Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 67
مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
مَا كَانَ : نہ تھے اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم يَهُوْدِيًّا : یہودی وَّلَا : اور نہ نَصْرَانِيًّا : نصرانی وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَانَ : وہ تھے حَنِيْفًا : ایک رخ مُّسْلِمًا : مسلم (فرمانبردار) وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھا اور نہ نصرانی (اور نہ کسی دوسری پارٹی بازی کا پیرو) بلکہ وہ تو اللہ کا فرمانبردار بندہ تھا اور بلاشبہ اس کی راہ شرک کرنے والوں کی راہ نہ تھی
ابراہیم (علیہ السلام) کیا تھا ؟ وہ اللہ کا ایک برگزیدہ بندہ تھا جو شرک سے بہت بےزار تھا : 143: ابراہیم (علیہ السلام) تو ” حَنِیْفًا مُّسْلِمًا “ ایک سیدھا سادھا مسلم یعنی ایک فرمانبردار بندہ تھا۔ وہ نہ تو یہود تھا اور نہ نصرانی اس لیے کہ یہودیت و نصرانیت تو بعد میں آئی اور ابراہیم (علیہ السلام) پہلے ہوچکے اور پھر یہ بھی کہ موجودہ یہودیت و نصرانتی وہ ادیان بھی نہیں جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے اس لیے کہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی بنایا ہوا ہے اس میں سوائے نام کے کوئی مشابہت بھی موجود نہیں۔ ہاں ! اگر اصل دین جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے اس پر تم قائم ہوتے تو بھی یہ کہنے کا کوئی جواز ہوتا کیونکہ جو دین ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا وہی موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی تھا۔ یہ اس لیے فرمایا گیا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی توحید پرستی یہود و نصاریٰ دونوں کے ہاں مسلم تھی۔ تم وہ لوگ ہو کہ تم میں سے یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنایا اور نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا یہ ایک کھلا شرک ہے جس کے تم دونوں فریق مرتکب ہوچکے اور ابراہیم (علیہ السلام) ” شرک کرنے والوں کی راہ پر نہیں تھا۔ “ ” حنیف “ اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر طرف سے رخ پھیر کر ایک خاص راستہ پر چلے۔
Top