Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 68
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک اَوْلَى : سب سے زیادہ مناسبت النَّاسِ : لوگ بِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم سے لَلَّذِيْنَ : ان لوگ اتَّبَعُوْهُ : انہوں نے پیروی کی انکی وَھٰذَا : اور اس النَّبِىُّ : نبی وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّ : کارساز الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
ابراہیم (علیہ السلام) سے نسبت رکھنے کا حق سب سے زیادہ اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں اس کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور اس کے ماننے والے اس کی نسبت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اللہ صرف انہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔ “
پس وہ لوگ جو حضرت ابراہیم کی زندگی میں ان کے پیرو رہے ‘ اور ان کے نظام اور طریقے پر چلے ‘ اور انہوں نے ان کے احکام کے مطابق فیصلے کیے تو وہی ان کے دوست تھے ۔ پھر یہ نبی ان کے دوست ہیں جو اللہ کی شہادت کے مطابق ان کے دین پر ہیں وہ ان کے دوست ہیں ‘ اس کے بعد وہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوست ہیں جو اس نبی پر ایمان لائے ۔ اور وہ اپنے نظام زندگی اور طریقہ حیات میں ان کے ہم رنگ ہوگئے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ” اللہ صرف ان کا حامی اور مددگا رہے جو ایمان رکھتے ہیں۔ “ اس لئے کہ یہی لوگ اللہ کی پارٹی کے ہیں ‘ یہی لوگ اللہ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ سے محبت اور دوستی رکھتے ہیں اور اس کے سوا ان کا کوئی ولی نہیں ہے ۔ یہ لوگ ایک ہی خاندان ہیں ۔ یہ ایک امت ہیں ‘ چاہے صدیاں گزرجائیں ‘ زمانے گزرجائیں ‘ زمین اور وطن کے فاصلے طویل کیوں نہ ہوں ‘ نسل اور قوم مختلف کیوں نہ ہو ‘ خاندان اور قبائل مختلف کیوں نہ ہوں ‘ یہ ایک ہیں ‘ ایک رہیں گے۔ انسانی اجتماع کی یہ سب سے ترقی یافتہ شکل ہے جو حضرت انسان کے لئے موزوں ترین ہے ، اور یہی صورت اسے حیوانوں کے ریوڑ سے ممتاز کرتی ہے۔ دوسری جانب مختلف قسم کی سوسائٹیوں میں سے یہ سوسائٹی سب سے عام اور بلاقید ہے ۔ اس لئے کہ اس اجتماعی نظام کی اساس جس شرط کے ساتھ مشروط ہے وہ شرط اختیار ہے ۔ انسان کے بس میں ہے کہ وہ اس شرط کو پوری کردے ۔ وہ شرط نظریاتی ہے اور ہر شخص کسی بھی نظرئیے کو اپنانے میں آزاد اور مختار ہے ۔ جب کوئی شخص اپنی نسل تبدیل نہیں کرسکتا ۔ اگرچہ ہم اجتماعی نظام کی اساس کسی نسل پر رکھ دیں تو کوئی شخص بہرحال اس نسل میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ اگرچہ اجتماعیت کو قومیت کی اساس پر استوار کریں تو پھر کوئی شخص اپنی قومیت تبدیل نہیں کرسکتا ۔ اگر ہم اجتماعی نظام رنگ پر رکھیں تو کوئی بھی شخص اپنا رنگ نہیں بدل سکتا ۔ اسی طرح اگر ہم زبان کی اساس پر اجتماعی نظام استوار کریں تو کوئی شخص اپنی زبان بھی نہیں بدل سکتا ۔ اسی طرح اگر نظام طبقات پر مبنی ہو ‘ تو طبقہ بدلنا بھی آسانی سے ممکن نہیں ہوتا ۔ بلکہ بعض اوقات طبقات بھی ناقابل تبدیل ہوتے ہیں مثلاً ہندوستان میں اچھوت وغیرہ ‘ یہی وجہ ہے تمام دوسری سوسائٹیوں میں بعض طبقات کی راہ میں پردے حائل ہوتے ہیں اور وہ اس سوسائٹی کا ممبر نہیں بن سکتے ۔ صرف نظریاتی اساس پر تشکیل پانے والی سوسائٹی اس عیب سے خالی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ نظریاتی سوسائٹی میں کوئی نظریہ اپنانے نہ اپنانے کا معاملہ ایک فرد کے اختیار میں ہوتا ہے ۔ بغیر اس کے اس کی اصلیت بدلے ‘ اس کی زبان بدلے ‘ اس کا طبقہ بدلے ‘ یا وصف بدلے جس کی اساس ‘ اس کا پردہ اس میں شامل ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ اس نظریاتی سوسائٹی میں انسان کے مقام اور اس کے اکرام میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ اور اس کا نظریہ اجتماع ان عناصر کی اساس پر ہوتا ہے جو انسانی عناصر ہیں ۔ ان پر نہیں جو جانوروں کو باہم اکٹھا کرتے ہیں ۔ اب انسان کے لئے صرف دوراستے ہیں ‘ ایک یہ کہ وہ اسلام کے نظریہ اجتماع کے مطابق وہ روحانی اور نظریاتی اساسوں پر جمع ہو اور انسانوں کی طرح رہے اور یا پھر حیوانوں کے ایک ریوڑ اور گلے کی طرح ہم جنس ‘ جو اکٹھے ہوں یا ایسے مویشی اکٹھے ہوں جن کی چراگاہ ایک ہے ۔ اور ان حدود وقیود کے اندر رہیں جو ان مویشیوں کے لئے بنائے گئے ہیں۔ اب امت مسلمہ کو بتایا جاتا ہے کہ اس جدل وجدال اور بحث ومباحثے کے پس منظر میں اہل کتاب کا اصل منصوبہ کیا ہے ؟ اس لئے اہل کتاب کی مکاریوں ‘ ان کی خفیہ تدبیروں اور دین کے ساتھ اس کھیل کا بھانڈا امت مسلمہ کے سامنے بھرے چورا ہے میں پھوڑا جاتا ہے وہ ستر پاش پاش کردیا جاتا ہے جس کے پیچھے چھپ کر یہ لوگ گھناؤنا کھیل کھیلا کرتے تھے اور انہیں جماعت مسلمہ کے سامنے صاف ننگا کرکے شرمندہ کردیا جاتا ہے۔
Top