Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zukhruf : 40
اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَاَنْتَ
: کیا بھلا تو
تُسْمِعُ الصُّمَّ
: تو سنوائے گا بہروں کو
اَوْ تَهْدِي
: یا تو راہ دکھائے گا
الْعُمْيَ
: اندھوں کو
وَمَنْ كَانَ
: اور کوئی ہو وہ
فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ
: کھلی گمراہی میں
“ اب کیا اے نبی ﷺ ، تم بہروں کو سناؤ گے ؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھاؤ گے ؟
آیت نمبر 40 تا 45 قرآن کریم میں یہ مثال باربار دہرائی جاتی ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینے کے لئے آتی ہے ۔ اور اس کے ذریعہ ہدایت و ضلالت کی حقیقت بھی بتائی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اللہ کی مشیت اور قضا و قدر کا جو نظام ہے اس کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی رسول کے فرائض میں یہ شامل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت پر لے آئے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسانوں میں سے ایک اعلیٰ ترین جدو جہد کرنے والے انسان یعنی رسول کے کام کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں اور قدرت الٰہیہ اور نظام معیشت کہاں تک ہے۔ اور اس سے عقیدہ توحید کی طرف اشارہ ، بہت ہی لطیف اشارہ کہ وہی کچھ ہوتا جو منظور خدا ہوتا ہے۔ افانت تسمع الصم او تھدی العمی ومن کان فی ضلل مبین (43 : 40) “ اے نبی ﷺ ، کیا تم بہروں کو سناؤ گے ، یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ راست دکھاؤ گے ؟” وہ تو نہ بہرے تھے اور اندھے تھے لیکن بہروں اور اندھوں کی طرح تھے اور گمراہی میں دور چلے گئے تھے ، اور ان پر دعوت اور پکار کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا۔ نہ وہ دلائل ہدایت کو سمجھتے تھے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی ڈیوٹی تو یہ تھی کہ جو سنتا ہے اسے سمجھائیں اور جو دیکھنا چاہے اسے راہ راست دکھائیں۔ جب انہوں نے اپنے یہ اعضا ہی معطل کر دئیے ہیں اور انہوں نے اپنے دل و دماغ کی آنکھیں ہی بند کردی ہیں تو رسول اللہ ﷺ ان کو ہدایت کس طرح دے سکتے ہیں۔ پھر اگر یہ گمراہ ہوتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ پر کیا ذمہ داری ہے۔ آپ نے اپنا فرض ادا کردیا۔۔۔۔ اب اللہ کا کام ہے کہ ادائیگی فرض کے بعد ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ فاما نذھبن بک فانا منھم متقمون (43 : 41) او نرینک الذی ۔۔۔۔۔ علیھم مقتدرون (43 : 42) “ اب تو ہمیں ان کو سزا دینی ہے ، خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں ، یا تم کو آنکھوں سے ان کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ، ہمیں ان پر پوری قدرت حاصل ہے ”۔ بہرحال ان دونوں صورتوں میں سے ایک ضرور پیش آئے گی۔ اگر اللہ نے نبی کو اٹھا لیا تو اللہ اس کے مکذبین سے انتقام لے گا اور اگر آپ کے ہوتے ہوئے وہ بات وجود میں آگئی جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے تو اللہ اس پر قادر ہے کہ جس بات سے وہ ڈرا رہا ہے ، اس کو وجود میں لائے ۔ وہ تو اللہ کو کسی صورت میں شکست نہیں دے سکتے۔ دونوں حالات میں معاملہ اللہ کی قدرت اور مشیت کے اختیار میں ہے ، اللہ ہی اس دعوت کا مالک ہے۔ رسول تو پیغام پہنچانے والا ہے۔ فاستمسک بالذی اوحی الیک انک علی صراط مستقیم ( 43 : 43) “ تم بہرحال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے ، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو ” ۔ آپ جس کام میں لگے ہوئے ہیں ، اس پر جم جائیں اور اپنے راستے پر چلیں ان لوگوں نے جو رویہ اختیار کیا یا آئندہ کریں گے اس کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ اپنے راستے پر پوری طرح مطمئن ہو کر چلیں۔ آپ تو یقیناً سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ راستہ آپ کو نہ ادھر ادھر لے جائے گا ، نہ اس میں ٹیٹرھ ہے اور نہ وہ اپنی منزل سے دور لے جاتا ہے۔ پھر جس عقیدے اور نظریہ کی آپ تبلیغ کرتے ہیں وہ اس پوری کائنات کی حقیقت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اللہ اس عام قانون کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ یہ نظریہ اس کائنات کے ناموس اکبر کی لائن پر ہے۔ اس سے جدا نہیں ہوتا اور نہ اس سے منقطع ہوتا ہے۔ اور یہ راستہ اپنے راہ رو کو ٹھیک اپنے خالق تک پہنچاتا ہے اور یہ اس قدر سیدھا ہے کہ سفر بھی نہایت ہی خوشگوار رہتا ہے۔ آپ ﷺ کو تاکید کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ اس حقیقت پر جمے رہیں اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کے جو داعی ہوں گے آپ ﷺ کا عمل ان کے لئے مشعل راہ ہوگا اگرچہ اس راہ کے منحرفین کے ہاتھوں ان کو اذیتیں کیوں نہ مل رہی ہوں۔ وانہ لذکر لک ولقومک وسوف تسئلون (43 : 44) “ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لئے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جوابدہی کرنی ہو گی ”۔ یہاں اس آیت کے دو مفہوم ہیں کہ یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور تم سے جلد ہی قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ لہٰذا اس نصیحت اور یاد دہانی کے بعد تمہارے پاس کوئی حجت نہ رہے گی۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے ایک شرف اور شہرت ہے اور یہ وہ مفہوم ہے جو واقع ہوگیا۔ جہاں تک رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے تو اربوں ہونٹ آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور رات دن اور صبح و شام آپ ﷺ کو عاشقانہ انداز میں یاد کرتے ہیں اور اس طرح حضور ﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت تک اربوں لوگ آپ ﷺ پر درود وسلام پڑھتے رہیں گے۔ رہی حضور ﷺ کی قوم تو جب قرآن آیا تو دنیا میں ان کا نام و نشان نہ تھا۔ اور اگر کچھ تھا تو زندگی کی کتاب پر ایک حاشیے کی شکل میں ، ایک کونے میں۔ یہ یہی قرآن ہے جس کے ذریعے انسانی تاریخ میں عربوں کا ایک عظیم کردار متعین ہوا۔ یہ قرآن ہی تھا جس کی وجہ سے ربع مسکوں ان کے زیر نگیں رہا۔ جب تک انہوں نے قرآن کو سینے سے لگا رکھا تھا اور جب انہوں نے قرآن کو چھوڑا تو دنیا نے ان کو چھوڑ دیا ، وہ دوبارہ حقیر ہوگئے اور پھر ان کو قافلہ انسانیت کی لائن میں سب سے پیچھے پھینک دیا۔ لیکن جب قرآن انہوں نے سینے سے لگایا ہوا تھا تو وہ قافلہ سالار تھے۔۔۔۔ اور یہ ایک عظیم ذمہ داری تھی ، ۔۔۔۔۔ انسانیت کی ذمہ داری اور اس کے بارے میں اللہ عنقریب تم سے جواب دہی کرے گا کہ کیوں تم نے اس منصب کو چھوڑا۔ وسوف تسئلون (43 : 44) “ اور جلد ہی تم سے پوچھا جائے گا ”۔ یہ آخری مفہوم زیادہ جامع و مانع ہے۔ میں اسی کی طرف مائل ہوں۔ وسئل من ارسلنا ۔۔۔۔۔۔ یعبدون (43 : 45) “ تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود کئے کہ ان کی بندگی کی جائے ؟ ” اس حقیقت کو قرآن یہاں نہایت ہی منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس صورت میں کہ رسول اللہ سابقہ رسولوں سے پوچھ لیں۔ اجعلنا من دون الرحمن الھۃ یعبدون (43 : 45) “ کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کئے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے ”۔ اور پھر اس سوال کا جواب ہر رسول کی طرف سے قطعی انکار ہے۔ استفہام انکاری کی یہ وصیت نہایت ہی عجیب اور موثر ہے۔ اور یہ اسلوب نہایت ہی پر تاثیر ہے ، یعنی تاریخ سے پوچھو۔ رسول اللہ ﷺ اور انبیائے سابقین کے درمیان تو زمان و مکان کے طویل فاصلے ہیں۔ پھر موت وحیات کے فاصلے بھی بہت طویل ہیں ، آب زندہ ہیں اور انبیائے سابقہ فوت ہوگئے ہیں لیکن یہ تمام فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ پوری انسانی تاریخ میں رسالت تو ایک ہے ، پیغام ایک ہے اور کلمہ توحید بھی ایک ہے۔ اگرچہ زمان و مکان بعید ہیں۔ حیات اور موت کے درمیان دبیز پردے ہیں لیکن وحدت نبوت ان تمام دوریوں اور پردوں کو مٹا دیتی ہے۔ مردے اور زندہ ایک ہوجاتے ہیں۔ ماضی وحال ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہے قرآن کریم کا انداز تعبیر جو لطیف اور عجیب ہے۔ پھر نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے برادر دیگر انبیائے کرام اور اللہ کے ساتھ ان کے ربط کو دیکھا جائے تو یہاں قریب و بعید کے فاصلے ختم ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے ہاں یہ پردے چشم زدن میں دور ہوجاتے ہیں اور تمام رکاوٹیں اور فاصلے دور ہو کر حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے۔ حضور ﷺ پھر سوال کرتے ہیں اور انبیاء جواب دیتے ہیں جیسا کہ لیلۃ المعراج میں ہوا۔ ایسے مقامات پر چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کے معمولات اور عادات کو اہمیت نہ دیں کیونکہ یہ مالوفات جو ہم دیکھتے ہیں کہ سبب کے بعد مسبب آتا ہے۔ یہ اللہ کے حوالے سے کوئی کلی قواعد نہیں ہیں۔ ہم تو اس کائنات کے بعض آثار ہی کو دیکھ سکتے ہیں اور اس کائنات کے طبیعی حالات کے بھی ایک نہایت ہی معمولی حصے تک پہنچ سکے ہیں۔ کئی ایسے حقائق ہیں جو ہماری ساخت ، ہمارے حواس اور ہمارے مرتب کردہ نتائج سے وراء ہیں۔ جب نفس انسانی ان مالوفات اور طبیعات کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور اسے تجرد حاصل ہوجاتا ہے تو پھر ایک مجرد حقیقت تک انسان کا پہنچنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ یہ ادراک پھر اس سے آسان تر ہوتا ہے جس طرح کوئی اپنے ہی جسم سے کسی دوسرے جسم کو چھو کر ادراک کرے۔ ٭٭٭ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینے کے حوالے سے کہ کبرائے قریش نے آپ کی نبوت پر اعتراض کیا۔ آپ ﷺ کو کیوں منتخب کیا گیا ہے ۔ اور پھر آپ ﷺ کے انتخاب پر ان کا اعتراض صرف دنیا کی کھوٹی اور جھوٹی قدروں کی بنا پر کیا گیا ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حصے کی ایک کڑی لائی جاتی ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ آپ کی قوم نے جس طرح اپنے آپ کو بڑا سمجھا ، اسی طرح فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھا تھا۔ جس طرح انہوں نے کہا۔ لو لا نزل ۔۔۔۔۔۔ عظیم (43 : 31) “ یہ قرآن ان دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہیں اتارا کیا ”۔ اسی طرح فرعون نے بھی اپنی قوت ، حکومت اور مال و دولت پر گھمنڈ کیا تھا اور نہایت فخریہ انداز میں پوچھا تھا : الیس لی ملک ۔۔۔۔۔ تبصرون ( 43 : 51) “ لوگو ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا ”۔ اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا وہ محض اپنے دنیاوی مرتبہ و مقام کی بنا پر اور مال و دولت کی بنا پر تھا حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے برگزیدہ بندے اور نبی تھے۔ لیکن وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا : ام انا ۔۔۔۔۔ ولا یکادیبین (43 : 52) “ میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا ”۔ اور فرعون کی تجویز اور اہل قریش کی تجویز کس قدر مماثل ہیں۔ فلو لا القی ۔۔۔۔۔۔ مقترنین (43 : 53) “ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن نہ اتارے گئے یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا ”۔ یہ ایک نسخہ ہے جو بار بار پیغمبروں کے خلاف آزمایا جا رہا ہے۔ بنی بنائی دلیل ہے۔ جو ہر نبی کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عوام جن کو فرعون نے ذلیل کر کے رکھا ہوا تھا اور پوری طرح دھوکے میں رکھا ہوا تھا ، کس طرح فرعون کی بات پر لبیک کہتے ہیں۔ حالانکہ عوام اور فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حیران کن معجزات پیش کئے تھے۔ پھر ان لوگوں پر اور آزمائشیں بھی آئی تھیں اور یہ لوگ دوڑ کر آتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کراتے تھے اور اللہ ان مصیبتوں سے ان کو نجات دیتا تھا۔ جب معجزات اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حجت تمام ہوگئی تو ان کا انجام یہ ہوا۔ فلما اسفونا ۔۔۔۔ اجمعین (43 : 55) فجعلنھم سلفنا ۔۔۔۔۔ للاخرین (43 : 56) “ آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا اور بعد والوں کے لئے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا کر رکھ دیا ”۔ اور دیکھئے ، یہ ہیں بعد میں آنے والے ، نہ عبرت پکڑتے اور نہ نصیحت لیتے ہیں۔ اس پیراگراف کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسالت اور دعوت ایک رہی ہے۔ تمام رسولوں کا منہاج کار ایک رہا ہے ، راستہ ایک رہا ہے۔ اس طرح سرکشوں اور کبراء زمانہ کا رویہ بھی سچائی کے رد عمل میں ایک ہی رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ دنیا کی کھوٹی اور جھوٹی قدروں کے زاویہ سے پیغمبروں کو دیکھا اور ہمیشہ جمہور عوام کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے جن کو کبرا ذلیل کر کے رکھتے ہیں اور پوری انسانی تاریخ اس کی داستان ہے۔
Top