Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب لَقِيْتُمُ : تمہاری مڈبھیڑ ہو الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے كَفَرُوْا : کفر کیا زَحْفًا : (میدان جنگ میں) لڑنے کو فَلَا تُوَلُّوْهُمُ : تو ان سے نہ پھیرو الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع)
اے ایمان والو ! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت پھیرو
1:۔ بخاری نے اپنی تاریخ میں نسائی، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عمر ؓ سے سوال کیا کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں کہ لڑائی کے وقت اپنے دشمنوں سے ثابت قدم نہیں رہتے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے سامنے ایک جماعت ہے یا ہمارا لشکر ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا جماعت تو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” اذ لقیتم الذین کفروا زحفا فلا تولوہم الادبار (15) فرمایا یہ آیت بدر والوں کے بارے میں نازل ہوئی نہ اس سے پہلے والوں کے لئے اور نہ اس کے بعد والوں کے لئے۔ 2:۔ عبد بن حمید، ابو داود، نسائی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، نحاس نے اپنی ناسخ میں، ابو الشیخ، ابن مردویہ، الحاکم نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ خاص طور پر بدر والوں کے لئے ہے۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر نے ابو نصر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا یہ (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ بدر کے دن نازل ہوئی اور ان کے لئے پھرجانا جائز نہیں تھا۔ کیونکہ اگر وہ پھر کر پیچھے ہٹتے تو صرف اور صرف مشرکین کے خوف سے پیچھے ہٹتے (اور یہ جائز نہیں تھا) 4:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا یہ آیت تم کو دھوکہ میں نہ ڈالے کیونکہ یہ بدر کا دن تھا اور میں ہر مسلمان کے لئے وجع اور پناہ ہوں۔ 5:۔ عبدبن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا وہ بدر کا دن تھا کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ۔ 6:۔ ابوالشیخ، ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت بدر والوں کے بارے میں خاص طور پر نازل ہوئی ان کے لئے جائز نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بھاگ جائیں اور ان کو چھوڑ دیں۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، نحاس نے اپنی ناسخ میں، ابوالشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت بدر والوں کے لئے ہے۔ لشکر جرار کے مقابلہ سے بھاگنا بڑے گناہوں میں سے نہیں ہے۔ 8:۔ ابن منذر، ابو الشیخ نے عکرمۃ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ کہ یہ بدر کے دن میں تھا۔ 9:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں، ابن ابی شیبہ، ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ یہ بدر کے دن میں تھا اور مسلمانوں کے لئے کوئی گروہ نہ تھا جس کی طرف وہ بھاگ کر لوٹ سکے۔ 10:۔ عبد الرزاق نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ کہ ان کا خیال ہے کہ یہ حکم بدر کے دن نازل ہوا کیا تو نہیں دیکھتا کہ وہ فرماتے ہیں (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ 11:۔ ابن جریر، ابن منذر نے یزید بن ابی حبیب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے و اجب فرما دیا آگ کو اس شخص کے لئے جو بدر کے دن بھاگ گیا فرمایا اور جو شخص اس دن پیٹھ پھیر لے (آیت) ” فقد بائ بغضب من اللہ “ اور جب اس کے بعد احد کا دن تھا تو فرمایا (آیت) ” انما استزلہم الشیطن ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللہ عنہم “ (آل عمران آیت۔ 155) پھر جب سات سال کے بعد حنین کا دن تھا تو فرمایا (آیت) ” ثم ولیتم مدبرین “ (التوبہ آیت 25) پھر فرمایا (آیت) ” ثم یتوب اللہ من بعد ذلک علی من یشاء “ (التوبہ آیت 27) 12:۔ ابن ابی حاتم، ابو الشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ کے بارے میں فرمایا یعنی یہ صرف بدر کے دن بھاگنے والے کے لئے ہے (آیت) ” الا متحرفا لقتال “ جو بھاگتے ہو مشرکین کی جانب پلٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں فرمایا (آیت) ” متحیزا الی فئۃ “ یعنی اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ آئے بغیر شکست کے (آیت) ” فقد باء بغضب من اللہ “ یعنی واجب کرلیا اللہ کی ناراضگی کو (آیت) ” وماوہ جھنم، وبئس المصیر (21) یہ خاص طور پر بدر کے دن تھا۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اس دن سختی کردی کافروں کی جڑ کاٹنے کے لئے اور وہ پہلا قتال تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے مکہ کے مشرکین کو خوب قتل کیا۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا (آیت) ” متحرف “ سے مراد ہے اپنے ساتھیوں میں آگے بڑھنے والا وہ دیکھتا ہے غفلت کو دشمن سے تو وہ ان پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور (آیت) ” متحیزا “ سے مراد ہے بھاگ کر آنے والا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کی طرف اور اسی طرح جو آج کے دن بھاگ جائے اپنے امیر اور اس کے ساتھیوں کی طرف فرمایا بلاشبہ یہ وعید ہے اللہ کی طرف سے محمد ﷺ کے اصحاب کے لئے کہ وہ نہ بھاگیں اور نبی کریم ﷺ نے ان کو ثابت قدم کردیا۔ 