چلا جاتا ہے تو مسلسل اس کے اس عمل سے قانون قدرت حرکت میں آتا ہے اور غفلت کا ایک سیاہ دھبہ اس کے دل پر پڑجاتا ہے۔ اب اگر تو وہ شخص فوراً اللہ سے توبہ کرلے ‘ تو وہ دھبہ ہٹا دیا جاتا ہے اور اگر وہ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا دھبہ پڑجاتا ہے۔ اگر وہ پھر بھی نیکی کی طرف نہیں آتا اور توبہ نہیں کرتا تو حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر اس شخص کا دل مسلسل داغ داغ ہوتا چلا جاتا ہے ‘ حتیٰ کہ ایک دن ایسا آتا ہے کہ اس کا دل قبولیت کی استعداد سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی کو دلوں پر مہر لگنا کہتے ہیں۔ یاد رکھئے ! مہر لگنے کا فیصلہ تو اللہ کی جانب سے ہوتا ہے ‘ مگر اس کا سبب وہ برا آدمی خود بنتا ہے جو مسلسل گناہ سے اپنے دل کے شفاف آئینے کو داغ دار کر کے اس کی نورانیت کھو دیتا ہے کیونکہ اللہ کسی پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ یہی معاملہ بنی اسرائیل کے ساتھ بھی ہوا کہ انھوں نے اپنی مسلسل نافرمانیوں کے باعث خود کو اللہ کی رحمت سے دور کرلیا اور اللہ نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ اب انھیں نصیحت بھی کرو تو یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ کسی پتھر سے مخاطب ہیں۔ گویا ایک دیوار ہے جس سے آپ سر پٹخ رہے ہیں۔ جو لوگ دعوت و تبلیغ کا تجربہ رکھتے ہیں ‘ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات ایسے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑجاتا ہے کہ ان میں قبولیت کی کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی اور انسان سوچتا ہے کہ کاش ! میں نے اس شخص کو دعوت ہی نہ دی ہوتی۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی محرومی کا فیصلہ کیا جا چکا ہوتا ہے اور ان کے دلوں کو سخت کردیا جاتا ہے۔ اہل کتاب کے دل کی سختی تاریخ کے آئینے میں بعض مقامات پر قرآن نے انسانوں کے دلوں کی سختی کو پتھروں سے بھی بڑھ کر بتایا ہے اور واقعی ایسا دیکھا گیا کہ انسان جب کسی پر ظلم توڑنے پر آتا ہے تو درندوں سے ہزار درجہ بڑھ کر درندہ بن جاتا ہے۔ مثلاً وہ لوگ یا حکومتیں جو دنیا میں حقوق کا چارٹر لیے پھرتے ہیں ‘ کسی ملک میں مارشل لاء آئے تو وہاں کے رہنے والوں کے حقوق کی فکر انھیں ستانے لگتی ہے ‘ لیکن خود جب انہی حقوق کے علمبرداروں کو کسی قوم پر حکومت یا جارحیت کا موقع ملتا ہے تو پھر ظلم کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں رہ جاتا جو توڑا نہ جاتا ہو۔ مثلاً کبھی جیتے جی انسانوں کو کسی مہذب قوم نے پنجروں میں بند نہیں کیا ہوگا ‘ کبھی کسی کے مسلمان ہونے کے جرم میں ان کی داڑھیاں نہیں مونڈھی ہوں گی ‘ کبھی ان کو برہنہ کر کے ان کی تصویریں نہیں لی گئی ہوں گی ‘ کبھی اسرائیل کی طرح کسی اور قوم نے زندہ بچوں کو اٹھا کر زندہ حالت میں ان کے اعضاء ان کے جسموں سے نکال کر ان کی لاشوں سے فائدہ نہیں اٹھایا ہوگا۔ یہ بات کوئی نئی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی لیبیا کے جنگلوں میں انہی اہل کتاب کہ جن کا یہاں ذکر ہے (کہ ان کا دل سخت کردیا گیا) انہی لوگوں نے طرابلس کے میدانوں میں ہوائی جہاز سے ہزاروں کی تعداد میں انسانوں کو زندہ گرایا اور وہ لوگ تڑپ تڑپ کے بھوک سے مرے ‘ مگر ان حقوق کے علمبردار مہذب لوگوں نے کبھی نہ پوچھا کہ ان کی لاشیں کہاں گئیں۔ 1857 ء میں صرف دہلی میں چودہ ہزار علماء کو اس طرح پھانسی پر لٹکایا گیا تھا کہ جب انھیں رسہ باندھ کر لٹکا دیا جاتا تو نیچے آگ سلگائی جاتی اور جب ان کی لاشیں جل کر چرڑمرڑ ہوجاتیں تو انگریز عورتیں نیچے کھڑے ہو کر تالیاں پیٹتی تھیں کہ انگریزی کا آٹھ بن گیا۔ ہمارے دلوں کی کیفیت موجودہ حالات کے تناظر میں ان اہل کتاب نے جب بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا تو ان کی فوج اس حال میں یروشلم اور بیت المقدس میں داخل ہوئی تھی کہ ان کے گھوڑوں کے صرف پائوں ہی نہیں ‘ پنڈلیاں تک خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ گلیوں میں خون کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ پھر جب انہی سے نوے (90) سال کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اللہ کے اس گھر کو آزاد کروایا تو مصنف سٹینلے پول لکھتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی صرف اپنے زمانے کا ہی نہیں بلکہ تمام زمانوں کا بڑا آدمی تھا۔ وہ لکھتا ہے : صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس نے کسی ایک آدمی کی نکسیر تک بھی نہیں پھوٹنے دی اور پکڑے جانے والے تمام قیدیوں میں سے کچھ کو اس کے بھائی عادل نے اور زیادہ تر کو خود اس نے فدیہ دے کر آزاد کرایا بلکہ قیدیوں کو رخصت کرتے ہوئے ضرورت کا سامان اور پیسے تک دئیے کہ وہ حالات کی بہتری تک گذارہ کرسکیں۔ ہم تو ایسی تاریخ رکھنے والے لوگ ہیں ‘ مگر پھر بھی ہم نے کبھی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن وہ لوگ جن کے دل اللہ نے سخت کر دئیے ‘ ہم نے ان کے چہرے کل تک تاریخ میں دیکھے تھے اور آج سورج کی روشنی میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ واقعی وہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے بھائی بندوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ جس طرح آج پورے عالم میں مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم ہے اور اس کے خلاف کسی اسلامی ریاست سے کوئی مؤثر آواز بلند نہیں ہو رہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے دل بھی سخت ہوگئے ہوں ‘ کیونکہ قرآن ہم ہی سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے : اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّلا وَلاَ یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُفَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْط وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (الحدید : 16) (کیا مسلمانوں پر ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پسیج جائیں اور نرم پڑجائیں اور مسلمان کہیں ایسے نہ ہوجائیں جیسے کہ ان سے پہلے اہل کتاب تھے کہ جب انحراف اور معصیتوں کی عمر دراز ہوتی چلی گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور پھر ان کے بیشتر لوگ نافرمان ہی نکلے) ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ہم بھی تو ایسے نہیں ہوگئے۔ ایسی قوم جس پر اللہ لعنت کر دے ‘ نتیجتاً اس کا دل اس حد تک سخت ہوجاتا ہے کہ اللہ کی کتابیں بھی اس کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہتیں۔ چناچہ جب اہل کتاب اس لعنت کا شکار ہوئے تو نماز جیسا فریضہ نہ صرف ان کے عمل سے نکل گیا ‘ بلکہ تورات سے اس کی فرضیت تک کا ذکر نکال باہر کیا۔ مسلمانوں سے دشمنی اور حسد کے مرض میں مبتلا ہو کر حضرت ابراہیم۔ ‘ ان کی دعوت ‘ مرکز دعوت ‘ ان کی عظیم قربانی اور بیت اللہ تک کی تاریخ بالکل بدل کر رکھ دی۔ پھر فرمایا کہ ” انھوں نے بھلا دیا اس نصیحت کا بیشتر حصہ ‘ جو انھیں نصیحت کی گئی تھی “۔ قرآن کریم سے پہلے جس کتاب کو الکتاب کہا جاتا ہے ‘ وہ توریت ہے ‘ انجیل اس کا ضمنی ایڈیشن ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو توریت کی شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ کیونکہ انجیل میں شریعت نہیں آئی۔ اس لیے جس کتاب میں تحریف کا ذکر ہے ‘ وہ توریت ہے اور اسی کے بیشتر حصہ کو بھلا دیا گیا تھا اور جب میثاق ہی توڑ ڈالا گیا تو پھر توریت سے ان کا کیا تعلق باقی رہتا ؟ اسی میثاق کی بدولت تو وہ کتاب کے پابند کیے گئے تھے۔ مگر جب انھوں نے میثاق توڑا تو پھر کتاب سے جس طرح کا تعلق چاہا ‘ رکھا ‘ جب چاہا توڑ دیا۔ جو حکم چاہا لے لیا ‘ جو چاہا چھوڑ دیا۔ اور یہاں ” حَظًّا “ کا دوسرا معنی نصیب لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے جس چیز کے ذریعے ان کی قسمت بنائی ‘ اس کو بھلا کر یا اس کے بہت سے احکام عمل میں نہ لا کر اپنی قسمت بگاڑ لی۔ قرآن کریم اہل کتاب کے اس قصے اور روش کی داستان محض یونہی نہیں سنا رہا بلکہ دراصل اس سے امت محمدیہ علی صاحبھا السلام کو تنبیہہ کی جارہی ہے کہ دیکھو ! تم یہ روش ہرگز اختیار نہ کرنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا : (جس راستے سے اہل کتاب میں کمزوریاں آئیں ‘ انہی راستوں سے تم میں بھی آئیں گی۔ دیکھنا ! ان راستوں پر نہ چلنا یا ان دراڑوں کو نہ کھلنے دینا ) ایک اور جگہ فرمایا کہ (مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم ان راستوں سے ضرور گزرو گے اور ان بلوں میں ضرور گھسو گے جن میں وہ (اہل کتاب) گھس کر رہے اور تباہ ہوئے) اللہ کی کتاب اور ہماری روش میں بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں اپنے آپ پر نظر رکھنی چاہیے کہ اعمال و احکام میں انھوں نے جس طرح توریت کو ایک کھیل بنا کر رکھ دیا تھا کہ جس بات پر عمل نہ کرنا چاہتے ‘ اسے تاویل کی سان پر چڑھا کر کچھ سے کچھ بنا دیتے اور جن چیزوں کو بالکل نظرانداز کرنا چاہتے ‘ تو ان کو سرے سے کتاب سے نکال دیتے اور اگر باقی رکھتے تو پھر اسے قانون کی شکل نہ بننے دیتے۔ کہیں ہمارا طرز عمل بھی ایسا تو نہیں ؟ اگر صاف صاف بات کہی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تو بالکل ہماری کہانی ہے۔ اللہ کی کتاب ہمارے پاس بھی موجود ہے۔ اس میں معاملات ‘ عبادات ‘ معاشرت ‘ معیشت ‘ سیاست ‘ قومی اور بین الاقوامی آداب سب کچھ موجود ہے۔ زندگی کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہے ‘ وہ تمام کی تمام اس کتاب اور آپ ﷺ کی سنت میں موجود ہیں۔ لیکن ہم نے اس سے عبادات تو لے لیں ‘ مگر اس نے عدالت کا جو نظام دیا تھا ‘ حدود اللہ اور شرعی قوانین دئیے تھے ‘ وہ کہاں ہیں ؟ سیاست و حکمرانی کا جو ڈھانچہ اور خدوخال دئیے ‘ وہ کیا ہوئے ؟ اس نے ہمیں پوری ایک معیشت دی تھی ‘ جس میں سود کا کوئی تصور نہیں تھا ‘ وہ کہاں گم ہوگئی ؟ اس نے ہمیں ایک معاشرت دی تھی ‘ جس میں مرد و زن کے اختلاط کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ اس نے عورتوں کو حیاء کی ایک چادر پہنائی تھی ‘ غیرت کا غازہ بخشا تھا ‘ وہ قصہ پارینہ بن گیا۔ کتاب اللہ ہمارے گھروں میں تو موجود ہے ‘ مگر دلوں سے دور ہے۔ وہ جس زبان میں ہے ‘ ہم اس زبان سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ اسی کو اللہ فرماتا ہے کہ ” انھوں نے اس کتاب کا بیشتر حصہ بھلا دیا یا یہ کہ بیشتر سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا۔ “ ہم نے بھی یہی کیا ہے۔ اہل کتاب کی ان تمام حرکات سے آگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں کہ ” آپ برابر ان کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہتے ہیں “ یعنی ہم آپ کو مطلع کرتے رہتے ہیں تاکہ جہاں ضرورت ہو آپ اس کی اصلاح کردیں تاکہ تکمیل دین کا کام انجام پذیر ہو۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا : ” آپ ان کو معاف فرما دیجئے اور درگزر کیجئے “۔ بات یہ ہے کہ جب مجھے یہ معلوم ہو کہ میرے فلاں ہمسائے نے میرے ماں باپ کے چھوڑے ہوئے خزانے میں سے خیانت کا ارتکاب کیا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے ذہن میں نفرت کا کیسا لاوا ابلے گا اور دل کبھی آمادہ نہ ہوگا کہ میں ان لوگوں سے ملوں ‘ چاہے وہ رشتے میں میرے چچا کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں…… یہ بنی اسرائیل بنی اسماعیل کے چچازاد ہی تو تھے۔ جب آپ ﷺ اور مسلمانوں نے قرآن کے ذریعے یہ جانا کہ انھوں نے کتاب اللہ کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ‘ بالخـصوص آنحضرت ﷺ کے متعلق جو کچھ توریت میں موجود تھا ‘ اس میں سے شاید ہی کوئی بات باقی چھوڑی ہو تو ظاہر ہے کہ ایک ناگواری کی فضاء پیدا ہوئی ہوگی اور خود آنحضرت ﷺ پر اس کا اثر ہوا ہوگا۔ اس لیے اللہ نے دکھ اور غصے کے انسانی جذبے ـکو بھڑکنے سے روکنے کے لیے درگزر کرنے کا حکم دیا ‘ جس کا بظاہر خطاب تو آپ ﷺ سے ہے ‘ مگر دراصل اس وقت کی پوری امت مسلمہ سے خطاب ہے کہ دیکھو ! ایسے کسی جذبے سے مغلوب ہو کر اپنی دعوت و تبلیغ کے فریضے میں کمی بیشی نہ کرنا۔ آپ داعی ہیں ‘ اپنا کام جاری رکھئے۔ یہ مرحلہ چونکہ دعوت و تبلیغ کا تھا ‘ لہٰذا پردہ پوشی اور درگزر کا حکم دیا گیا۔ مزید تحقیق تفتیش سے بھی روک دیا گیا کہ فی الحال اس میں نہ پڑئیے بلکہ درگزر سے کام لیجئے۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر سورة التوبہ میں وہ مرحلہ بھی آیا کہ اللہ نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حکم دے دیا اور آپ ﷺ کی طبیعت کی نرمی دیکھتے ہوئے حکم ہوا کہ اب نرمی نہ برتیں ‘ بلکہ سختی کریں۔ مگر چونکہ ابھی اس آیت کے نزول کے وقت دعوت اپنی تکمیل کو نہیں پہنچی تھی ‘ لہٰذا اتمام حجت کا وقت نہیں آیا تھا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ دعوت کا اصول یہ ہے کہ دوسری طرف سے چاہے کیسی ہی باتیں سننے میں آئیں ‘ مگر آپ کبھی اشتعال کا شکار نہ ہوں ‘ بلکہ نہایت صبر و تحمل کے ساتھ دعوت جاری رکھیں۔ آگے فرمایا کہ ” بیشک اللہ احسان کا معاملہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “۔ اللہ کا اصول یہ ہے کہ وہ بدلہ لینے کی اجازت تو دیتا ہے ‘ مگر اس کے یہاں اس کی محبت کے مستحق وہ ہوتے ہیں جو احسان کیا کرتے ہیں۔ محسنین کی بہترین مثال ” محسنین “ کے میں تین ترجمے کرتا ہوں : نیکوکار ‘ خوب کار ‘ احسان کرنے والے۔ نیکی یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ نیکی کریں ‘ لیکن اگر آپ گرفت کرلیں تو بھی ٹھیک ہے۔ لیکن خوبی یہ ہے کہ آپ خوب کار ہوں اور خوب کاری یہ ہے کہ آپ ایسے معاملے میں جہاں بدلہ لیا جانا ہو ‘ وہاں رحم اور مروت کریں۔ تیسری بات یہ کہ صرف اسی پر اکتفا نہ کریں کہ رحم و مروت کا سلسلہ جاری رکھیں بلکہ اس سے بڑھ کر ان کے ساتھ احسانات بھی کریں۔ ایک مرتبہ سیدنا حسن ( رض) کے یہاں مہمان آئے ہوئے تھے۔ ان کا غلام اندر سے کھانا لا رہا تھا کہ ایک گرم گرم شوربے کا پیالہ لیے وہ جب آپ کے قریب پہنچا تو نجانے کیسے وہ برتن ہاتھ سے چھوٹ کر آپ کی کمر پر جا گر 1۔ ایسے لگا جیسے کھال تک اتر گئی ہو۔ حضرت حسن ( رض) نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ غلام ‘ خاندان نبوت میں پلا تھا ‘ وہ جانتا تھا کہ قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ اس نے ایک آیت قرآنی کا پہلا جملہ تلاوت کیا : ” وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ “ (جو اللہ والے ہوتے ہیں ‘ وہ غصے کو پی جایا کرتے ہیں) بس یہ جملہ سننے کی دیر تھی کہ حضرت حسن ( رض) نے سر جھکا دیا۔ غلام نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے تو اس نے فوراً آیت کا اگلا ٹکڑا پڑھا : ” وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ “ (وہ لوگوں کو معاف بھی کردیا کرتے ہیں) حضرت حسن ( رض) بولے : جا میں نے تجھے معاف کردیا۔ اب اس غلام نے آیت کا تیسرا ٹکڑا پڑھا : ” وَاللّٰہُ یُحِِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ “ (اٰل عمران : 134) (اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) کہنے لگے کہ جا میں نے تجھے آزاد کیا۔ یہی بات یہاں بیان کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ سے بڑھ کر اخلاق کس کے ہیں ‘ اس لیے کہ جو سند قرآن نے آپ ﷺ کو جاری کی ہے ‘ وہ دنیا میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی کہ ” آپ تو خلق عظیم کے مالک ہیں “ تو اسی لیے حکم ہوا کہ آپ تو خلق عظیم کے پیکر ہیں ‘ لہٰذا احسان کریں۔
Top