Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 61
مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
مَا كَانَ : نہ تھے اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم يَهُوْدِيًّا : یہودی وَّلَا : اور نہ نَصْرَانِيًّا : نصرانی وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَانَ : وہ تھے حَنِيْفًا : ایک رخ مُّسْلِمًا : مسلم (فرمانبردار) وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے
زکوۃ و صدقات کے اصول وضع کرنے کے بعد ، اور ان کے مصارف کی نشاندہی کے بعد اب سیاق کلام پھر منافقین کے اعمال و افعال کی طرف مڑ جاتا ہے اور یہاں آیت صدقات کو اس لیے لایا گیا کہ جو لوگ تقسیم صدقات کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ پر نکتہ چینی کرتے تھے ان کے موقف کی کمزوری واضح ہوجائے۔ وَمِنْهُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَّ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ: " ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ " یہ رسول اللہ کے بارے میں سوٗ ادب ، ایک صرح گستاخی ، معلوم ہوتا ہے کہ یہ گستاخی صدقات کے معاملے کے علاوہ ہے۔ یہ دیکھتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ لوگوں کی باتیں کس قدر سلیقے ، شرافت اور سنجیدگی کے ساتھ سنتے ہیں اور یہ کہ حضور ﷺ شریعت کے قانون کے مطابق لوگوں کی ظاہری حالت کے مطابق ان سے معاملہ کرتے تھے۔ لوگوں کی طرف اچھی طرح متوجہ ہوتے تھے اور ان کے ساتھ دل کھول کر بات فرماتے تھے۔ لیکن ان نکتہ چینی کرنے والوں نے حضور کی اس شائستگی کو آپ کی کمزوری سے تعبیر کیا اور اچھائی کو برائی کہہ دیا۔ کہنے لگے کہ حضور کان کے کچے ہیں۔ یعنی ہر کسی کی بات سنتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ کوئی آپ سے جھوٹ کہے ، دھوکہ دے اور چرب لسانی سے کام نکالے اور آپ بات کو سمجھ نہ سکیں۔ وہ یہ باتیں اپنی اس خام خیالی کی وجہ سے کہتے تھے کہ حضور ان کے معاملے کو کسی طرح کھول سکتے ہیں یا یہ کہ حضور ان کے نفاق کو کس ذریعے سے معلوم کرلیں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان منافقین کے اعمال و اقوال کے بارے میں مخلص مومنین آپ کو جو اطلاعات فراہم کرتے تے اور آپ ان پر یقین کرتے تھے تو یہ لوگ اس صورت حال پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ اس آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں اس قسم کی بعض روایات بھی وارد ہیں۔ یہ دونوں امر یہاں اس آیت کا پس منظفر ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں امر منافقین میں موجود تھے۔ قرآن کریم پہلے ان کا قول نقل کرتا ہے : " یقولون ھو اذن " (کہتے ہیں کہ یہ شخص کان کا کچا ہے ہاں یہ درست ہے لیکن کہو تمہارے بھلائی کے لیے ایسا ہے) کیا اس میں تمہاری بھلائی نہیں ہے کہ وہ غور سے وحی سنتا ہے اور پھر تم تک اسے پہنچاتا ہے جس میں تمہاری بھلائی ہے اور تمہاری اصلاح ہے۔ پھر کان کا کچا ہونا تمہارے لیے یوں بھی بہتر ہے کہ تمہاری بات کو غور سے سنتا ہے اور شرافت سے سنتا ہے اور تمہیں یہ تاثر نہیں دیتا کہ تم و منافق ہو۔ یہ اشارہ بھی نہیں دیتا کہ تم دھوکہ دیتے ہو اور تم اس کے جو ریاکارانہ برتاؤ کرتے ہو جانتے ہوئے بھی وہ تمہاری سرزنش نہیں کرتا۔ یومن باللہ (وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے) اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے بارے میں جو اطلاع دیتا ہے اس پر اسے پور پورا یقین ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں اس کو جو اطلاع دی جاتی ہے ، اس پر بھی اسے یقین ہے) و یومن للمومنین (اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے) وہ پورے اطمینان سے ان کی باتوں کو سچ تسلیم کرتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ سچے مسلمان ہیں اور ان کا ایمان اس قدر مضبوط ہے کہ جھوٹ ، ریاکاری اور بہانہ سازی سے انہیں روکتا ہے۔ ورحمۃ للذین امنوا (اور تم میں سے ایماندار لوگوں کے لیے سراسر رحمت ہے) اس لیے کہ اللہ غیور ہے۔ وہ کس طرح برداشت کرسکتا ہے کہ لوگ اس کے رسول کو اذیت دیں حالانکہ وہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہے۔
Top