Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 67
مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
مَا كَانَ : نہ تھے اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم يَهُوْدِيًّا : یہودی وَّلَا : اور نہ نَصْرَانِيًّا : نصرانی وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَانَ : وہ تھے حَنِيْفًا : ایک رخ مُّسْلِمًا : مسلم (فرمانبردار) وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ راہ راست والے مسلم تھے اور مشرکوں میں سے بھی نہ تھے،158 ۔
158 ۔ (بلکہ شرک سے سخت بیزار تھے۔ اور دنیاء شرک میں توحید کے پہلے علمبردار) (آیت) ” حنیفا مسلما “۔ ٹھیٹھ اردو میں ” سیدھے سادھے مسلم “ (آیت) ” یھودیا ولا نصرانیا “۔ جس یہودیت اور جس نصرانیت کی نفی ہورہی ہے وہ مروجہ اور گھڑی ہوئی یہودیت اور نصرانیت تھی، ورنہ اصل حقیقت کے اعتبار سے جو دین حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تھا، وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی تھا۔ حضرت (علیہ السلام) کی توحید پرستی یہود ونصاری دونوں کو مسلم تھا۔ حضرت (علیہ السلام) کے دین توحید پر حاشیہ پارہ اول کے رکوع آخر میں گزر چکے۔ فقیہ مفسر جصاص نے لکھا ہے کہ ان آیتوں سے دین حق کی حمایت میں دلائل قائم کرنے اور اہل باطل کے جواب دینے کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ وفی ھذہ الایات دلیل علی وجوب المحاجۃ فی الدین واقامۃ الحجۃ علی المبطلین (جصاص)
Top