Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ
: پھر
نُنَجِّي
: ہم نجات دینگے
الَّذِيْنَ اتَّقَوْا
: وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی
وَّنَذَرُ
: اور ہم چھوڑ دینگے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
فِيْهَا
: اس میں
جِثِيًّا
: گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے۔ اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے
ثم ننجی الذین اتقوا ونذر الظلمین فیہا جثیا۔ پھر (جہنم پر اتارنے کے بعد) ان لوگوں کو ہم بچالیں گے جو (شرک سے) بچتے رہے تھے (عذاب دے کر یا بغیر سزا دیئے بہرحال اہل توحید و ایمان کو دوزخ سے نجات دے دی جائے گی) اور کافروں کو دوزخ کے اندر سب کو چھوڑ دیں گے۔ جِثِیًّا یعنی سب کو۔ یعنی دو زانو یا زانو کے بل بیٹھا چھوڑ دیں گے ‘ ورود سے مراد ہے داخل ہونا ‘ پل صراط جہنم کے اوپر ہوگا اور اس پر سے سب کو گزرنا ہی ہوگا۔ بعض اہل ہوٰی (یعنی فرقۂ مرجۂ والے جو ایمان صحیح کے بعد کسی گناہ کو ضرر رساں نہیں خیال کرتے اور کہتے ہیں اگر ایمان دل میں موجود ہے تو پھر کسی مؤمن کا داخلہ جہنم میں نہ ہوگا) ۔ کہتے ہیں کہ ورود سے مراد داخل ہونا نہیں ہے بلکہ دوزخ پر حاضر ہونا اور اس کو دیکھنا مراد ہے حساب کے مقام پر تو سب کو جانا ہی ہوگا اور مقام حساب جہنم کے قریب ہوگا اس لئے ہر ایک کو دوزخ سامنے نظر آئے گی۔ یہ فرقہ کہتا ہے کہ مؤمن کبھی دوزخ میں نہیں جائے گا ‘ کیونکہ جو شخص دوزخ میں چلا جائے گا وہ کبھی وہاں سے باہر نہ آسکے گا ‘ اللہ نے فرمایا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰءِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ لاَ یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَا۔ مقام حساب میں حاضر کرنے کے بعد اللہ مؤمنوں کو تو وہیں سے نجت دے کر جنت میں لے جائے گا اور کافروں کو دوزخ میں داخل کر دے گا۔ ورود (کا معنی قریب یا کنارے پر پہنچ جانا ‘ قرآن مجید میں بھی آیا ہے وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْیَنَاور جب موسیٰ مدین کے پانی (کنوئیں) پر اترے۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کنویں کے اندر نہیں اترے تھے کنارہ پر پہنچے تھے اس کی تائید رسول اللہ ﷺ : کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد اور ابو یعلی اور طبرانی نے قابل قبول سند کے ساتھ حضرت معاذ بن انس کی روایت سے بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی خوشی سے حاکم کے جبر کے بغیر جہاد میں مسلمانوں کی چوکیداری کرے گا وہ دوزخ کو اپنی آنکھ سے بھی نہیں دیکھے گا ‘ مگر صرف قسم پوری کرنے کے لئے کیونکہ اللہ نے فرما دیا ہے وَاِنْ مِّنْکُمْ الاَّ وَارِدُہَا (اور یہ جملہ اہل تفسیر کے نزدیک قسمیہ ہے) اہلسنّت کے مسلک کی تشریح اور مرجیۂ کے شبہات کا ازالہ ہم کہتے ہیں گردن اٹھا کر جھانکنا ‘ دیکھنا ‘ کنارہ پر پہنچ جانا اور حاضر ہونا بیشک ورود کے مجازی معنی ہیں (حقیقی معنی داخل ہوناہی ہے) اور مجازی معنی کی طرف رجوع کسی خاص ضرورت کے زیر اثر ہوتا ہے اور یہاں کوئی ضرورت داعی نہیں بلکہ اسی آیت میں مجازی معنی مراد نہ ہونے کی تائید ملتی ہے کیونکہ اس آیت میں لفظ ننجی اور نذر آیا ہے اور ظاہر ہے کہ نجات دینا یا دوزخ میں چھوڑ دینا اسی وقت ممکن ہے جب پہلے سے دوزخ میں داخلہ ہوگیا ہو۔ حدیث سے استدلال بھی ناکافی ہے ‘ حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ قسم پوری کرنے کے لئے دوزخ کو دیکھنا ضروری ہے آگ میں داخلہ نہ ہونا نہ مذکور ہے نہ مستنبط۔ رہی آیت اولٰءِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَتو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ دوزخ میں داخلہ کے بعد اور پھر نجات کا وقت اور حکم آجانے کے بعد ان کو دور کردیا جائے گا اس کے بعد وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے اور دور ہوجانے کے بعد پھر وہ دوزخ کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ آگ چونکہ ان کے لئے ٹھنڈی کردی جائے گی ‘ اس لئے دوزخ میں داخل ہونے کے وقت ان کو آگ کی آہٹ بھی سنائی نہیں دے گی۔ ہناد اور طبرانی اور بیہقی نے خالد بن معد کا قول نقل کیا کہ جنت میں پہنچ جانے کے بعد جنتی عرض کریں گے ‘ اے ہمارے مالک کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ آگ میں ضرور داخل کئے جائیں گے ‘ اللہ فرمائے گا ضرور یہ وعدہ کیا تھا اور ایسا ہو بھی گیا تم لوگ آگ پر سے گزر گئے اور (چونکہ) آگ ٹھنڈی کردی گئی (اس لئے تم کو محسوس بھی نہیں ہوئی) ۔ ابن عدی اور طبرانی نے حضرت یعلی بن امیہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن آگ مؤمن سے کہے گی (میرے اوپر سے) گزر جا ‘ تیرے نور نے میری لپٹ کو بجھا دیا۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ ورود بمعنی دخول ہے خواہ بصورت مرور ہی ہو (اندر گھسنا مراد نہ ہو اوپر سے گزر جانا مراد ہو) اس کا ثبوت ابو سمیہ کے اس بیان سے ملتا ہے جو امام احمد اور حاکم اور بیہقی نے نقل کیا ہے ابو سمیہ نے کہا ورود کے معنی کی تعیین میں ہمارا باہم اختلاف ہوگیا کسی نے کہا مؤمن دوزخ میں داخل ہی نہیں ہوگا کسی نے کیا دوزخ میں سب کو جانا ہوگا۔ پھر شرک سے پرہیز رکھنے والوں کو اللہ نجات دے دے گا ‘ میں نے اس اختلاف کا تذکرہ حضرت جابر بن عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کیا حضرت جابر نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں تک لے جا کر فرمایا یہ دونوں کان بہرے ہوجائیں اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے ان کانوں سے نہ سنا ہو کہ نیک ہو یا بد کوئی بھی آگ میں داخل ہوئے بغیر نہیں بچے گا مگر مؤمن کے لئے آگ ٹھنڈی پڑجائے گی اور باعث سلامتی ہوجائے گی جس طرح حضرت ابراہیم کے لئے ہوگئی تھی یہاں تک کہ مؤمنوں کی ٹھنڈک سے آگ چلا اٹھے گی ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْہَا جِثِیًّا پھر ہم شرک سے بچنے والوں کو نجات دے دیں گے اور سب کافروں کو اسی کے اندر چھوڑ دیں گے۔ بغوی نے بحوالۂ ابن عیینہ ‘ عمرو بن دینار کی روایت سے بیان کیا کہ نافع بن ارزق نے حضرت ابن عباس ؓ سے ورود کے معنی کی تشریح میں کچھ اختلاف کیا اور کہا ورود سے مراد داخل ہونا نہیں ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ اللہ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصْبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وَارِدُوْنَکیا اس آیت میں ورود سے مراد داخل ہونا نہیں ہے۔ کیا وہ جہنم میں داخل نہیں ہوں گے ‘ پھر فرمایا نافع تم اور میں سب اس میں داخل ہوں گے مجھے تو امید ہے کہ اللہ مجھے نکال لے گا لیکن میرا خیال ہے کہ تجھے نہیں نکالے گا کیونکہ تو داخل ہونے کا ہی منکر ہے۔ سعید بن منصور ‘ عبدالرزاق ‘ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے مجاہد کی روایت سے بیان کیا ہے کہ نافع بن ارزق حضرت ابن عباس ؓ سے ورود کے مرادی معنی کے متعلق جھگڑنے لگا۔ الی آخرہ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصْبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وَارِدُوْنَ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا ‘ کیا وہ آگ میں داخل ہوں گے یا نہیں۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی یَقْدِمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَوْدَہُمُ النَّارُاور فرمایا کیا وہ دوزخ میں اپنی قوم کو لے جائے گا یا نہیں۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا میں اور تو سب ہی اس میں داخل ہوں گے۔ اب تو خود ہی غور کرلے کہ تو وہاں سے نکلے گا یا نہیں (ہمیشہ اس کے اندر ہی پڑا رہے گا) بطریق عوفی حضرت ابن عباس ؓ کا قول آیت اِنْ مِّنْکُمْ الاَّوَارِدُہَاکی تفسیر میں آیا ہے کہ نیک اور بد سب ہی اس میں داخل ہوں گے کیا تم کو نہیں معلوم کہ (ورود بمعنی دخول دوسری آیات میں بھی آیا ہے) اللہ نے فرمایا ہے فَاَوْرَدَہُمْ النَّارَ ۔ وَبئسَ الْوِرْوُد الْمَوْرُوْدُ ۔ وَنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا۔ حاکم نے بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے آیت اِنْ مِّنْکُمْ الاَّ وَارِدُہَاکا معنی پوچھا گیا ‘ آپ نے فرمایا اِنْ مِّنْکُمْ الاَّ دَاخِلُہَا (یعنی وارد کا معنی ہے داخل) ۔ بیہقی نے بروایت عکرمہ بیان کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے آیت مذکورہ کی تشریح میں فرمایا دوزخ میں داخل ہوئے بغیر کوئی نہیں رہے گا۔ امام احمد ‘ ترمذی ‘ بیہقی اور حاکم نے بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود نے آیت وَاِنْ مِنْکُمْ الاَّ وَارِدُہَا کے سلسلہ میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب لوگ دوزخ پر اتریں گے۔ اس کے بعد اپنے اپنے اعمال کے موافق وہاں سے نکال لئے جائیں گے اوّل شخص بجلی چمکنے کی طرح (نکل جائے گا) پھر ہوا کی طرح پھر گھوڑے کی تیز دوڑ کی طرح پھر اونٹ کی رفتار کی طرح جس پر سامان بھی لدا ہو۔ پھر آدمی کے دوڑنے کی طرح پھر آدمی کی معمولی رفتار کی طرح۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ سب لوگ پل صراط پر اتریں گے ‘ اور اترنے سے مراد ہے ان کا قیام ‘ پھر اپنے اپنے اعمال کے موافق صراط سے باہر نکال لئے جائیں گے۔ کوئی بجلی کی طرح گزر جائے گا ‘ کوئی بہترین اونٹ کی طرح کوئی آدمی کی دوڑ کی طرح (دوڑ کر) گزر جائے گا یہاں تک کہ گزرنے والوں میں آخری شخص وہ ہوگا جو پل صراپ پر اپنے قدموں کے انگوٹھے رکھتا ہوا صراط سے گزر جائے گا۔ شیخین (بخاری و مسلم) نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایسا نہیں ہوگا کہ کسی مسلمان کے تین بچے مرجائیں اور وہ آگ میں داخل ہو ہاں صرف قسم پوری کرنے کے لئے (ضرور داخل ہوگا) اس کے بعد سفیان (راوی) نے آیت وَاِنْ مِنْکُمْ الاَّ وَارِدُہَاپڑھی ‘ طبرانی نے حضرت عبد بن بشیر انصاری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے تین نابالغ بچے مرجائیں گے وہ (دوزخ میں) نہیں اترے گا مگر رہگزر کی طرح۔ یعنی وہ پل صراط سے گزر جائے گا (بغیر ٹھہرنے کے) ۔ ابن جریر نے غنیم بن قیس کا بیان نقل کیا کہ لوگوں نے آگ میں وارد ہونے کے سلسلہ میں کچھ تذکرہ کیا ‘ حضرت کعب نے فرمایا (آگ سب) لوگوں کو روک لے گی یہاں تک کہ سب لوگوں کے قدم اس پر ٹھیک اس طرح سے ٹھہر جائیں گے نیکوں کے بھی اور بدوں کے بھی پھر (اللہ کی طرف سے) ایک پکارنے والا پکارے گا اپنے ساتھیوں کو روکے رکھ اور میرے رفقاء کو چھوڑ دے یہ ندا ہوتے ہی جو دوزخ کا ساتھی ہوگا وہ دوزخ میں دھنس جائے گا جس طرح آدمی اپنے بچے کو پہچانتا ہے اس سے زیادہ دوزخ اپنے دوست کو پہچانتی ہوگی اور مؤمن اس طرح نکل جائیں گے کہ ان کے کپڑے بھی (خشک نہ ہوئے ہوں گے) تر ہوں گے۔ سیوطی نے لکھا ہے بعض علماء اہل سنت کے نزدیک ورود سے مراد ہے داخل ہونا قرطبی نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے اور حضرت جابر وغیرہ کی احادیث سے استشہاد کیا ہے ‘ بعض اہل سنت کے نزدیک ورود سے مراد ہے گزر جانا ‘ نووی نے اس معنی کو پسند کیا ہے اور حضرت ابن مسعود کی اس روایت سے استدلال کیا ہے جس میں صراط سے گزرنے کا ذکر کیا گیا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے۔ (حضرت مفسر نے فرمایا) میں کہتا ہوں صراط سے گزرنا ہی موجب دخول ہے ‘ دخول سے مراد یہ نہیں ہے کہ آگ کے اندر گھس جائے۔ جہنم کے اوپر سے مرور بھی دخول ہی ہے لامحالہ ورود سے مراد دخول ہی ہے خواہ بطریق مرور ہی ہو ‘ مختلف احادیث میں تطبیق دینے کی یہی صورت ہے۔ اگر شبہ کیا جائے کہ بیہقی نے حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ ورود سے مراد ہے دوزخ پر سے گزر جانا بغیر داخل ہونے کے اور مرور دخول سے الگ مفہوم رکھتا ہے تو میں کہوں گا کہ حضرت حسن کے قول میں داخل ہونے سے مراد ہے اندر گھس جانا اور آگ کے اندر پہنچ جانا اور یقیناً گزر جانے کا مفہوم اندر گھس جانے کے مفہوم سے جدا ہے مطلق دخول مراد نہیں ہے (مطلق دخول تو مرور کو بھی شامل ہے) ۔ ہناد نے حضرت حفصہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں یقینی امید رکھتا ہوں کہ جو شخص بدر اور حدیبیہ میں حاضر تھا وہ دوزخ میں داخل نہ ہوگا ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اللہ نے وَاِنْ مِّنْکُمْ الاَّ وَارِدْہَا کَانَ عَلَی رَبِّکَ حَثْمًا مَقْضیا نہیں فرمایا ہے۔ فرمایا کیا تم نے اللہ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّلِمِیْنَ فِیْہَاِ جثیًّا۔ حضور ﷺ کا یہ آخری جواب بھی بتارہا ہے کہ حدیث مذکور میں داخل نہ ہونے سے مراد ہے اندر نہ گھس جانا اور وہاں استقرار نہ کرنا۔ سیوطی نے لکھا بکثرت سلف صالحین دوزخ میں وارد ہونے سے ڈرتے تھے (کیونکہ دوزخ پر ورود تو یقینی ہوگا) اور نکلنے کا احتمال ہے (یہ امر یقینی نہیں کہ صراط سے گزرتے ہوئے نکل جائیں گے اس لئے ان بزرگوں کو ہر وقت خوف رہتا تھا) ۔ امام احمد نے الزہد میں اور ہناد و بیہقی و سعید بن منصور و حاکم نے حضرت حازم بن ابی حازم کی روایت سے بیان کیا کہ ایک بار حضرت عبداللہ بن رواحہ رونے لگے بی بی نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں ‘ حضرت عبداللہ نے فرمایا مجھے خبر دی گئی ہے کہ میں یقیناً دوزخ پر اتروں گا اور یہ نہیں بتایا گیا کہ میں یقیناً وہاں سے نکلوں گا بھی۔ ہناد اور بیہقی نے ابو اسحاق کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت ابو میسرہ عمرو بن شرحبیل اپنے بستّر پر جانے کے لئے اٹھے اور فرمایا کاش میری ماں مجھے نہ جنتی بی بی نے پوچھا کیا بات ہے فرمایا اللہ نے یہ تو ہم کو بتادیا کہ میں (اور تم) ضرور دوزخ میں داخل ہوں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ میں (اور تم) وہاں سے نکلیں گے۔ امام احمد نے الزہد میں بیان کیا کہ حسن بصری نے فرمایا ایک شخص نے اپنے بھائی سے کہا کیا تجھے معلوم ہے کہ تو ضرور دوزخ پر اترے گا ‘ بھائی نے کہا جی ہاں اس شخص نے کہا کیا یہ بھی تجھے معلوم ہے کہ تو وہاں سے نکل بھی آئے گا بھائی نے کہا نہیں۔ اس شخص نے کہا پھر ہنسی کیسی (روتے رہنے کا مقام ہے چناچہ مرتے دم تک پھر اس کو ہنستے نہیں دیکھا گیا۔
Top