14۔ ابن جریر، ابن منذر نے ابو الشیخ نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ “۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ منسوخ ہے اس آیت سے جو انفال میں ہے یعنی (آیت) ” الئن خفف اللہ عنکم “۔ 15:۔ ابن جریر، نحاس نے اپنی ناسخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے جنگ سے بھاگنا بڑے گناہوں میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ومن یولہم یومئذ دبرہ الا متحرفا لقتال “۔ 16:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے جنگ سے بھاگنا بڑے گناہوں میں سے ہے۔ 17:۔ سعید بن منصور ابن سعد ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، بخاری نے الادب المفرد میں اور لفظ بخاری کے ہیں، ابوداود، ترمذی نے اس کو حسن کہا، ابن ماجہ، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس، ابو الشیخ اور ابن مردویہ، بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا ہم ایک جنگ میں تھے تو لوگ انتہائی زیادہ تنگ اور پریشان ہوگئے ہم نے کہا ہم نبی کریم ﷺ کو کس طرح ملیں گے حالانکہ ہم میدان جنگ سے فرار ہوچکے ہیں اور ہم غصہ کے مستحق ہوچکے ہیں پس ہم نماز فجر سے پہلے نبی کریم ﷺ کے پاس آئے آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم فرار ہو کر آنے والے ہیں، آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم دشمن پر جھپٹنے والے ہو ہم نے آپ کا ہاتھ چوم لیا۔ اور آپ نے فرمایا ہم تمہاری پناہوں اور مسلمانوں کی پناہ بھی پھر (یہ آیت) پڑھی (آیت) ” الا متحرفا لقتال او متحیزا الی فئۃ “۔ میدان جنگ سے بھاگنا حرام ہے : 18۔ ابن مردویہ نے امامۃ ؓ سے روایت کیا جو نبی ﷺ کی کنیز تھیں بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کو وضو کر ارہی تھی اور آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی اچانک ایک آدمی داخل ہوا اور کہا یارسول اللہ میں اپنے گھروالوں سے ملنا چاہتا ہوں مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے تاکہ میں آپ کی طرف سے اس کو حفظ کرلوں آپ نے فرمایا جنگ کے دن میدان جنگ سے مت بھاگنا اس لیے کہ جو جنگ کے دن بھاگتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غصہ کے ساتھ لوٹے گا۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ 19:۔ شافعی، ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا دو آدمیوں سے بھاگا تو تحقیق اس نے راہ فرار اختیار کی۔ 20:۔ خطیب نے متفق ومتفرق میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت یایھا الذین امنوا اذا لقیتم الذین کفروا زحفا فلا تولوہم الادبار (15) “ نازل ہوئی تو ہم کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم (دشمن سے) لڑو جیسے اللہ نے حکم فرمایا۔ 21:۔ احمد نے عمروبن عاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سات موتوں سے پناہ کو طلب فرمایا اچانک موت سے، سانپ ڈسنے سے، کسی درندے کے چیر پھاڑنے سے، غرق ہونے سے، ( آگ میں) جلنے سے اور کوئی چیز اس پر گرپڑے (اور موت واقع ہوجائے) اور جو شخص جنگ سے بھاگنے کے وقت قتل ہوجائے۔ 22:۔ احمد نے ابوالبسر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ان سات کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے اللہم انی اعوذبک من الھرم واعوذبک من الغم والغرق والحرق واعوذ بک یتخبطنی الشیطان عند التوب واعوذ بک ان اموت فی سبیلک مدبرا واعوذبک ان اموت لدیغا۔ ترجمہ : اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں بہت بوڑھا ہونے سے اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں غم سے غرق ہونے سے اور جل جانے سے اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان کے مجھ پر غالب ہوجانے سے اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان کے غالب ہوجانے سے اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں آپ کے راستہ میں پیٹھ کر پھیر کر بھاگتے ہوئے مجھے موت آجائے اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میری موت (سانپ بچھوکے) ڈسنے سے آجائے۔ 23:۔ ابن سعد، ابوداود والترمذی، بیہقی نے الاسماء والصفات میں زید ؓ سے روایت کیا کہ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص ” استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ “ پڑھے تو اس کے (سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں) اگرچہ وہ جنگ سے بھاگا ہوا ہو۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ، حاکم نے اس کو صحیح کہا ابن مسعودؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کو یہ فرمایا ” استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ “ تین مرتبہ پڑھ لے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اگرچہ وہ جنگ کے میدان سے بھاگ نکلا ہو۔ 25:۔ ابن ابی شیبہ نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کی مثل موقوف روایت بیان کی ہے کہ اور وہ بھی مرفوع کے حکم میں ہے (واللہ اعلم )
Top