Kashf-ur-Rahman - An-Naml : 44
لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ
لَاُقَطِّعَنَّ : میں ضرور کاٹ ڈالوں گا اَيْدِيَكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَرْجُلَكُمْ : اور تمہارے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : دوسری طرف ثُمَّ : پھر لَاُصَلِّبَنَّكُمْ : میں تمہیں ضرور سولی دوں گا اَجْمَعِيْنَ : سب کو
میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا
تشدد ، تعذیب اور سخت اور عبرت آموز سزا۔ یہ ہیں وہ وسائل جو ہر طاغوتی نظام ، حق کے مقابلے میں لاتا ہے۔ اس لئے کہ حق کا مقابلہ کبھی بھی حجت اور استدلال سے نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ تشدد کے ہتھیار ہمیشہ سچائی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن جب نفس انسانی کو ایمانی سربلندی حاصل ہوجاتی ہے اور اس کے اندر ایمان کی حقیقت جاگزیں ہوجاتی ہے تو وہ اس کرہ ارض کی عظیم قوتوں کے مقابلے میں آکھڑا ہوتا ہے اور اسے سرکشوں اور طاغوتوں کے انتقام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور ایسے افراد کی زندگی میں نظریہ حیات کو دنیاوی زندگی پر برتری حاصل ہوجاتی ہے اور یہ فانی زندگی آنے والی دائمی زندگی کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ جب نفس انسانی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ کیا ہے اور کیا چھوڑے یا کیا ہے یا وہ کیا پائے گا اور کیا کھوئے گا اور اس کو اس راہ میں کیا کیا مشکلات انگیز کرنی ہوں گی ؟ اور کیا کیا مشقتیں اٹھانی ہوں گی ؟ کیونکہ اس کا نصب العین دور افق پر روشن نظر آتا ہے اور اس کی نظر بلند ہوجاتی ہے اور وہ پھر نیچے راستے کے کانٹوں کی طرف دیکھتا ہی نہیں ہے۔
Top