Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 54
قَالَ وَ مَا عِلْمِیْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَۚ
قَالَ : (نوح) نے کہا وَمَا عِلْمِىْ : اور مجھے کیا علم بِمَا : اس کی جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اس نے کہا، مجھے اس کی کیا خبر جو وہ کرتے رہے ہیں ؟
آیت 115-112 شرافت و رذات کا انحصار آدمی کے اعمال پر ہے حضرت نوح نے ان کے اس معارضے کا جواب دیا اور سبحان اللہ کتنا بلیغ جواب دیا ! فرمایا کہ مجھے کال معلوم کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ؟ مطلب یہ ہے کہ شرافت و رذالت کا انحصار تو آدمی کے عمل و کردار پر ہے نہ کہ نسب و خاندان اور مال و جائیداد پر، تو مجھے کیا معلوم کہ اب تک ان کا عمل کیا رہا ہے ؟ ان کے ماضی کا احتساب میرے رب کے ذمہ ہے۔ میرے سامنے تو ان کا حاضر ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے رب پر ایمان لائے اور اس سے ڈرنے والے ہیں۔ لوتشعرون یعنی اگر اس حقیقت کا احساس تمہیں بھی ہوتا تو تم بھی وہی کہتے جو میں کہہ رہا ہوں لیکن تمہارے ذہنوں میں یہ خناس سمایا ہا ہے کہ شرافت و رذلت کا انحصار مال و دولت پر ہے۔ اس وجہ سے ان کی غریبی تمہارے لئے قبول حق میں حجاب بن گئی ہے۔ ومآ انا بطارد المومنین ان انا الانذیر مبین مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنے ایمان کی شرط یہ ٹھہراتے ہو کہ میں ان مومنوں کو اپنے پاس سے دھتکاردوں تو یہ تو میں کرنے سے رہا۔ اگر تم اس چیز کے سبب سے ایمان نہیں لاتے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ میں صرف ایک نذیر مبین ہوں۔ میں نے اپنا فرض انذار ادا کردیا۔ اب جو ایمان نہیں لائے گا، اس کی مسئولیت خود اس پر ہے۔ اس کے باپ میں مجھ سے کوئی پرستش نہیں ہوگی۔
Top