Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 67
مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
مَا كَانَ : نہ تھے اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم يَهُوْدِيًّا : یہودی وَّلَا : اور نہ نَصْرَانِيًّا : نصرانی وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَانَ : وہ تھے حَنِيْفًا : ایک رخ مُّسْلِمًا : مسلم (فرمانبردار) وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھی اور نہ وہ نصرانی تھے بلکہ وہ ایک مخلص فرماں بردار تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے2
2۔ سنو ! تم لوگ ایسے ہو کہ ان چیزوں میں تو کٹ حجتی کیا ہی کرتے تھے جن کا تم کو تھوڑا بہت علم تھا اور تم ان کو تھوڑی بہت واقفیت رکھتے تھے پھر اب تم ایسی باتوں میں کیوں حجت کرتے ہو اور کیوں جھگڑتے ہو جن کا تم کو بالکل ہی علم نہیں اور تم ان سے کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ وہ نصرانی تھے بلکہ وہ ایک مخلص فرمانبرداری اور سیدھی راہ چلنے والے مسلمان تھے اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے بھی نہ تھے۔ تھوڑے بہت علم کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کے معجزات وغیرہ کا تو تم کو تھوڑا بہت علم تھا اس میں تو بحث مباحثہ کر کے تم غلط نتیجے نکالا کرتے ہو اور حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انہی غلط نتیجوں کی بناء پر حضرت حق کا شریک بنائے بیٹھے ہو اب جن باتوں کا علم نہیں ان میں کیوں بحث و تکرار کرتے ہو جب تھوڑے بہت علم کے باوجود بعض خرق عادت کی بنا پر بندے کو الوہیت میں شریک ٹھہرا چکے تو اب نہ جاننے کی حالت میں خدا جانے کیا گل کھلائوگے اللہ تعالیٰ جانتا ہے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ کو اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جن باتوں میں تم جھگڑتے ہو ان کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر نبی پر جو احکام نازل ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اگر یہ شبہ کیا جائے جیسا کہ بعض نے کا ہے کہ سب سے علم کی نفی کرنا مشکل ہے جبکہ ان میں اکثر عالم اور احبا بھی تھے اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا علم جو غلط نتائج کا موجب ہو اور بےعملی اور گمراہی کا سبب ہو اس میں اور جہل میں کوئی فرق نہیں گویا ایسا علم عدم علم کے برابر ہے۔ لفظ حنیف کے معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں یعنی سب سے کٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کا ہوجائے۔ مفسرین نے اس لفظ کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ہم نے ان معنی میں سے مخلص اختیار کرلیا ہے اور ایسا مسلمان جو تمام غلط راستوں کو چھوڑ کر اور سب سے قطع تعلق کر کے ایک راہ کا ہوجائے اس سے بڑھ کر کون مخلص ہوسکتا ہے۔ یہودیت نصرانیت کی نفی کے ساتھ مشرکوں کو بھی نفی کردی اس کی وجہ ہم پہلے پارے میں عرض کرچکے ہیں کہ حضرت ابراہیم کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص ان سے اپنی نسبت قائم کرتا تھا اور ہر ملت والا حضرت ابراہیم کو اپنی ملت کا کہتا تھا یا اپنی ملت کو حضرت ابراہیم کی ملت سمجھتا تھا اس لئے ان کا حقیقی مسلک بیان فرما کر تمام ادیان باطلہ کی نفی فرما دی کہ وہ ان موجودہ ملل باطلہ میں سے کسی ملت پر بھی نہ تھا وہ تو سچا پکا مخلص اور سیدھی راہ چلنے والا مسلمان تھا اب آگے ان لوگوں کا بیان ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے واقعی صحیح نسبت رکھتے ہیں اور جو ان کی ملت کے اعتبار سے ان سے قریب تر ہیں ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top