Tafseer-e-Saadi - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے
آیت 72 یہ خطاب نیک و بد، مومن اور کافر، تمام خلائق کے لئے ہے، خلائق میں کوئی ایسا نہیں ہوگا جو جہنم پر وارد نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حتمی فیصلہ ہے اور اس نے اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے اس کا نفاذ البدی اور اس کا وقوع حتمی ہے۔ البتہ وارد ہونے کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ تمام مخلوق جہنم میں حاضر ہوگی حتی کہ تمام لوگ گھبرا اٹھیں گے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو نجات دے دے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ وارد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ مگر اہل ایمان پر جہنم کی آگ سلامتی والی اور ٹھنڈی ہوجائے گی۔ بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’ دوارد ہونے “ سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو جہنم کے اوپر بنا ہوا ہوگا۔ لوگ اپنے اعمال کی مقدار کے مطابق پل پر سے گزریں گے، بعض لوگ پلک جھپکتے گزر جائیں گے، بعض ہوا کی سی تیزی سے گزریں گے، بعض عمدہ گھوڑوں، عمدہ سواریوں کی طرح اور بعض چلتے ہوئے، بعض گھسٹتے ہوئے گزریں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جن کو اچک کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ اس کے تقویٰ کے مطابق معاملہ ہوگا، اس لئے فرمایا، (ثم ننجی الذین اتقوا) یعنی پھر ہم ان لوگوں کو نجات دے دیں گے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر مامورات کی تعمیل کرتے اور محظورات سے اجتناب کرتے رہے ہوں گے۔ (ونذر الظلمین) ” اور چھوڑ دیں گے ہم ظالموں کو۔ “ یعنی جنہوں نے کفر اور معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا (فیھا جثیاً ) ” اس میں گھنٹوں کے بل گرے ہوئے۔ “ یہ سب عذاب ان کے ظلم اور کفر کے سبب سے ہوگا، جہنم میں ہمیشہ رہنا ان کا مقدر بن جائے گا، وہ عذاب کے مستحق ہوں گے اور نجات اسباب منقطع ہوجائیں گے۔
Top