Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 86
بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ١ۚ۬ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
بَقِيَّتُ : بچا ہوا اللّٰهِ : اللہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے وَ : اور مَآ : نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہوں
بَقِيَّةُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (11 : 85) “ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ ” کیونکہ اللہ کے ہاں جو اجر ہے یا اللہ کی شریعت کے مطابق جائز ذرائع سے آنے والی کمائی زیادہ قیمتی اور زیادہ باقی رہنے والی ہے۔ اس سے قبل اللہ نے بتایا تھا کہ صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت کرو اور اللہ کے دین میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ اور اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس دین کے مطابق جو منافع وہ کمائیں گے وہ زیادہ نفع بخش کام ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور معاشی سرگرمیوں میں پاکیزہ راہ اختیار کرنا اس ایمان اور نظریہ کا لازمی تقاضا بھی ہے۔ اب حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کو اور ان کے سامنے پیش کی گئی دعوت کو ایک طرف چھوڑتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ بذات خود کسی تصرف کے مالک نہیں ہیں ، کوئی گارنٹی تمہیں نہیں دے سکتے اور وہ عملا شر اور عذاب اور فساد سے تمہیں روک دینے پر قدرت نہیں رکھتے ۔ اور وہ اس بات کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ وہ ہر حال میں تمہیں ہدایت پر لے آئیں اور اگر تم لوگ ضلالت پر اصرار کرتے ہو تو اس بات کی عند اللہ کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ میرا فرض تو صرف ابلاغ مبین ہے اور تبلیغ دین کا فریضہ ظاہر ہے کہ میں نے ادا کردیا ہے۔ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ (11 : 86) “ اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہوں۔ ” یہ انداز کلام ایک سننے والے کو اس بات پر مجبور کردیتا ہے کہ معاملہ بڑا سنگین ہے۔ اس کے نتائج خطرناک ہوں گے اور اگر وہ غور نہ کریں گے تو برے انجام سے خود وہ دو چار ہوں گے اور کوئی وہاں نہ رکاوٹ ڈال سکتے گا اور نہ کوئٍ بچانے والا ہوگا۔ لیکن قوم بگڑی ہوئی تھی اور وہ فساد اور بےراہ روی کے عادی ہوگئے تھے اور وہ لوگوں کا استحصال صدیوں سے کرتے چلے آئے تھے۔ چناچہ وہ کہتے ہیں :
Top