Dure-Mansoor - At-Tawba : 101
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ١ۛؕ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ١ؔۛ۫ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ١۫ لَا تَعْلَمُهُمْ١ؕ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ١ؕ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ
وَمِمَّنْ : اور ان میں جو حَوْلَكُمْ : تمہارے ارد گرد مِّنَ : سے۔ بعض الْاَعْرَابِ : دیہاتی مُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَمِنْ : اور سے۔ بعض اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ : مدینہ والے مَرَدُوْا : اڑے ہوئے ہیں عَلَي : پر النِّفَاقِ : نفاق لَا تَعْلَمُھُمْ : تم نہیں جانتے ان کو نَحْنُ : ہم نَعْلَمُھُمْ : جانتے ہیں انہیں سَنُعَذِّبُھُمْ : جلد ہم انہیں عذاب دینگے مَّرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر يُرَدُّوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے اِلٰى : طرف عَذَابٍ : عذاب عَظِيْمٍ : عظیم
اور تمہارے گردوپیش جو دیہاتی ہیں ان میں منافق ہیں اور اہل مدینہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو منافقت پر اڑ گئے ہیں آپ انہیں نہیں ہم انہیں جانتے ہیں، ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ عذاب عظیم کی طرف لوٹائے جائیں گے
1:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی نے الاوسط میں وابو الشیخ وابن جریر رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وممن حولکم من الاعراب منفقون “ کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے فلانے اے فلانے کھڑا ہوجا اور نکل جا بیشک تو منافق ہے (اس طرح) ان کو ان کے ناموں کے ساتھ باہر نکال دیا۔ اور ان کو خوب رسوا کیا اس جمعہ میں عمر بن خطاب ؓ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے حاضر نہیں تھے عمر ؓ ان سے ملے اور وہ لوگ مسجد سے نکل رہے تھے اور اس حیا کے سبب ان سے چھپنے لگے کہ آپ اس جمعہ میں حاضر نہیں تھے اور آپ نے لوگوں کے بارے میں یہ گمان کیا کہ یہ لوگ جھوٹ بول کر واپس آرہے ہیں اور وہ لوگ بھی حضرت عمر ؓ نے چھپنے لگے اور منافقوں نے گمان کیا کہ ان کو اس معاملے کا علم ہوچکا ہے۔ حضرت عمر ؓ مسجد میں داخل ہوئے لوگ (ابھی) نہیں گئے تھے ایک آدمی نے ان سے کہا اے عمر ؓ آپ کو بشارت اللہ تعالیٰ نے آج کے دن منافقوں کو رسوا کردیا ہے اور یہ پہلا عذاب ہے اور دوسرا عذاب قبر کا عذاب ہے۔ 2:۔ ابن منذر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وممن حولکم من الاعراب “ سے مراد ہے جھینہ مزینہ اشجع، اسلم اور غفار ہیں۔ 3:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” مردوا علی النفاق “ سے مراد ہے کہ وہ اس (نفاق) پر قائم رہے اور انہوں نے توبہ نہیں کی جیسے دوسرے نے توبہ کی۔ 4:۔ ابن منذر (رح) نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” مردوا علی النفاق “ کے بارے میں فرمایا کہ اسی (نفاق) پر عبداللہ بن ابی ابو عامر الراھب اور امجد بن قیس مرے ( انہوں نے توبہ نہیں کی) 5:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” نحن نعلمہم “ سے مراد ہے کہ ہم ان کو پہنچانتے ہیں۔ 6:۔ عبدالرزاق وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لاتعلمہم، نحن نعلمہم “ کے بارے میں فرمایا کیا حال ہے ان اقوام کا جو لوگوں پر باتیں بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلاں جنت میں ہے اور فلاں جہنم میں ہے جب ان میں سے کسی سے اسی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے میں نہیں جانتامیری عمر کی قسم کو اپنی ذات کے بارے میں زیادہ جانتا ہے لوگوں کے اعمال کی نسبت اور تو نے اتنی چیزوں کا تکلف کیا ہے کہ جن کا کسی نبی نے وہ تکلف نہیں کیا نوح (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” وما علمی بما کانوا یعملون “ اور شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” وما انا علیکم بحفیظ “ اور اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے لئے فرمایا (آیت) ” لا تعلمہم، نحن نعلمہم “ 7:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ (یعنی ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے) بھوک اور قتل کے ساتھ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ یعنی بھوک سے اور قبر کے عذاب ہے (ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے ) ۔ 8:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ یعنی بھوک سے اور قبر کے عذاب سے (ہم ان کو دو مرتبہ دیں گے) 9:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ یعنی قبر میں عذاب دینے سے اور دوزخ میں عذاب دینے سے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ والبیہقی (رح) نے عذاب القبر میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ یعنی قبر میں عذاب دینے سے اور دوزخ میں عذاب دینے سے۔ 11:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ سے مراد ہے کہ وہ مبتلا کئے جائیں گے دنیا میں اور قبر کے عذاب میں (آیت) ” ثم یردون الی عذاب عظیم “ اس میں عذاب سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ 12:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابن زیدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ کہ دنیا کا عذاب دینا کے قانون اور اولاد کے سبب اور یہ آیت ” انما یرید اللہ لیعذبہم بھا فی الحیوۃ الدنیا وتزھق انفسہم وھم کفرون (55) “ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ مصیبتوں کے ذریعہ ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دے پس یہ مصائب ان کے لئے عذاب ہیں اور فرمایا کہ آخرت کا عذاب دوزخ میں ہوگا (آیت) ” ثم یرودن الی عذاب عظیم “ اور عذاب سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ 13:۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ لوگ کہتے ہیں (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ یعنی قتل اور قتل کے بعد برزخ (کا عذاب) اور برزخ کے مراد موت کے بعد دوبارہ اٹھانے کا وقت ہے۔ (آیت) ” ثم یردون الی عذاب عظیم “ یعنی جہنم کے عذاب (کی طرف لوٹا دیا جائے گا) 14:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” سنعذبہم مرتین “ کے بارے میں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے منافقین کو جمعہ کے دن اپنی زبان مبارک سے منبر پر (کھڑے ہوکر) عذاب پہنچاتے تھے یعنی اس کا نام لے کر ان کو رسوا کیا۔ اور دوسرا قبر کا عذاب مراد ہے۔ 15:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو نبی کریم ﷺ ایسا عظیم خطبہ دیا میں نے کبھی بھی اس کی مثل نہیں سنا۔ فرمایا اے لوگ بلاشبہ تمہارے اور منافق میں جس کا میں نام لوں تو اس کو چاہئے کہ کھڑا ہوجائے اے فلاں کھڑا ہوجا اسے فلاں کھڑا ہوجا یہاں تک کہ چھتیس آدمی کھڑے ہوئے پھر فرمایا بیشک وہ تم میں سے ہیں بیشک تم میں سے ہیں اور بیشک وہ تم میں سے ہیں اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو۔ حضرت عمر ؓ ایک آدمی کو ملے اس کے اور ان کے درمیان بھائی چارہ تھا حضرت عمر ؓ نے فرمایا تیرا حال ہے اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطبہ کرتے ہوئے اس طرح فرمایا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ سے سارا دن دور رکھے۔
Top