Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 94
فَمَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَؐ
فَمَنِ : پھر جو افْتَرٰى : جھوٹ باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اس کے بعد بھی جو لوگ اپنی جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں اللہ کی طرف منسوب کرتے رہیں وہی درحقیقت ظالم ہیں ۔ “
اہل کتاب کے اعتراضات میں سے ایک اعتراض تحویل قبلہ پر بھی تھا ‘ یہ اعتراض بھی وہ بار بار دہراتے تھے ۔ یہ اعتراض اس لئے پیدا ہوا تھا کہ رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ طیبہ میں آپ سولہ ‘ سترہ یا اٹھارہ مہینوں تک نماز بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے رہے تھے ۔ باوجود اس کے کہ اس سے پہلے ‘ سورة بقرہ میں ‘ اس موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی تھی ‘ اور یہ بتایا گیا تھا کہ خانہ کعبہ دراصل حقیقی اور اصلی قبلہ تھا ‘ اور بیت المقدس کو عارضی طور پر ‘ بعض مصلحتوں کے تحت ‘ قبلہ قراردیا گیا تھا ‘ جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اپنی جگہ کردی تھی ‘ لیکن اس اظہار حقیقت کے باوجود یہودی باربار اسی اعتراض کو دہراتے رہتے تھے ۔ یہ کام وہ اس لئے کرتے تھے کہ اہل ایمان کے دلوں میں فکری انتشار اور تشکیک پیدا کی جائے اور ایک واضح حقیقت کے اندر التباس پیدا کیا جائے ۔ یہ کام آج ہمارے دور میں بھی ‘ اسلامی نظریہ حیات کے ہر موضوع کے بارے میں دشمنان دین کی جانب سے بڑے منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ از سر نو ان کے شبہات اور تلبیسات کی تردید فرماتے ہیں ۔
Top