Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور سکی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرف گزر جاتے ہیں۔ “
والذین ……کراماً (72) ” جھوٹی شہادت نہ دینے کا قریبی اور اصطلاحی مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی عدالت میں جھوٹی شہادت نہیں دیتے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں اور ظلم پر اعانت کا جرم واقع ہوتا ہے اور اس سے حقیقی شہادت بھی مراد ہو سکتی ہے یعنی کسی مجلس ، کسی سوسائٹی یا کسی جگہ میں جھوٹ اور برائی کا ارتکاب ہو رہ اہو تو یہ لوگوہاں حاضر نہیں ہوتے یعنی ایسی سوسائٹی سے دو ررہتے ہیں ، جس میں برائی کا ارتکاب ہوتا ہے اور یہ زیادہ بلیغ اور دل لگتی تفسیر ہے۔ اسی طرحوہ لغو اور بیہودہ محافل یا ماقمات سے بھی اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ واذا مروا باللغو مروا کراماً (25 : 82) ” اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ “ وہ اپنے آپ کو اس میں مغشول نہیں کرتے ، نہ وہ ان برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ نہ دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں بلکہ وہ ایک مکرم اور معزز شخص کی طرح وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ اس لئے کہ کسی مومن کے کاسہ حیات میں کوئی خالی جگہ ہی نہیں ہوتی کہ اس میں لغو اور بیہودگی بھی سما سکے۔ وہ اپنے عقیدہ و ایمان اور دعوت اسلامی اور اس کے تقاضوں سے فارغ کب ہوتا ہے۔ وہ تو ہر وقت اپنی اور معاشرے کی اصلاح میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ …… اور ایک صفت عباد الرحمن کی یہ بھی ہے کہ جب ان کو یاد دہانی اور نصیحت کی جائے تو وہ سبق اور نصیحت کو قبول کرلیتے ہیں۔ وہ بات یقین کرتے ہیں ، ان کے دل قبول حق کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ ذہن رسا رکھتے ہیں اور قلب منیب کے مالک ہوتے ہیں۔
Top