Madarik-ut-Tanzil - Al-Fath : 20
سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ١ۚ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ١ۚ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا١ؕ بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
سَيَقُوْلُ : عنقریب کہیں گے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے بیٹھ رہنے والے اِذَا انْطَلَقْتُمْ : جب تم چلوگے اِلٰى مَغَانِمَ : غنیمتوں کے ساتھ لِتَاْخُذُوْهَا : کم تم انہیں لے لو ذَرُوْنَا : ہمیں چھوڑدو (اجازت دو ) نَتَّبِعْكُمْ ۚ : ہم تمہارے پیچھے چلیں يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ يُّبَدِّلُوْا : کہ وہ بدل ڈالیں كَلٰمَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کا فرمودہ قُلْ : فرمادیں لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا : تم ہرگز ہمارے پیچھے نہ آؤ كَذٰلِكُمْ : اسی طرح قَالَ اللّٰهُ : کہا اللہ نے مِنْ قَبْلُ ۚ : اس سے قبل فَسَيَقُوْلُوْنَ : پھر اب وہ کہیں گے بَلْ : بلکہ تَحْسُدُوْنَنَا ۭ : تم حسد کرتے ہو ہم سے بَلْ : بلکہ، جبکہ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھتے نہیں ہیں اِلَّا قَلِيْلًا : مگر تھوڑا
جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے قول کو بدل دیں کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اسی طرح خدا نے پہلے تو فرما دیا ہے پھر کہیں گے (نہیں) تم تو ہم سے حسد کرتے ہو بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں مگر بہت کم
اہل حدیبیہ کے ساتھ غنائم کا عوض رہنے کا وعدہ : آیت 15 : سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ (عنقریب پیچھے رہنے والے کہیں گے) وہ لوگ جو حدیبیہ میں ساتھ نہ گئے تھے۔ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ (جب تم غنیمتیں لینے چلو گے) مغانم سے غنائم خیبر مراد ہیں۔ لِتَاْخُذُوْہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلٰمَ اللّٰہِ (ہم کو بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے ساتھ چلیں وہ لوگ یوں چاہتے ہیں۔ کہ خدا کے حکم کو بدل ڈالیں) قراءت : حمزہ ٗ علی نے کَلِمَ اللّٰہ پڑھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو تبدیل کردیں جو اس نے اہل حدیبیہ کے ساتھ فرمایا۔ اور وہ وعدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو مکہ کے غنائم کا عوض عنایت فرمائیں گے اور وہ خیبر کے غنائم ہونگے۔ جب وہ ان کو چھوڑ کر لوٹیں گے اور ان میں سے کوئی چیز نہ پائیں گے۔ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا (آپ کہہ دیجئے تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے) یعنی خیبر کی جانب۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی وہ تمہارے ساتھ نہ ہونگے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بات بدلی نہیں جاسکتی۔ کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ (اللہ تعالیٰ نے پہلے سے اسی طرح فرما دیا ہے) مدینہ کی طرف اہل حدیبیہ کی واپسی اور خیبر کی غنیمت کے وہ مستحق ہونگے جو حدیبیہ میں شریک ہوئے نہ اور کوئی۔ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا۔ (تو وہ لوگ کہیں گے تم ہم سے حسد کرتے ہو) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ تم ہم پر حسد کرتے ہو۔ کہ کہیں ہم مال غنیمت میں تمہارے ساتھ شریک نہ ہوجائیں۔ بَلْ کَانُوْا لاَیَفْقَہُوْنَ (بلکہ خود یہ لوگ بہت کم بات سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کلام میں سے نہیں سمجھتے) اِلاَّ قَلِیْلًا (مگر بہت معمولی) یعنی فقط بات کی حد تک۔ دو بل : اول بل اس بات کی تردید کے لئے لائے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نہ جائیں اور ان کے حسد کو ثابت کیا گیا ہے۔ دوسرے بل میں ان کے اس بیان کی تردید جو وہ مسلمانوں کو حسد کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان کا اس سے بڑا وصف جہالت اور قلت ِفہم بیان کیا گیا۔
Top