Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 13
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِیَةً١ۚ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ١ۙ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١ۚ وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰى خَآئِنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
فَبِمَا : سو بسبب (پر) نَقْضِهِمْ : ان کا توڑنا مِّيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد لَعَنّٰهُمْ : ہم نے ان پر لعنت کی وَ : اور جَعَلْنَا : ہم نے کردیا قُلُوْبَهُمْ : ان کے دل (جمع) قٰسِيَةً : سخت يُحَرِّفُوْنَ : وہ پھیر دیتے ہیں الْكَلِمَ : کلام عَنْ : سے مَّوَاضِعِهٖ : اس کے مواقع وَنَسُوْا : اور وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : انہیں جس کی نصیحت کی گئی وَلَا تَزَالُ : اور ہمیشہ تَطَّلِعُ : آپ خبر پاتے رہتے ہیں عَلٰي : پر خَآئِنَةٍ : خیانت مِّنْهُمْ : ان سے اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : تھوڑے مِّنْهُمْ : ان سے فَاعْفُ : سو معاف کر عَنْهُمْ : ان کو وَاصْفَحْ : اور درگزر کر اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
پس ان لوگوں نے اپنا عہد اطاعت توڑ ڈالا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ، چناچہ یہ لوگ باتوں کو ان کی اصلی جگہ سے پھیر دیتے ہیں ، جس بات کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھانا ان کے حصے میں نہیں آیا اسے بالکل فراموش کر بیٹھے اور تم ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتے رہتے ہو اور بہت تھوڑے ہیں جو ایسا نہیں کرتے ، پس آپ کو چاہیے کہ ان سے درگزر کریں اور ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لیں ، بلاشبہ اللہ انہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو نیک کردار ہوتے ہیں
بنی اسرائیل اللہ کی رحمت کی جگہ اللہ کی لعنت کے مستحق کیوں ہوئے ؟ : 66: زیر نظر آیت میں بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل سے جو عہد و مثیاق لیا گیا تھا اس کی انہوں نے اپنی بدبختی کے باعث مطلاق پروانہ کی اور ہدایت الٰہی پر مطلق کان دھرا جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگئے اور اللہ کی رحمت سے دوری ہی کا نام لعنت الٰہی کا مستحق ہونا ہے ۔ قرآن کریم نے باربار بنی اسرائیل کے انعامات کا ذکر بھی کیا ہے اور اللہ کی رحمت سے دوری کا بھی ، کیوں ؟ اس کی لعنت کا باعث کیا ہے ؟ پھر یہ بھی کہ ایک قدم ہدایات الٰہی کے مطابق عمل کر کے انعامات الٰہی کا مستحق اور ہدایات الٰہی سے بغاوت کر کے اس کی لعنت کی مستحق قرار پائی ہے۔ ایسا نہیں کہ جو قوم ایک بار انعام الٰہی کی مستحق ہوگی وہ کبھی عذاب الٰہی کی پاداش میں نہیں آسکتی۔ یہ زعم جس قوم کو بھی ہوا باطل تھا۔ بنی اسرائیل بھی انعامات الٰہی ہیں اس لئے اب عذاب الٰہی کی پکڑ میں ہم نہیں پکڑے جاسکتے۔ “ اور مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھ لینی چاہئے کہ اگر کل وہ بھی اسی طرح کی غلطی میں مبتلا ہوئے تو اس کا نتیجہ بھی وہی رہے گا جو بنی اسرائیل کے حق میں نکلتا وہ دیکھ چکے۔ اس لئے کہ یہ سنت اللہ ہے اور سنت اللہ میں تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ آج تو قوم مسلم کو من حیث القوم دیکھنا چاہئے کہ جس رحمت الٰہی سے بنی اسرائیل کو دور کردیا گیا تھا آج ہم بھی اس رحمت دور کردیئے گئے ہیں یا نہیں ؟ قرآن و حدیث اور آثار و تاریخ گواہ ہیں کہ بنی اسرائیل پر ان کی بدعملی اور سرکشی کے باعث ان پر دو طرح کے عذاب نازل ہوئے ایک ظاہری اور محسوس جیسے ان پر وقفہ وقفہ کے ساتھ خون اور مینڈکوں کی بارش وغیرہ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے : ” آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا ، ٹڈی دل چھوڑے ، سسریاں پھیلائیں ، مینڈک نکالے اور خون بر سایا ۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں مگر وہ سرکشی کئے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ “ (الاعراف 7 : 133) اس طرح جب وہ عذاب میں مبتلا کردیئے جاتے جو ان کے اپنے ہی کئے کے سبب پر ان کو آلیتا تو وہ چیخننے لگتے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اپیل پر اپیل کرنے لگتے کہ اللہ سے دعا کرو کہ ہم اپنے کئے سے باز آئے۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : ” جب کبھی ان پر کوئی بلا نازل ہوجاتی تو کہتے ” اے موسیٰ تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بناء پر ہمارے حق میں دعا کر اگر اب کی دفعہ تو ہم سے یہ بلا ٹلوادے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے مگر ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک لئے جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھرجاتے۔ “ (الاعرف 7 : 134 ، 135) قابل غور بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ نے بنی اسرائیل کو اس جگہ سے لے نکلنے کی حکومت وقت سے اجازت کیوں چاہی ؟ اس لئے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو اس قدر دبا دیا ہوا تھا کہ ان کی قومی آزادی کو اس نے قومی غلامی میں بدل دیا ہوا تھا وہ تعداد میں حکومت پارٹی سے زیادہ تھے لیکن حکومت نے ایسے قوانین ملک میں رائج کر رکھے تھے کہ وہ قانونی طور پر غلام بنا دیئے گئے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطری طور پر آزاد پیدا کیا ہے ، کسی کو بھی غلام پیدا نہیں کیا اور سارے انسانوں کو ایک جیسی صلاحتیں ودیعت کی ہیں کسی قوم کو بھی ان صلاحیتوں سے محروم نہیں کیا گیا ۔ آج ہم غور کریں تو بالکل صاف نظر آتا ہے کہ قوم مسلم کو یہود و نصاریٰ نے مل کر اپنا غلام بنا لیا ہوا ہے اور ان کی قوم مسلم کی آزادی ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ پوری دنیا میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے بلکہ برائے نام ان کی حکومت بھی قائم ہے من حیث القوم انہوں نے اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں اور عوام سب کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور ان کی آزادی باقاعدہ قانون کے مطابق سلب کر رکھی ہے ۔ عالمی قوانین اس طرح بنائے گئے ہیں اور پھر ہر اسلامی ریاستوں سے وہ منوائے گئے ہیں کہ اب ان قوانین کے مطابق اس دنیا میں رہتے ہوئے کوئی اسلام ملک اور کوئی مسلمان حکمران اس دنیا میں رہ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کی غلامی کا پٹا اپنی گردن میں نہ لٹکائے۔ پھر قوم مسلم کی بدبختی کی حدیہ ہے کہ اس قوم سے ان کو اسلامی ریاست سے ایسے آدمی مل گئے جو حکمران طبقہ پر پوری طرح مسلط کردیئے گئے ہیں اور ان کی ہر حرکت سے ان کو مطلع کرتے رہتے ہیں ۔ اس طرح جبھی وہ حکمرانوں میں کوئی ایسی بات محسوس کرتے ہیں جو ان کی آقائیت کے خلاف ہوتی ہے تو اس کو راستے سے اس طرح ہٹا دیتے تھے جس طرح مکھن سے بال ہٹا یا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل پر عذاب کی دوسری شکل و غیر محسوس طریقہ کا عذاب تھا : 67: فرمایا بنی اسرائیل کے عذاب کی دوسری صورت ایسی تھی جو غیر محسوس تھی گویا کہ وہ معنوی اور روحانی تھی۔ وہ کیا تھی ؟ فرمایا وہ یہ تھی کہ ان کی سر کشی کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے تھے ان سے پوچھنے کی قوت سلب کرلی گئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ وہ ان گناہوں کے وبال میں مزید گناہ میں مبتلا ہوتے چلے گئے جس کے متعلق قرآن کریم نے یہ بیان دیا کہ ” ان کے دلوں کو سخت کردیا گیا “ یعنی ہم نے ان کی بدعہدی اور میثاق کی خلاف ورزی کی سزا میں ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام انہوں نے کئے ان کے نتیجہ سے ان کو دو چار کردیا کیونکہ ہمارے قانون میں ہر عمل کے ساتھ اس کا نتیجہ لازم کردیا گیا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی قوم اعمال کے لحاظ سے تو بد اعمال ہو لیکن وہ اچھے نتائج سے نوازی جاتی رہے۔ اس لئے کہ یہ ہمارے وعدہ کے خلاف ہے اور ہم بھی وعدہ کے خلاف نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ ہاں ! کچھ اعمال دینوی لحاظ سے اچھے یا برے ہوتے ہیں اور کچھ اعمال اخروی لحاظ سے اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ ہر عمل جو اخروی لحاظ سے اچھا ہے وہ دینوی لحاظ سے کبھی برا نہیں ہوتا لیکن ہر عمل جو دینوی لحاظ سے اچھا ہے وہ اخروی لحاظ سے بھی اچھا ہو ؟ یہ ضروری نہیں۔ اس لئے صرف دینوی لحاظ سے اچھا کرنے والوں کو ان کے اعمال کا نتیجہ دنیا میں ان کو ہم اچھا ہی دیتے ہیں لیکن اخروی لحاظ سے اچھا کرنے والوں کو چونکہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اخروی لحاظ سے اچھے اعمال کرتے ہیں اس لئے ان کو اس دنیا میں بھی ان کا نتیجہ اچھا ہی ملتا ہے اور آخرت میں بھی یقینا وہ اچھے نتائج ہی سے دو چار ہوں گے کیونکہ ایسی کوئی اچھائی نہیں ہے جو اخروی لحاظ سے تو اچھی ہو لیکن دینوی لحاظ سے وہ اچھی نہ ہو۔ اگر کوئی شخص خواہ وہ کوئی ہو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ ایک کام اخروی لحاظ سے اچھا ہے لیکن دینوی لحاظ سے وہ اچھا ہے تو وہ شخص ہو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ ایک کام اخروی لحاظ سے اچھا ہے لیکن دینوی لحاظ سے وہ اچھا نہیں ہے تو وہ شخص ابھی دین اسلام کی اچھائی اور برائی سے بالکل نابلد ہے خواہ وہ بزعم خویش مذہبی راہنما ہی کیوں نہ ہو یا لوگ اس کو ” علامۃ الدبر “ اور ” قاضی القضاۃ “ ہی کیوں نہ تسلیم کرتے ہوں۔ ہاں ! کچھ اعمال قومی یا اجتماعی ہوتے ہیں اور کچھ اعمال انفرادی اس لئے قومی و اجتماعی اعمال کرنے والے پوری قوم یا قوم کی اکثریت ہوتی ہے چناچہ اس سے پوری قوم ہی مستفید بھی ہوتی ہے اور جو اعمال انفرادی ہوں ان کے نتائج بھی افراد ہی کے لئے ہوتے ہیں پوری قوم کے لئے نہیں اور یہ بھی سنت اللہ میں داخل ہے۔ کوئی نبی یا رسول اپنے انفرادی عمل میں کبھی غلط نہیں ہوتے لیکن جب تک پوری قوم یا قوم کی اکثریت وہ اعمال نہیں اختیار کرلیتی تھی کسی نبی کے انفرادی عمل سے پوری قوم مستفید نہ ہوئی کیوں ؟ اس لئے کہ یہ سنت اللہ کے خلاف تھا اور خلاف ہے ۔ پھر کیا ہوا ؟ یہی کہ پوری قوم کو عذاب الٰہی نے اپنے مقررہ وقت پر آلیا اور اس قوم کو اس دنیا سے نیست ونابود کردیا گیا اگر وقتی طور پر بچایا ہی گیا تو اس نبی اور اس کے ماننے والے چند لوگوں کو وہ بھی اس طرح کہ ان کو اس علاقہ کو چھوڑ دینے کا حکم صادر فرمایا اور پھر جو لوگ نکل گئے وہ بچا لے گئے اور باقی کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا خواہ کتنی طاقت کے وہ مالک تھے۔ بنی اسرائیل کے اس غیر محسوس عزاب کا دوسری جگہ قرآن کریم نے اسطرح بیان فرمایا کہ : ” اور اسے نہیں جھٹلایا مگر ہر وہ شخص جو حد سے گزر جانے والا بد عمل ہے ، اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں ۔ ہرگز نہیں بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پت ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ “ (المطففین 83 : 13 ، 15) مطلب یہ ہے کہ جزاء و سزاء کو افسانہ قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے لیکن جس وجہ سے یہ لوگ اسے افسانہ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن گناہوں کا یہ ارتکاب کرتے رہے ہیں ان کا زنگ ان کے دلوں پر پوری طرح چڑھ گیا ہے اس لئے جو بات سراسر معقول ہے وہ ان کو افسانہ نظر آتی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس زنگ کے باعث ان کے دلوں میں حق داخل ہی نہیں ہو سکتا اور وہ حق کی قبولیت کے قابل نہیں رہتے اور اسی چیز کو زنگ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی یہ شقاوت کہ وہ باتوں کو ان کی جگہ سے پھیر دیتے تھے : 68: محاورہ ہے کہ ” ناچ نہجانے آنگن ٹیڑھا “ ایک کام کرنے کو جی نہ چاہتا ہو تو اس کے لئے سیدھی بات تو یہ ہے کہ کم ازکم واضح کردیا جائے کہ اس کام کو میں نہیں کرنا چاہتا لیکن بعض افراد بلکہ بعض قومیں من حیث القوم یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں کہ ہم اس کو کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے لئے وہ کوئی نہ کوئی عذر وبہانہ تلاش کرتے ہیں اور بہانہ کیا ہوتا ہے کہ بات کو اس رنگ ڈھنگ اور سج وھج سے بیان کیا کہ وہ کرنا بھی نہ پڑی اور یہ بھی صاف صاف نہ کہا کہ ہم اس کو کرنا نہیں چاہتے حالانکہ یہ بات کسی حال میں بھی اسلام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے کہ کسی بات کو ہیز پھیر کر کے اصل مقصد سے اس کو ہٹا دیا جائے۔ قرآن کریم ان کی اس شکایت کو بیان فرما کر کہ وہ لوگ ” باتوں کو ان کی اصل جگہ سے پھیر دیتے ہیں۔ “ یعنی کلام الٰہی میں تحریف کرتے ہیں کبھی اس کے الفاظ میں اور کبھی معنی میں کبھی تلاوت میں ان کی تحریف کی یہ سب اقسام قرآن کریم اور کتب احادیث میں بیان کی گئی ہیں جس کا قدرے اعتراف آج کل بعض یورپین عیسائیوں کو کرنا پڑا ہے اور سورة البقرہ میں اسکی پوری تشریح ہم کر آئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی یہ بدبختی کہ جو بات ان کو یاد رکھنے کا کہا گیا وہی انہوں نے بھلا دی : 69: پھر فرمایا کہ اس معنوی سزا کا نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ کہ ” جس بات کی انہیں نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھانا ان کے حصے میں نہ آیا اور انہوں نے اسے بالکل ہی فراموش کردیا۔ “ اس طرح دین کی اصل جب ان کے باتھوں چھوٹ گئی تو پھر فرعی کیسے قبول ہوتے ؟ عمل چھوٹ جانے کی وجہ سے نہ تو ان کے دل ٹھیک رہے نہ فطرت اچھی رہی اور نہ خلوص و اخلاص ہی باقی رہا۔ اس طرح پھر غداری اور مکاری کو انہوں نے اپنا شیوہ بنا لیا ، نت نئے جال بنتے رہے اور اس طرح نئے سے نئے نتائج سے وہ دو چار ہوتے رہے ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ کوئی عمل ایسا نہیں جس کا نتیجہ اس کے مطابق نہ ہو۔ فرمایا ان کی عادت ثانیہ ایسی پختہ ہوئی کہ انجام کار ان کے گلے کا ہار بن گئی وہ اس طرح کہ ” آپ ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی دغا بازی اور فریب و مکاری پر مطلع ہوتے رہیں گے بجز تھوڑے لوگوں کے۔ “ آج یہود کی ان بیماریوں کو جن کی نشاندہی خود قرآن کریم نے اور پیغمبر اسلام ﷺ نے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے بدقسمتی سے خود قوم مسلم کو گھیر لیا ہے اور اس طرح دوسری کی بیماریوں کی نشاندہی کرنے کی بجائے ان ہی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں اور ہماری بدبختی کا عالم یہ ہے کہ ان بیماریوں کو بیماریاں تسلیم کرنے کے لئے بھی کبھی تیار ہی نہیں۔ اچھا تو قوم یہود نے کب ان کو تسلیم کیا تھا جب وہ ان کی پاداش میں جکڑ دیئے گئے اور من حیث القوم وہ دنیا سے حرف غلط کی طرح ایک بارمٹا دیئے گئے اور اب وہ دوسروں کے سارے دوبارہ پر پرزے نکالنے لگے۔ لیکن انہی قومی گناہوں کی پاداش میں اب قوم مسلم جکڑ دی گئی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قانون الٰہی اپنے وقت پت جس کی مدت کا تعین وہ احکم الحاکمین ہی جانتا ہے ان کو جگا دیے تو جگا دے کسی کے جگائے وہ جاگنے والے نہیں کیوں کہ ان کی نیند کا عالم پورے زور پر ہے اور اب جگانے والے خود گمراہی کی نیند میں ہیں۔ بنی اسرائیل میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ان قومی گمراہیوں میں مبتلا نہیں : 70: فرمایا ” بنی اسرائیل میں سے بہت ہی کم ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ “ یہ بھی اسلام کا کمال ہے کہ جہاں قوموں کی حالت یہ تھی کہ قومی مخالفت میں اس قدر اندھے ہوچکے تھے ایک دوسرے کے وجود کو اور ایک دوسرے کی مذہبی حیثیت کو قطعا تسلیم نہیں کیا جاتا تھا چناچہ یہود برملا کہتے تھے کہ نصاریٰ کا کوئی دین و مذہب نہیں اور اس طرح نصاریٰ بھی ڈنکے کے چوٹ پر اعلان کرتے تھے کہ یہود کی مذہبی حالت صفر ہے ان کے پاس ہدایت کا نام و نشان بھی باقی نہیں جیسا کہ سورة البقرہ میں اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے اسلام اتنا سچا اور صاف دین ہے کہ اس نے صاف صاف اعلان کردیا ہے کہ یہود میں اور نصاریٰ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو قومی لحاظ سے بلاشبہ اپنے آپ کو یہود میں یا نصاریٰ میں شامل کرتے ہیں اگرچہ ان کی قومیں ان کو تسلیم نہ بھی کریں تاہم دونوں ہی گروہوں میں جو کچھ اللہ کے بندے موجود ہیں ان کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ اپنی قومی گماہیوں میں مبتلا نہیں وہ ہمیشہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ تسلیم کرتے ہیں اگر وہ پوری قوم یہود اور پوری قوم نصاریٰ میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جن کی حیثیت آتے میں نمک کی بھی نہیں تاہم ان کا وجود موجود ہے جس کا انکار نہیں کا جاسکتا ہے جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے چند مزید ساتھی جن کا تذکرہ بھی آل عمران اور النساء میں گزر چکا اور آ ہے بھی وقتافوقتاً آتا رہے گا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج اسلامی گروہ میں جہاں دوسری بیماریاں موجود ہیں وہاں یہ قومی گمراہی بھی ہر جگہ پائی جاتی ہے کہ جس شخص نے جو مسلک قبول کرلیا ہے حالانکہ ” دین اسلام “ کے اندر مزید مسالک کا کوئی جواز موجود نہیں تھا وہ دوسرے مسلک والوں نے اس نگاہ سے دیکھتا ہے جس آنکھ سے یہودی نصاریٰ کو اور یٰ یہود کو دیکھتے تھے اور ان مسالک میں اسلام کے وہ ہیرے اور جواہر جو صحیح معنوں میں ایک سچے مسلمان کا دل اپنے اپنے سینہ میں رکھتے تھے ان کو اس طرح برملا برا بھلا کہا جاتا ہے کہ گویا ان کو برا بھلا کہنا ہی اسلام کا دوسرا نام ہے۔ تعجب ہے کہ آج اس اسلام کا نام لینے والوں سے جو اسلام یہود و نصاریٰ مشرکین اور صابیوں کو ایک بنانے کے لئے آیا تھا اس کے کتنے ٹکڑے کردیئے گئے اور جس چیز کو اسلام نے شرک کے نام سے یاد کیا تھا اس شریک کا نام اسلام رکھ دیا اور اب اس اسلام نام ہر مکتبہ فکر الاپتا ہے اور اپنے سوا دوسرے کو پکا کافر قرار دیتا ہے اور یہ تسلیم کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں کہ یہ ہماری گروہ بندی کا فطری اور معنوی نتیجہ ہے ۔ اسلام ان ساری گروہ بندیوں سے پاک اور منزہ ہے۔ گروہ بندیوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں سے نفرت نہ رکھنے کی ہدایت الٰہی : 71: اہل کتاب کی ان گمراہیوں کو واشگاف الفاظ میں بیان کرنے کے بعد نبی اعظم و آخر ﷺ اور آپ (علیہ السلام) کے متبعین کے لئے ہدایت خاص یہ ہے کہ تم بنی اسرائیل کی بداعتدالیوں اور بد اخلاقیوں کا جو اوپر بیان مذکور ہوا اس کے پیش نظران سب سے نفرت مت کرنے لگو اور ایسا نہ ہو کہ ان کو اپنے پاس مت آنے دو نہیں نہیں بلکہ وہ مریض ہیں اور ان سب کا اپنا اپنا مرض اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ آپ ان مختلف بیماریوں کے سارے مریضوں سے پیار کریں اور کسی سے بھی نفرت نہ کریں بلکہ ان کی ساری بداعتدالیوں سے درگرز کرتے ہوئے ان کو بالکل معاف کردیں ۔ ان سے منافرت کی صورت نہ رکھیں اور نہ ہی چھوت چھات کا معاملہ کریں ان کو اپنے اخلاق اور اپنے اعمال سے اس قدر متاثر کریں کہ یہ لوگ اپنے مرض کو خود پہچانیں اور اس کے علاج کے لئے آپ سے رجوع کریں ۔ جب ایسا ہو تو ان کو ایسے مزیدار نقوع دیں جن کے پینے کے لئے یہ بےتاب ہوں اور جب ان کے فاسد مادے پک کر تیار ہوجائیں تو چاروں خلتوں پر حاوی ایسا جلاب تیار کردیں کہ ان کا سارا مادہ خارج ہوجائے اور جب ان کی آنکھیں کھلیں تو وہ تیرے شکر گزار ہوں۔ اس چیز کا نام حکمت ہے اور رسول سے بڑھ کر آخر ان قومی مرضوں کا پہچاننے والا آخر کون ہو سکتا ہے ؟ پھر جب رسالت کا باب بند کردیا تو پوری کائنات کے رسول اعظم و آخر ﷺ کے نسخہ کیمیا میں ایسے سارے نسخے بھی بند کردیئے جو رہتی دنیا کے ان بیماریوں کے کام آتے رہیں گے بشرطیکہ وہ ان سے کام بھی لیں۔ ہاں ! نسخہ کتنا ہی طلب حاذق کا کیوں نہ ہو شقا وہی حاصل کرتا ہے جو اس کو طیب کی ہدایت کے مطابق استعمال بھی کرے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی نسخہ کی تلاوت کرلینے سے کبھی مریض یاب نہیں ہوتا اور نہ ہی خالی پڑھ لینے کو استعمال کرنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ فرمایا گیا اے پیغمبر اسلام ! ” ان کے ان جرائم کے باوجود جو وہ من حیث القوم کر رہے ہیں ان سے انتقام نہ لیجئے اور بلا ضرورت شرعی ان کی تفضیح و رسوائی کا سامان نہ کیجئے اور یہ جو کچھ پیغمبر اسلام کو کہا جا رہا ہے اس لئے نہیں کہ پیغمبر سے کبھی ایسی کام کی توقع تھی لہٰذا ان کو منع کیا جا رہا ہے حاشاء اللہ کہ کبھی اس کا مطلب یہ ہو بلکہ پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے پیغمبر اسلام کے معقدمین سے بات کی جا رہی ہے اور یہ وہ پیار انداز ہے جو اللہ اور اس کے رسول لے درمیان بطور راز کام کرتا ہے۔ اس جگہ ” محسنین “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ” محسنین “ احسان سے ہے جس کے معنی عربی زبان کے مطابق حسن عمل اور نیک کاری کے ہیں اردو کے ” احسان “ کا اسے مرادف نہ سمجھا جائے ۔ نکتہ دانوں نے یہیں سے یہ بات اخذ کی ہے کہ جب کافروں اور کافر بھی کیسے ؟ غیر متدین و خائن ، پھر ایسے لوگوں سے جب عفو و درگزر کا معاملہ حسن عمل اور نیک کاری قرار پایا تو پھر مسلمانوں کے ساتھ عفو و درگزر کے معاملہ کی فضیلت کا کیا کہنا۔ اس زیر نظر آیت اور اس جیسی دوسری آیات کریمات سے سبق تو بہت حاصل ہو سکتے ہیں لیکن سبق سیکھنے والا بھی ہو ؟
Top