Fi-Zilal-al-Quran - Al-Fath : 15
سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ١ۚ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ١ۚ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا١ؕ بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
سَيَقُوْلُ : عنقریب کہیں گے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے بیٹھ رہنے والے اِذَا انْطَلَقْتُمْ : جب تم چلوگے اِلٰى مَغَانِمَ : غنیمتوں کے ساتھ لِتَاْخُذُوْهَا : کم تم انہیں لے لو ذَرُوْنَا : ہمیں چھوڑدو (اجازت دو ) نَتَّبِعْكُمْ ۚ : ہم تمہارے پیچھے چلیں يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ يُّبَدِّلُوْا : کہ وہ بدل ڈالیں كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کا فرمودہ قُلْ : فرمادیں لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا : تم ہرگز ہمارے پیچھے نہ آؤ كَذٰلِكُمْ : اسی طرح قَالَ اللّٰهُ : کہا اللہ نے مِنْ قَبْلُ ۚ : اس سے قبل فَسَيَقُوْلُوْنَ : پھر اب وہ کہیں گے بَلْ : بلکہ تَحْسُدُوْنَنَا ۭ : تم حسد کرتے ہو ہم سے بَلْ : بلکہ، جبکہ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھتے نہیں ہیں اِلَّا قَلِيْلًا : مگر تھوڑا
جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ ” تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے “ ۔ یہ کہیں گے کہ ” نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو “۔ (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں۔
سیقول المخلفون ۔۔۔۔۔۔ یفقھون الا قلیلا (48 : 15) “ جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ “ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے ”۔ یہ کہیں گے کہ “ نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو ”۔ (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ”۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد فتح خیبر ہے۔ ممکن ہے فتح خیبر ہی ہو۔ اگر مراد خیبر نہ بھی ہو لیکن مراد یہی ہے کہ عنقریب مسلمان کسی مہم پر جائیں گے اور یہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں بھی جانے دو ۔ مفسرین نے خیبر کا نام اس لئے لیا ہے کہ خیبر کا واقعہ صلح حدیبیہ کے متصلا بعد میں ہوا۔ کیونکہ فتح خیبر محرم 7 ہجری میں ہوا۔ یعنی صلح حدیبیہ کے دو ماہ بعد۔ اور اس میں اموال غنیمت بھی بہت ملے تھے اور خیبر کے قلعے جزیرۃ العرب میں سے خارج کردیا گیا تھا۔ مفسرین نے یہ بات تواتر سے کہی ہے کہ حدیبیہ کی مہم پر جانے والوں کے ساتھ اللہ کا عہد تھا کہ خیبر کے اموال غنیمت میں ان کے ساتھ کوئی شریک نہ ہوگا۔ لیکن اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہے۔ شاید وہ عملی واقعات سے یہ اصول اخذ کررہے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کو اہل حدیبیہ کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ اور اس مہم میں آپ نے کسی اور کو ساتھ نہ لیا تھا۔ بہرحال اللہ نے نبی ﷺ سے کہہ دیا کہ آپ ﷺ پیچھے رہنے والے اعراب کی اس پیشکش کو رد کردیں جب وہ آپ ﷺ کے ساتھ قریب کے آسان اموال غنیمت کے لئے جانا چاہیں۔ اور یہ فیصلہ دے دیا کہ ان کا نکلنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے اور پیشگی اطلاع دے دی کہ جب آپ ﷺ ان کی پیشکش کو رد کریں گے تو وہ الزام لگائیں گے کہ تم ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ بل تحسدوننا “ بلکہ تم حسد کرتے ہو ”۔ تم اس مہم میں اس لیے نہیں لے جاتے کہ تم ہمیں اموال غنیمت نہیں دینا چاہتے۔ ساتھ ہی پھر فوراً یہ کہہ دیا کہ یہ لوگ اللہ کی حکمت کو نہیں جانتے ، یہ کم فہم ہیں ۔ اللہ کی حکمت یہ ہے کہ پیچھے رہنے والوں کو ذرا محرومیت سے دوچار کیا جائے اور مطیع فرمان بندوں کو ذرا انعامات دئیے جائیں تا کہ ان کی اطاعت شعاری کا انعام انہیں ملے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے حالات میں اطاعت کی جب سامنے موت ہی موت نظر آرہی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہتا ہے کہ ان پیچھے رہ جانے والوں سے کہہ دیں کہ تمہارے لئے ایک اور امتحان کا مقام ابھی باقی ہے۔ عنقریب ایک مہم ایک زبردست قوم کے خلاف بھیجی جائے گی اور تمہیں اس میں بلایا جائے گا۔ اور یہ لوگ اسلام کی وجہ سے تمہارے ساتھ لڑیں گے۔ اگر اس امتحان میں کامیاب ہوگئے تو تمہارے لیے بھی اجر ہوگا۔ اگر اس آخری امتحان میں بھی تم معصیت پر جمے رہے تو پھر تم ہمیشہ کے لئے عذاب الیم کے مستحق ہوجاؤ گے۔
Top